کراچی کا نوحہ

391

شہر کراچی کی آبادی میں جوں جوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، سہولتیں گھٹتی جا رہی ہیں، مسائل بڑھتے جا رہے ہیں، شہر کی ٹھیکیداری کا وقت ختم ہوا لیکن اجارہ داری کا خاتمہ تاحال ممکن نہیں ہو سکا ہے، دعوے دار تقسیم در تقسیم ہو کر سامنے آ رہے ہیں۔ ان میں وہ بازو بھی ہیں جو آزمائے ہوئے ہیں جنہوں نے اقتدار و اختیارات کے ہوتے ہوئے بھی شہر قائد کے باسیوں کو کچھ نہ دیا اور وہ لوگ بھی ہیں کہ جن کے پاس کچھ نہ تھا، اختیارات نہ اقتدار پھر بھی وہ اس شہر کے لیے وہ کام کر گئے جو ان سے پہلے اور بعد کے آنے والوں کے لیے مثال بنا۔
کراچی جو کبھی شہروں کی دلہن کہلایا کرتا تھا، جہاں کی رونقیں رات میں اجالا بکھیر دیا کرتی تھیں، غریب جس کی آغوش میں پناہ لیا کرتے تھے، اور شہر بھی ان لوگوں کو ایک ماں کی طرح اپنی گود میں سمولیا کرتا تھا۔ نہ جانے کیا ہوا؟ کہ ایک ایسی نفرت کی آندھی چلی اور سب کچھ بہا کر لے گئی، لوگ ایک دوسرے کے سائے سے ڈرنے لگے، سر شام دروازے بند ہونا شروع ہوئے، خوف کا راج شہر کی فضاؤں پر ہونے لگا، موت کی دیوی اپنے خوں آشام پنجوں کے ساتھ رقصاں رہنے لگی، بھائی بھائی کا دشمن بنا۔ سنتے تھے کہ کبھی اس شہر کی سڑکیں پانی سے دھلا کرتی تھیں لیکن یہ کیا ہوا کہ ریت ہی بدل گئی، شہر کی سڑکوں کو خوں سے غسل دیا جانے لگا، یہ وہ نسل تھی کہ جس کے بڑوں نے ملک عزیز کے بنانے میں اپنی جاں تک لٹائی تھی، جو اپنا سب کچھ قربان کر کے آئے تھے، جن کی پہچان ہی منفرد تھی، تہذیب جن کی شناخت تھی۔ شہر کے وارث ہی شہر کی شناخت کو تاراج کرنے پر تل گئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ کچھ تو تھا کہ جو نوبت یہاں پہنچی؟ کوئی تو بات ایسی تھی کہ لوگ گھروں سے نکلے، کوئی ستم تو ہوا تھا کہ لسانیت وطنیت پر غالب آئی۔ نوجوان آلہ کار بنے، کتابیں چھوڑیں، ہتھیار اٹھائے، دہشت کی راہ اپنائی۔ کہتے ہیں کہ رائی ہوتی ہے تو پہاڑ بنتا ہے۔
کسی نے بھی تو ان سوالات کے جوابات تلاش نہ کیے، بھٹکے ہوؤں کو سینے سے نہ لگایا، ہر ایک ان کو مطعون کرتا رہا، برا بھلا کہتا رہا، کسی نے بھی تو ان کے جائز حقوق کی بات نہ کی، ہر ایک سازش کا شکار ہوتا رہا اور انہیں جھڑکتا رہا، کوئی تو آگے بڑھتا، ان سے ان کے مسائل جانتا، ان سے پوچھتا کہ کس نے تمہیں راہ سے بھٹکایا، کس نے تمہیں مسائل کے گرداب میں پھنسایا؟ ان کو گلے لگاتا، ان سے ان کی بات کرتا، ان کے ہاتھ سے ہتھیار لے کر ایک مرتبہ پھر ان کے ہاتھوں میں کتابیں دیتا مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ ان کو ایسا لگا کہ جو کچھ کہا جاتا ہے وہ درست کہا جاتا ہے، وہ شہر میں ہی نہیں صوبے بھر میں، وطن کے گوشے گوشے میں تیسری نسل تک پہنچنے کے باوجود اجنبی ہی قرار پائے ہیں، ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے جسے وہ اپنا کہہ سکیں۔
وقت اپنی چال چلتا رہا اور حالات تبدیل ہوتے رہے، وہ لوگ کہ جنہوں نے شہر قائد کے باسیوں کو قریباً چار عشرے اپنے جال میں محصور کیے رکھا، تقدیر نے انہیں ان کے انجام تک پہنچایا۔ تبدیلی تو آئی مگر ایسی تبدیلی نہ آئی کہ شہر کی رونقیں بحال ہو سکیں، لوگ آزاد فضا میں سانس لے سکیں، باقیات مختلف ناموں سے اپنی بقا کی جنگ میں مصروف دعوؤں کے ساتھ موجود ہیں۔ آنے والا چناؤ شاید اب بھی کوئی بڑی تبدیلی ثابت نہ کر سکے لیکن یہ ضرور ہوا ہے کہ تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔ ٹھیکے دار تو شاید کچھ جگہ نہ پا سکیں، انہیں پزیرائی تو حاصل نہ ہو سکے لیکن دعوے دار ممکن ہے اپنا کچھ وجود برقرار رکھ لیں۔ اب شہر پر وہی راج کرے گا جو اس کو اپنا سمجھے گا، جو اس کے مسائل پر صرف بات نہیں کرے گا، سیاست نہیں کرے گا بلکہ جو ان کے حل کے لیے میدان عمل میں اترے گا۔ اس شہر کے باسیوں کو چار عشروں کی قید سے نکالنا ہے تو اس کے دکھوں کا مداوا کرنا ہوگا، سینے سے لگانا ہو گا، اپنائیت کا احساس نہیں یقین دلانا ہوگا۔ ماضی کے اندھیروں سے نکال کر اجالوں میں لانا ہوگا۔ تحفظ کا احساس دلانا ہوگا۔ شہر اور شہریوں کے مسائل کو سمجھنا ہوگا۔
کراچی کو حقوق کے نام پر حقوق سے محروم کرنے والوں کا محاسبہ اسی طور ممکن ہے کہ شہر کے باسیوں کو ان کے جائز حقوق دلائے جائیں، ان کے مسائل کو حل کیا جائے، ان کو روزگار، تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کی جائیں، ان کے نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے انہیں مخصوص قومیت یا لسانیت کے نام سے مطعون کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے، ماضی کے اعلان کردہ طریقہ کار کہ جو جس مقام کا ہو اسے وہیں روزگار کی فراہمی ممکن بنائی جائے، سرکاری نوکریوں میں کراچی کے نوجوانوں کو شفافیت کی بنیاد پر جائز حصہ دیا جائے تو بڑی حد تک احساس محرومی کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔