مولانا روم اور ابن عربی کا شاگرد

658

اطہر ہاشمی
اکبر الٰہ آبادی کی شہرت مزاحیہ شاعر کی ہے لیکن بات یہ تھی کہ ’’شاہد معنی نے اوڑھا ہے ظرافت کا نقاب‘‘۔ یہ نقاب سرکا کر اکبر الٰہ آبادی سنجیدہ شاعری بھی کرتے تھے اور غضب کی کرتے تھے۔ ان کا ایک شعر ہے:
ڈاکا تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے
ہنگامہ ہے کیوں برپا شادی ہی تو کی ہے
آج کل عمران خان اسی شعر کی نثری تفسیر و تشریح بیان کرتے پھر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک محفل میں انہوں نے اس موضوع پر کلام کرتے ہوئے اہل محفل کو ’’ہنسا ہنسا‘‘ دیا کہ میں تبصروں اور موصول ہونے والے پیغامات پر یہ سمجھا کہ شاید مودی مسلمان ہوگیا یا نواز شریف کو پتا چل گیا کہ انہیں کیوں نکالا۔ لیکن اب تک یہ پتا نہ چل سکا کہ تیسرا باقاعدہ نکاح ہوگیا یا ابھی رشتہ ہی گیا ہے۔
عمران خان نے جب لندن میں جمائما سے پہلی باقاعدہ شادی کی تھی اس دور کے ’’اکبر راجستھانی‘‘ پروفیسر عنایت علی خان نے یوں خراج تحسین پیش کیا تھا:
یار عمران خان جواب نہیں
جا کے لندن میں میچ کرتے ہو
کیچ مس ہو یہ تو ممکن ہی نہیں
تم تو مس کو بھی کیچ کرتے ہو
پروفیسر صاحب نے ’’میچ‘‘ کا ذو معنی استعمال بڑی خوبی سے کیا ہے اور جمائما اگر مس تھیں تو یہ پہلی بیگم عمران ہوں گی۔ عمر گزرنے کے ساتھ عمران خان نے ’مس‘ کو کیچ کرنا چھوڑ دیا۔ عمران خان نے جس نیک پروین سے سلسلہ جنبانی کیا ہے اس کے بارے میں صحافی حضرات پوری کھوج نکال لائے کہ نکاح کہاں ہوا، کس نے پڑھایا اور نکاح نامے پر کس کس کے دستخط ہیں۔ اب تو یہ رپورٹ بھی آگئی کہ کس نے ان پیرانی صاحبہ سے متعارف کرایا۔ یہ فریضہ چار شادیاں کرنے والی ماضی کی اداکارہ نور کے تیسرے شوہر عون چودھری نے انجام دیا۔ اداکارہ نور پیرانی صاحبہ کے بتائے ہوئے وظیفوں کی وجہ سے چار شادیاں کرچکی ہیں جن میں سے تین ناکام رہیں، وہاں کوئی وظیفہ کام نہ آیا، البتہ عون چودھری نے تحریک انصاف میں اچانک عروج حاصل کرلیا۔ وہ ہی عمران خان کو ان کے در پر لے گئے اور عمران خان پیرانی صاحبہ کے مرید ہوگئے۔ اگر شادی کی بات صحیح ہے تو عمران خان پر ’’زن مرید‘‘ ہونے کا پورا پورا اطلاق ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ کہاوت یا محاورہ یا اصطلاح سچ ثابت کر دکھائی۔ شادی نہ ہوئی تب بھی عمران خان ایک ’زن‘ کے مرید تو ہو ہی چکے ہیں۔ فارسی کی زن پنجاب میں جا کر ’رن‘ ہوجاتی ہے اور عمران خان اپنی جوانی میں خوب رن بناتے رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں عمران خان نے ایک اور دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ وہ تو پاکپتن کی بشریٰ بی بی کے پاس دوڑ دوڑ کر اس لیے جاتے تھے کہ ان سے مولانا رومی اور ابن عربی کو سمجھ سکیں۔ (جنگ جمعہ 12 جنوری)۔ اُمید ہے کہ اب عمران خان مولانا رومی اور ابن عربی کو خوب سمجھ چکے ہوں گے۔ استاد باکرامت ہو تو اسباق آسانی سے ازبر ہوجاتے ہیں۔ شاید یہ مولانا رومی کے کلام کا اثر ہے کہ عمران خان اپنی پیرانی اور استانی کو پیغام نکاح دے بیٹھے۔ تاہم ابن عربی کے اثرات نمودار ہونا باقی ہیں۔
ہمیں تو ملال اس بات کا ہے کہ ہمارے ملک میں مولانا روم اور ابن عربی کو نہ صرف سمجھنے بلکہ سمجھانے والی ایسی ہستی بھی موجود ہے لیکن کسی کو اس کے علم وفضل کا علم ہی نہیں۔ اگر عمران خان رشتہ بھیج کر یہ نہ بتاتے کہ بشریٰ بی بی اتنی بڑی عالم ہیں تو اب بھی کسی کو نہ پتا چلتا۔ سچ تو ہے کہ اہل کمال اپنے آپ کو چھپا کر رکھتے ہیں مگر بقول اکبر الٰہ آبادی ’’بھلا چھپ سکتا ہے اکبر پھول‘ پتوں میں نہاں ہو کر‘‘۔ اتنا بڑا انکشاف عمران خان کے نصیب میں تھا۔ مولانا روم اور ابن عربی کو سمجھنے کے لیے فارسی اور عربی پر عبور ضروری ہے اور اگر ان کا درس دینا ہو تو عبور سے زیادہ کچھ درکار ہے۔ پاکپتن کی بشریٰ بی بی کو یقیناًفارسی اور عربی پر بھرپور قدرت حاصل ہوگی لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ یعنی ایسی عالمہ، فاضلہ، قابلہ بھی پاک پتن کی متبرک خاک میں چھپی ہوئی تھی۔ ان کے علم و فضل سے استفادے کا حق صرف عمران خان کا نہیں، پوری قوم کا ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے دروس صرف ایک شخص تک محدود نہ رکھیں بلکہ یہ سلسلہ دراز کریں۔
مولانا روم عالم فاضل ہوتے ہوئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فنافی المرشد ہوگئے تھے اور شمس تبریز کے ایسے والا وشیدا ہوئے کہ لوگوں کی انگلیاں اُٹھنے لگیں لیکن اپنے مرشد کا دامن نہ چھوڑا۔ اس بار مرشد ایک خاتون ہیں۔ ’’بے خبر ذرائع‘‘ کی خبر ہے کہ اپنی پیرانی کے مشورے ہی پر دوسری والی کو طلاق دی تھی اور وزیراعظم بننے کا یقین دلایا تھا۔ اسی یقین کی بنیاد پر عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ اگلے وزیراعظم وہ ہی ہوں گے۔ سنا ہے کہ پیرانی صاحبہ کے پاس کئی موکل بھی ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود اپنی 28 سال کی شادی کو وہ قائم نہ رکھ سکیں اور نانی بن کر بھی طلاق لے لی۔ جو اپنی ازدواجی زندگی نہ بچا سکے وہ دوسروں کی کیا مدد کرسکے گا۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ بشریٰ بی بی سے ان کی ملاقاتیں دو سال سے جاری تھیں اور وہ جب بھی ملے ہمیشہ فیملی کے ساتھ اور پردے میں ملے۔ لیکن کس کی فیملی؟ عمران خان کی فیملی میں ان کے بچے ہیں جو لندن میں ہیں۔ اگر یہ فیملی بشریٰ بی بی کی تھی تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے شوہر خاور مانیکا بھی موجود ہوتے ہوں گے۔ کیا اس کے بعد ہی طلاق کا فیصلہ کیا گیا؟ عمران کہتے ہیں کہ اعتراض کرنے والوں کو ’’معرفت‘‘ کے بارے میں کچھ پتا نہیں۔ اطلاع تو یہ ہے کہ عمران خان عون چودھری کی معرفت بشریٰ بی بی سے ملے تھے۔ وہ کس معرفت کی بات کررہے ہیں۔ کہتے ہیں مجھے ساری زندگی کوئی کنٹرول نہیں کرسکا، اپنے فیصلے خود کرتا ہوں۔ چلیے، اب تو کنٹرول کرنے والی آرہی ہے۔ عمران کا کہنا تھا کہ 30 سال پہلے میرا خدا پر کوئی ایمان نہیں تھا۔ صوفی ازم پڑھنے کے بعد مجھے ایمان سمجھ میں آیا۔۔۔ لیکن صوفی ازم تو وہ گزشتہ صرف دو سال سے نیک پروین سے پڑھ رہے ہیں اور ایسا کہ صوفی ازم گھر میں لارہے ہیں۔ جب ان کا خدا پر ایمان نہیں تھا تو وہ چھٹے پھرتے تھے۔ خوشی کی بات ہے کہ قوم کے رہنماؤں میں سے کوئی تو ایسا ہے جسے صوفی ازم پر دسترس حاصل ہوگئی۔ عمران خان اگر مولانا رومی تک پہنچنے سے پہلے علامہ اقبال کو پڑھ ڈالتے تو بھی بہت کچھ حاصل کرسکتے تھے لیکن بشریٰ بی بی کو شاید علامہ اقبال سے کوئی دلچسپی نہیں۔ عمران خان اس بات پر برہم ہیں کہ شادی تو ذاتی معاملہ ہے، اس پر تبصرہ کیا معنی۔ لیکن جو شخص بھی عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرے اس کا کوئی بھی فعل ذاتی نہیں رہتا، عوام کی ملکیت ہو جاتا ہے اور پھر عمران خان تو اپنی شادیاں چھپانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ بہرحال، ایک اور تبدیلی آگئی یا راہ میں ہے۔