بیت المقدس ہی اسرائیل کا دارالحکومت کیوں؟ 

684

یہودیوں کے First Temple کی تباہی کے بعد Second Temple بھی تباہ ہوچکا ہے۔ صہیونیوں کا کہنا ہے کہ جب تک وہ ہیکل سلیمانی کو اس کی اصل جگہ پر بحال نہیں کردیتے، اس وقت تک پوری دنیا پر ان کا قبضہ مکمل نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ان کے پاس ہیکل ثالث یا Third Temple کی تعمیر کا منصوبہ ہے۔ ہیکل ثالث کی تعمیر سے آگے ایک اور بھی چیز ہے جس کے لیے وہ انتہائی بے چین ہیں۔ یہ ہے تابوت سکینہ کا حصول۔ تابوت کے لغوی معنی صندوق کے ہیں۔
یہودی روایات کے مطابق یہ شمشاد کی لکڑی کا ایک صندوق تھا جو سیدنا آدم علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ یہ آخرِ زندگی تک آپ کے پاس ہی رہا۔ پھر بطور میراث یکے بعد دیگرے آپ کی اولاد کو ملتا رہا۔ یہاں تک کہ یہ سیدنا یعقوب علیہ السلام کو ملا اور آپ کے بعد آپ کی اولاد بنی اسرائیل کے قبضے میں رہا۔ اور جب یہ صندوق سیدنا موسیٰ ؑ کو مل گیا تو آپ اس میں تورات شریف، اپنا عصا اور خاص خاص سامان رکھنے لگے۔
یہ بڑا ہی مقدس اور بابرکت صندوق تھا۔ بنی اسرائیل جب کفار سے جہاد کرتے تھے اور کفار کے لشکروں کی کثرت اور ان کی شوکت دیکھ کر سہم جاتے اور ان کے سینوں میں دل دھڑکنے لگتے تو وہ اس صندوق کو اپنے آگے رکھ لیتے تھے تب اس صندوق سے ایسی رحمتوں اور برکتوں کا ظہور ہوتا تھا کہ مجاہدین کے دلوں میں سکون و اطمینان کا سامان پیدا ہوجاتا تھا اور مجاہدین کے سینوں میں لرزتے ہوئے دل چٹانوں سے زیادہ مضبوط ہوجاتے تھے۔ اور جس قدر صندوق آگے بڑھتا تھا آسمان سے نصرت اترتی اور فتح مبین حاصل ہوجایا کرتی تھی۔
بنی اسرائیل میں جب کوئی اختلاف پیدا ہوتا تھا تو لوگ اسی صندوق سے فیصلہ کراتے تھے۔ صندوق سے فیصلے کی آواز اور فتح کی بشارت سنی جاتی تھی۔ بنی اسرائیل اس صندوق کو اپنے آگے رکھ کر اور اس کو وسیلہ بنا کر دعائیں مانگتے تھے تو ان کی دعائیں مقبول ہوتی تھیں اور بلائیں، مصیبتیں اور وبائیں و آفتیں ٹل جایا کرتی تھیں۔ یوں یہ تابوتِ سکینہ بنی اسرائیل کے لیے برکت و رحمت کا خزینہ اور نصرتِ الٰہی کے نزول کا ذریعہ تھا مگر جب بنی اسرائیل طرح طرح کے گناہوں میں ملوث ہوگئے اور ان لوگوں میں سرکشی و عصیان کا دور دورہ ہو گیا تو ان کی بداعمالیوں کی نحوست سے ان پر خدا کا غضب نازل ہوا اور قوم عمالقہ کے کفار نے ایک لشکر جرار کے ساتھ ان پر حملہ کردیا۔ انہوں نے بنی اسرائیل کا قتل عام کر کے ان کی بستیوں کو تاخت و تاراج کر دیا اور اس متبرک صندوق کو بھی اٹھا کر لے گئے۔ انہوں نے اس مقدس تبرک کو نجاستوں کے ڈھیر میں پھینک دیا۔ لیکن اس بے ادبی کا قوم عمالقہ پر یہ وبال پڑا کہ یہ لوگ طرح طرح کی بیماریوں اور بلاؤں مبتلا کر دیے گئے۔ چناں چہ قوم عمالقہ کے پانچ شہر بالکل برباد اور ویران ہوگئے۔ یہاں تک کہ ان کافروں کو یقین ہو گیا کہ مقدس صندوق کی بے ادبی کا عذاب ان پر پڑ گیا ہے تو ان کافروں کی آنکھیں کھل گئیں۔ چناں چہ ان لوگوں نے اس مقدس صندوق کو ایک بیل گاڑی پر لاد کر بیلوں کو بنی اسرائیل کی بستیوں کی طرف ہانک دیا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے چار فرشتوں کو مقرر فرما دیا جو اس مبارک صندوق کو بنی اسرائیل کے نبی سیدنا شمویل ؑ کی خدمت میں لائے۔ اس طرح پھر بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی نعمت دوبارہ ان کو مل گئی۔ اور یہ صندوق ٹھیک اس وقت سیدنا شمویل ؑ کے پاس پہنچا، جب سیدنا شمویل ؑ نے طالوت کو بادشاہ بنا دیا تھا۔ اور بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے اور یہی شرط ٹھیری تھی کہ مقدس صندوق آجائے تو ہم طالوت کی بادشاہی تسلیم کرلیں گے۔ چناں چہ صندوق آگیا اور بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی پر رضا مند ہوگئے۔
یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ تابوت سکینہ میں دیگر تبرکات کے علاوہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی بھی ہے۔ اگر کسی طرح یہ انگوٹھی اور دیگر تبرکات ہاتھ آجائیں تو پھر دنیا پر ان کی حکومت کوئی نہیں روک سکتا۔ صہیونیوں کا یہ بھی خیال ہے کہ تابوت سکینہ سیدنا سلیمانؑ کے تخت کے نیچے ہی دفن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی حکومت میں محکمہ آثار قدیمہ کو انتہائی اہمیت حاصل ہے اور ان ہی ماہرین آثار قدیمہ کی نگرانی میں پورے بیت المقدس کو کھود ڈالا گیا ہے تاکہ کسی طرح تابوت سکینہ کا حصول ممکن ہوسکے۔
ایک بات سمجھنے کی ہے کہ سیدنا سلیمان ؑ کا محل مسجد اقصیٰ سے متصل تھا اور یہیں پر ان کا تخت تھا۔ اس لیے مسجد اقصیٰ کا سیدنا سلیمان ؑ کے محل سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہیکل سلیمانی کا جو نقشہ بیان کیا جاتا ہے اس کا بھی مسجد اقصیٰ سے کوئی تعلق نہیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ صہیونی مسجد اقصیٰ کے نیچے سرنگیں کھود رہے ہیں؟ اس کی ایک وجہ تو وہی ہے جو ابرہہ کے کعبتہ اللہ پر حملے کے لیے تھی۔ مسجد اقصیٰ کی موجودگی میں ہیکل سلیمانی بننے کے بعد بھی اس کی مطلوب حیثیت نہیں ہوگی۔ مسجد اقصیٰ کے معدوم ہونے کے بعد ہیکل ثالث کو پھر مطلوبہ حیثیت دینے کی کوشش کی جائے گی۔
یہ سب تو ٹھیک ہے مگر اصل سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اس سب کا ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے کیا تعلق ہے۔ ہیکل سلیمانی کی تاریخ جاننے کے بعد اس سوال کا جواب معلوم کرنا آسان ہے۔ اسرائیل ہی کے ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ ہیکل سلیمانی قبۃُ الصخرہ کے نیچے واقع ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ اور قبۃُ الصخرہ کا علاقہ مسلمانوں کے زیر انتظام ہے۔ اسرائیل نے بیت المقدس پر چھ روزہ عرب جنگ کے دوران قبضہ کرلیا تھا تاہم قدیم شہر جس میں مسجد اقصیٰ اور قبۃُ الصخرہ شامل ہیں، کا انتظام اردن کے ہاشمیوں کے پاس تھا۔ اس کے لیے یروشلم مذہبی ٹرسٹ قائم ہے۔ دوسرے انتفاضہ میں اسرائیل نے یروشلم مذہبی ٹرسٹ کو بیت المقدس سے نکال باہر کیا اور مسجد اقصیٰ اور قبۃُ الصخرہ پر بھی قبضہ کرلیا۔ یہ حقیقت ہے کہ پورے یروشلم پر عملی طور پر اسرائیل ہی کا قبضہ ہے مگر اس غاصبانہ قبضے کو دنیا میں کسی نے قبول نہیں کیا ہے۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہی اسرائیل کا بیت المقدس پر ناجائز قبضہ جائز ہوجائے گا اور پھر اس کے لیے ہیکل ثالث کی تعمیر آسان ہوجائے گی۔
ہیکل ثالث کی تعمیر یہودیوں کے لیے کتنی اہم ہے اور وہ اس کے لیے اتنا بے تاب کیوں ہیں؟ اس پر گفتگو آئندہ کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔