بیت المقدس ہی اسرائیل کا دارالحکومت کیوں؟ 

465

مسعود انور (آخری حصہ)

ہیکل ثالث یا Third Temple عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ فری میسن کی رکنیت کے مدارج میں جو تمثیل ہوتی ہے وہ ہیکل کی فرضی تعمیر ہی کی ہوتی ہے۔ اس کی رکنیت کے مختلف مدراج کو بھی تعمیری صنعت سے متعلق نام دیے گئے ہیں۔ جیسا کہ سب سے ابتدائی یا نچلی سطح کے رکن کو اپرنٹس کا نام دیا جاتا ہے۔ اس سے اوپر والے کو فیلو کرافٹ، تیسرے نمبر کے رکن کو ماسٹر کرافٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ فری میسنری میں کل 33 درجے ہوتے ہیں اور 33 واں درجہ سب سے بلند ہوتا ہے۔ تیسرے درجے تک کے ارکان ہر لاج میں ہوتے ہیں مگر تیسرے درجے سے اوپر کے ارکان بڑے لاج سے تعلق رکھتے ہیں۔ چوتھے درجے سے لے کر 14 ویں درجے تک کا لاج Lodge of Perfection کہلاتا ہے۔ چوتھے درجے سے چودھویں درجے تک کے ارکان کا خطاب بالترتیب Master Traveler، Perfect Master Master of the Brazen Serpent, Provost and Judge, Intendant of the Building, Master Elect of Temple, Master Elect of Fifteen, Sublime Master Elected, Grand Master Architect, Master of the Ninth Arch اور Grand Elect Mason کہا جاتا ہے۔ پندرہویں اور سولہویں درجے کے فری میسن ارکان کے لاج کو Council of Princes of Jerusalem کہا جاتا ہے۔ پندرہویں درجے کے فری میسن کا لقب Knight of the East or Sword اور سولہویں درجے کے فری میسن کو Prince of Jerusalem کہا جاتا ہے۔
اگلے دو درجوں کی کونسل کو Chapter of Rose Croix کہا جاتا ہے۔ 17 ویں درجے کے فری میسن کو Knight of the East and West اور 18 ویں درجے کے فری میسن کو Knight of the Rose Croix of H.R.D.M. کہا جاتا ہے۔ 19 ویں درجے سے 32 ویں درجے کی کونسل اہم ترین فیصلے کرتی ہے اور اس کا نام Consistory ہے۔ 19 ویں درجے کے فری میسن کا لقب Grand Pontiff، 20 ویں درجے کا لقب Master ad Vitam، 21 ویں درجے کا لقب Patriarch Noachite، 22 ویں درجے کا لقب Prince of Libanus، 23 ویں درجے کا لقب Chief of the Tabernacle، 24 ویں درجے کا لقب Brother of the Forest، 25 ویں درجے کا لقب Master of Achievement، 26 ویں درجے کا لقب Prince of Mercy، 27 ویں درجے کا لقب Knight of Jerusalem، 28 ویں درجے کا لقب Knight of the Sun، 29 ویں درجے کا لقب Knight of St. Andrew، 30 ویں درجے کا لقب Grand Inspector، 31 ویں درجے کا لقب Knight Aspirant اور 32 ویں درجے کا لقب Sublime Prince of the Royal Secret ہے۔ گو کہ 33 ویں درجے کے فری میسن کے لیے الگ سے کوئی لقب نہیں ہے مگر یہ درجہ 32 ویں درجے کے ان فری میسنروں کو دیا جاتا ہے جن کی کارکردگی دیگر 32 ویں درجے کے فری میسنروں سے ممتاز ہو۔
ان القابات کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فری میسنری میں یروشلم اور ہیکل ثالث کی تعمیر کتنی اہم ہے۔ کئی سو برس سے ہیکل ثالث یہودیوں کا خواب ہے تاہم اس کی فوری تعمیر وہ خود بھی نہیں چاہتے تھے۔ یہودی ربیوں کا خیال ہے کہ ہیکل ثالث کی تعمیر کا براہ راست تعلق مسیح دجال کی دنیا میں آمد سے ہے۔ کچھ ربیوں کا کہنا ہے کہ جیسے ہی ہیکل ثالث کی تعمیر مکمل ہوگی ویسے ہی مسیح دجال کی دنیا میں آمد ہوجائے گی جب کہ کچھ کا خیال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسیح دجال کی دنیا میں آمد کے ساتھ ہی اس کی تعمیر ہونی چاہیے۔ ہیکل ثالث کی تعمیر کے لیے اسرائیل میں باقاعدہ ایک تنظیم Temple Institute کے نام سے قائم ہے۔
اس موقع پر ایک یاد دہانی۔ امریکی کانگریس نے 1995 میں ایک بل منظور کیا تھا جس میں امریکی حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ وہ 1999 تک امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کردے۔ اس بل کے حق میں 374 جب کہ مخالفت میں 37 ووٹ ڈالے گئے تھے۔ امریکی سینیٹ میں یہی بل 5 کے مقابلے میں 93 ووٹوں سے منظور کر لیا گیا تھا۔ اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ 1995 میں امریکی پارلیمنٹ سے منظور کردہ بل جو اب تک معرض التوا میں پڑا ہوا تھا، اس کا اب ٹرمپ نے کیوں اعلان کردیا؟ سیدھی سی بات یہ ہے کہ عالمی سازش کاروں کی نظر میں ہیکل ثالث کی تعمیر کا وقت آن پہنچا ہے۔ صہیونی پوری طرح سے قبۃ الصخرہ کی جگہ ہیکل ثالث کی تعمیر کے لیے تیار ہیں۔
اس میں سے اہم ترین بات ہیکل ثالث کی تعمیر کے ساتھ خوں ریزی ہے۔ بائبل کی مختلف آیات کی مدد سے صہیونی خود یہ بات بتاتے ہیں کہ ہیکل ثالث کی تعمیر کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا میں شدید خوں ریزی ہوگی۔ صہیونی اسے دور فتنہ سے تعبیر کرتے ہیں جو سات سال پر مشتمل ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہیکل ثالث کی تعمیر کا آغاز ہوتے ہی خوں ریزی کا آغاز ہوجائے گا اور پہلے ساڑھے تین سال میں دنیا کی ایک چوتھائی آبادی ماری جائے گی۔ اس کے بعد انسانوں کے مرنے کا دوسرا دور شروع ہوگا جس میں مزید ایک چوتھائی آبادی موت کا شکار ہوگی۔ موجودہ آبادی کا اندازہ 7 ارب نفوس ہے۔ اگر صہیونیوں کے منصوبوں کو درست مان لیا جائے تو سات برس میں ساڑھے تین ارب نفوس موت کا شکار ہوجائیں گے۔ صہیونیوں کے مطابق پہلے مرحلے میں ہونے والی خوں ریزی سے مشرق وسطیٰ، مشرقی اور وسطی ایشیا اور شمالی افریقا کے ممالک متاثر ہوں گے جب کہ دوسرے مرحلے میں آنے والی موت کی لہر سے عراق میں دریائے فرات سے لے یروشلم تک کی عرب بیلٹ متاثر ہوگی۔ صہیونی اس خوں ریزی کے آغاز کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے دور فتن کا آغاز اسرائیل کی پہاڑیوں پر ایک روزہ جنگ سے ہوگا جس میں روس، ترکی، عرب ممالک اور دیگر اسلامی ممالک جمع ہوکر اسرائیل پر چڑھائی کریں گے جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد مارے جائیں گے۔
صہیونی جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں، اس میں کتنی سچائی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر اس سے ہم ان کے ناپاک منصوبوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اب دوبارہ سے عرب خطے میں گزشتہ دو ماہ میں رونما ہونے والے واقعات کو دیکھیے، ان کے پس پردہ اسباب کو دیکھیے، بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے اعلانات کو دیکھیے تو بہت کچھ سمجھ میں آتا ہے۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔