اصغر خان…تنہا پرواز اُن کی فطرت بن گئی

229

اطہر ہاشمی
پاک فضائیہ کے پہلے سربراہ محمد اصغر خان ایک طویل عمر گزار کر آخری پرواز پر روانہ ہوگئے۔ ان کی پوری زندگی کامیابیوں اور ناکامیوں کی طویل اور دل چسپ داستان ہے۔ کامیابی انہیں فضائوں میں ملی اور جب وہ زمین پر اترے تو پھر اُڑان نہ بھر سکے۔ گویا:
بڑھے تھے ہم بھی کبھی سیل بے کراں کی طرح
مگر سمٹ کے رہے گردِ کارواں کی طرح
سیاست میں انہیں عروج اس وقت حاصل ہوا جب وہ ذوالفقار علی بھٹو کی آمریت کے خلاف بننے والے ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ میں شامل ہوئے۔ اس اتحاد کے سربراہ تو مفتی محمود (مرحوم) تھے لیکن ایک سابق ائر مارشل اور اپنے دبنگ بیانات کی وجہ سے انہوں نے عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی تھی۔ 9 سیاسی جماعتوں پر مشتمل قومی اتحاد میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جو اصغر خان کی طرح تیز و تند بیانات دے سکتا۔ اٹک کے پل پر ایک اجتماع سے خطاب میں ان کا یہ بیان بھٹو سے تنگ آئے ہوئے عوام میں بڑا مقبول ہوا کہ ’’بھٹو کو اسی اٹک کے پل پر پھانسی دیں گے اور یہ پھانسی نصرت بھٹو کی ساڑھی سے دی جائے گی۔‘‘ لیکن سنجیدہ حلقوں میں یہ بیان پسند نہیں کیا گیا اور یہ ایک دھبے کی طرح اصغر خان کے دامن سے لپٹا رہا۔
ان پر ایک اور الزام یہ تھا کہ انہوں نے بھٹو کے خلاف تحریک میں جنرل ضیا الحق کو خط لکھ کر اقتدار پر قبضہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن وہ اس سے ہمیشہ انکار کرتے رہے لیکن ہوا یہی کہ جب پاکستان قومی اتحاد اور بھٹو کے درمیان مذاکرات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے ہی والا تھا کہ جنرل ضیا الحق اپنی چھڑی سنبھالے درمیان میں آگئے اور پھر جولائی 1977ء سے گیارہ سال تک ملک نے ایک اور فوجی حکومت کا مزا چکھا۔
اصغر خان پاکستان کی سیاست کے بہت سے اہم ادوار کے چشم دید گواہ رہے یا ان واقعات کا حصہ بنے لیکن ان کی طویل سیاسی زندگی ناکام رہی گو کہ وہ اسے ناکامی نہیں سمجھتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ صرف انتخابات جیت لینا ہی کامیابی نہیں ہوتی۔ فضائوں میں تنہا جہاز اُڑانے کی عادت ان کی فطرت کا حصہ بن چکی تھی اور یہ تنہا پرواز یا سولو فلائٹ ہی ان کی سیاسی ناکامی کا بڑا سبب رہی۔ پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) میں اپنی عوامی مقبولیت دیکھ کر انہیں یہ خوش فہمی ہوگئی تھی کہ بس آئندہ حکومت انہی کی ہوگی۔ اس عرصے میں جب وہ کراچی آئے تو عوام کے میلوں لمبے جلوس نے ان کا استقبال کیا۔ اسے دیکھ کر ان کا اپنی ذات پر اعتماد اتنا بڑھ گیا کہ انہوں نے اپنے دیگر سیاسی دوستوں اور ساتھیوں کو غیر ضروری بوجھ سمجھ کر جھٹک دیا۔ لیکن پھر جلد ہی عوام نے بھی انہیں جھٹک دیا۔ انہوں نے سیاست میں فعال رہنے کے لیے پہلے ’’جسٹس پارٹی‘‘ بنائی اور پھر تحریک استقلال کی بنیاد رکھی مگر نہ تو وہ عوام کو جسٹس دلانے میں کامیاب ہوسکے اور نہ ہی تحریک استقلال کسی استقلال کا مظاہرہ کرسکی۔ معاملات صرف گاہے گاہے دیے گئے بیانات تک محدود رہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سیاست میں نومولود افراد نے پہلے تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پیپلزپارٹی تو عوام کے غضب کا شکار ہو کر بکھر چکی تھی‘ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے بارے میں تاثر یہ تھا کہ یہ محض مذہبی جماعتیں ہیں اور ان کا دائرۂ کار اور دائرۂ اثر محدود ہے۔ چنانچہ اسلامی جمعیت طلبہ سے نام کمانے اور اپنی پہچان بنانے والے مخدوم جاوید ہاشمی نے بھی اپنے سیاسی آغاز کے لیے تحریک استقلال کا انتخاب کیا مگر ان کے اندر اب تک استقلال نہیں آیا۔ دوسرے میاں نواز شریف تھے جنہوں نے اصغر خان کے ہاتھ پر بیعت کی لیکن پھر یہی صاحب لاہور کے انتخابات میں اپنے مرشد کے مقابل کھڑے ہوئے اور جیت گئے۔
سیاست میں کامیاب پرواز نہ کرسکنے کے باوجود اصغر خان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے نو تشکیل پاکستان کی کمزور فضائیہ کو انتہائی مضبوط کر دیا اور پھر اس نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں جو بے مثال کارکردگی دکھائی اس کا سہرا اصغر خان کے سر ہے۔ اصغر خان نے 1940ء میں رائل انڈین ائر فورس میں شمولیت اختیار کرلی تھی لیکن جب 1945ء میں ان کی مختصر سی ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے ہوئی تو انہوں نے پاک فضائیہ میں شمولیت کا ارادہ کرلیا۔ قائد اعظم سے یہ ملاقات مختصر مگر فیصلہ کن رہی۔ اس کے بارے میں اصغر خان نے لکھا ہے کہ وہ جب دہلی میں انڈین ائر فورس کے 9 ویں اسکواڈرن کے کمانڈنگ افسر تھے تو ان دنوں ہالینڈ سے آزادی کے لیے انڈونیشیا کے عوامی رہنما سوئیکارنو نے مہم کا آغاز کر دیا تھا اور سوئیکارنو نے مسلمان پائیلٹوں کی مدد طلب کی تھی۔ اصغر خان بھی انڈونیشیا جا کر ہالینڈ کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے لیے تیار ہو چکے تھے تاہم انہوں نے طے کیا کہ کسی حتمی فیصلے سے پہلے مسلم لیگ کے رہنما محمد علی جناح سے پوچھ لیں۔ چنانچہ نومبر 1945ء کی ایک صبح وہ قائد اعظم سے ملنے دہلی کے صفدر جنگ ہوائی اڈے پہنچ گئے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان دنوں اصغر خان کے پاس ذاتی سواری نہیں تھی اور اتنی صبح کوئی سواری بھی دستیاب نہ تھی۔ چنانچہ اصغر خان اپنی قیام گاہ سے تین میل پیدل چل کر ہوائی اڈے پہنچے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ قائد اعظم ان دنوں اتنے مصروف تھے کہ ان کے پاس ملاقات کا وقت ہی نہیں تھا۔ قائداعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ قائد اعظم سے ملاقات ہوائی اڈے پر ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اصغر خان پہنچ گئے۔ کچھ دیر بعد قائد اعظم اور لیاقت علی خان بھی پہنچ گئے۔ قائد اعظم نے کائونٹر پر اپنا ٹکٹ چیک کروایا اور جب وہ جہاز میں سوار ہونے کے لیے جانے لگے تو اصغر خان ان کے پاس گئے۔ اصغر خان کا خیال تھا کہ قائد اعظم ان کے جکارتہ جانے کے فیصلے کی تائید کریں گے لیکن قائد اعظم نے بلا تامل کہا کہ ’’نہیں آپ کو انڈونیشیا نہیں جانا چاہیے‘ پاکستان کو پائیلٹوں کی ضرورت ہے۔‘‘
اصغر خان کہتے ہیں کہ یہ الفاظ سنتے ہی میں نے محسوس کیا کہ میری تقدیر کا فیصلہ ہو چکا ہے اور جس وقت میں قائد اعظم سے مل کر واپس آرہا تھا تو مجھے یوں لگ رہا تھا کہ اس عظیم ہستی کے سامنے میں کچھ بھی نہیں۔ ان کے مضبوط الفاظ نے پھر کبھی مجھے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنے دیا اور پھر تین میل پیدل واپسی۔ جب وہ جا رہے تھے تو لیاقت علی خان کی کار بھی ان کے پاس سے گزری مگر لفٹ نہیں دی۔ کاش اصغر خان اس وقت قائداعظم سے یہ بھی پوچھ لیتے کہ سیاست میں حصہ لوں یا نہیں؟
اصغر خان دوسری مرتبہ قائداعظم سے اپریل 1948ء میں پی اے ایف رسالپور میں ملے جب اصغر خان ونگ کمانڈر اور وہاں کے اسٹیشن کمانڈر تھے۔ محمد علی جناح کو یہ کہاں پتا تھا کہ یہی افسر 1957ء میں صرف 36 برس کی عمر میں پاکستان ائر فورس کا پہلا کمانڈر انچیف بن جائے گا۔
قائداعظم سے ملاقات کی ایک اور تقریب کا تذکرہ ضروری ہے۔ یہ ملاقات 14 اگست 1947ء کو کراچی میں ہوئی۔ گورنر جنرل کی حیثیت سے قائد اعظم نے گورنر جنرل ہائوس (موجودہ سندھ گورنر ہائوس) کے سبزہ زار پر ایک بڑا استقبالیہ دیا جس میں مسلح افواج کے درجن بھر افسران بھی شریک تھے‘ جن میں اصغر خان بھی شامل تھے‘ ان میں لیفٹیننٹ کرنل اکبر خان بھی شامل تھے جو بعد میں میجر جنرل بنے اور پنڈی سازش کیس میں ملوث کیے گئے۔ قائداعظم ٹہلتے ہوئے ان فوجی افسران کے پاس آئے تو اکبر خان نے شکوہ کیا کہ آزادی کے بعد بھی مسلح افواج کے اعلیٰ عہدوں پر برطانوی افسران کو تعینات کیا گیا ہے اور ہمارا مستقبل اب بھی ان کے ہاتھ میں ہے۔ قائداعظم نے بہت تحمل سے سن کر فرمایا ’’یہ مت بھولیںکہ آپ عوام کے نوکر ہیں‘ پالیسی بنانا آپ کا کام نہیں‘ یہ ہمارا یعنی عوام کے نمائندوں کا کام ہے۔ منتخب حکومتوں کے احکامات کی تعمیل کرنا آپ کی ذمے داری ہے۔‘‘
ان الفاظ کا اکبر خان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور چند سال بعد ہی انہوں نے لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی لیکن اس کے بعد ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک عوام کے نوکر کئی بار عوام کے آقا بن بیٹھے اور اب بھی یہ خطرہ ٹلا نہیں ہے بلکہ اب تو خود منتخب حکومت عوام کے نوکروں کو اکساتی نظر آرہی ہے۔
اصغر خان کی سیاست میں ناکامی کے باوجود ان کے دامن پر بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں لگا۔ وہ فضائیہ کے سربراہ بھی رہے اور پی آئی اے کے چیئرمین بھی جسے سونے کی کان سمجھا جاتا ہے۔ مگر اصغر خان گنتی کے ان سیاست دانوں میں سے ہیں جنہوں نے عوام کو اگر کچھ نہیں دیا تو ملک کو لوٹا بھی نہیں۔ حق مغفرت کرے۔