این آئی سی ایچ انتظامیہ کی غفلت ،قیمتی گاڑیاں کباڑ میں تبدیل 

135

کراچی (رپورٹ: قاضی عمران احمد) نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کے گیٹ پر موجود تجاوزات اور رکشہ، ٹیکسیوں کی پارکنگ نے سیکورٹی رسک کوبڑھا دیا‘ ایمبولینسوں کو اسپتال میں داخلے ہونے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اسپتال انتظامیہ کی غفلت کسی بڑے حادثے کو جنم دے سکتی ہے‘ این آئی سی ایچ نرسنگ اسٹاف کے لیے خریدی گئی بس اور ہائی ایس ایمبولینس گزشتہ کئی ماہ سے خراب کھڑی ہیں‘ انتظامیہ کی غفلت اور بے پروائی نے قیمتی بس اور ہائی ایس ایمبولینس کو کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔ این آئی سی ایچ کے ذرائع کے مطابق 40 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی یہ بس جے پی ایم
سی کے نرسنگ ہاسٹل سے اسٹاف کو لانے اور لے جانے کے لیے خریدی گئی تھی‘ کچھ عرصے تو یہ زیراستعمال رہی مگر بعد میں اسے ایک طرف این آئی سی ایچ کے احاطے میں ہی کھڑا کر دیا گیا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ اس بس کو سیاسی جلسے جلوسوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے‘ ماہ دسمبر میں لاڑکانہ میں ہونے والے بینظیر بھٹو کی برسی کے اجتماع میں بھی اس بس کی مرمت کے بعد اسے نوڈیرو لے جایا گیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ اس اکلوتی بس کے کھڑے ہو جانے کے باعث نرسنگ اسٹاف کو آمد و رفت میں انتہائی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت سندھ کے محکمۂ صحت کی جانب سے اس بس کی مرمت اور پیٹرول وغیرہ کی مد میں ملنے والی رقم انتظامیہ کی جیب میں چلی جاتی ہے اور بس کی مرمت پر خرچ نہیں کیا جاتا۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومت سندھ کے محکمۂ صحت کی جانب سے این آئی سی ایچ کے لیے دیگر سرکاری اسپتالوں کی نسبت اضافی بجٹ جاری کیا جاتا ہے مگر اس بجٹ کو علاج معالجے کی سہولتوں میں اضافہ کرنے کے بجائے خورد برد کر لیا جاتا ہے۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ این آئی سی ایچ 500 بستروں پر مشتمل بچوں کے علاج کے لیے بڑا اسپتال ہے مگر یہاں طبی سہولتوں کا فقدان ہے‘ ایک ہزار سے زائد یومیہ بچے او پی ڈی سے رجوع کرتے ہیں جب کہ ایمرجنسی وارڈ میں آنے والوں بچوں کی تعداد 500 سے زائد ہے‘ یہاں آنے والے معصوم اور نومولود مریض بچوں کی دیکھ بھال کے لیے تقریباً 60 سے 65 انکیو بیٹر اور 16 وینٹی لیٹر ہیں جو اتنی بڑی تعداد کے لیے ناکافی ہیں جس کی وجہ سے یہاں سے ملیر، لانڈھی، کورنگی، قیوم آباد، اختر کالونی سمیت شہر کے دیگر نجی اسپتالوں کی غیر رجسٹرڈ نرسریوں میں کمیشن کے عوض بچوں کی منتقلی کا مذموم کاروبار اپنے عروج پر ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اس مذموم کاروبار میں این آئی سی ایچ کے پیرا میڈیک اور نرسنگ اسٹاف کے مخصوص لوگ ملوث ہیں جو انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کے علاوہ سیاسی اثر و رسوخ کے بھی حامل ہیں‘ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ مذموم کاروبار کھلے عام جاری ہے اور انتظامیہ اس مافیا کے خلاف کسی بھی قسم کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔ ڈائریکٹر این آئی سی ایچ پروفیسر ڈاکٹر جمال رضا سے اس ضمن میں مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو علم ہوا کہ وہ چھٹیوں پر ملک سے باہر ہیں جب کہ ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر ارشد حسین ڈومکی نے کا کہنا تھا کہ ٹرانسپورٹ کے حوالے سے تمام معاملات ڈائریکٹر این آئی سی ایچ خود دیکھ رہے ہیں ‘میرے علم میں نہیں ہے جب کہ بچوں کی منتقلی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ شکایات ضرور آتی ہیں مگر اس حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ جن کی بنیاد پر کارروائی کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ گیٹ سے باہر تجاوزات اور رکشہ، ٹیکسیوں کی پارکنگ کا خاتمہ ٹریفک پولیس اہل کاروں کا کام ہے‘ اسپتال انتظامیہ کا نہیں۔