عالمی یوم جذام: پاکستان میں ہر سال نئے300 مریض رجسٹرڈ ہوتے ہیں

542

کراچی (اسٹاف رپورٹر) طبی ماہرین نے کہا ہے کہ 1996ءمیں پاکستان میں جذام مرض پر قابو پایا جا چکا ہے۔ تاہم پاکستان میں ہر سال جذام کے 300 نئے مریض رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر (ایم اے ایل سی) میں اب تک 57,000 مریضوں کا مفت علاج کیا جا چکا ہے جب کہ ایم اے ایل سی نے جذام کی بیماری کو روکنے کے لیے ملک بھر میں 157 سینٹر قائم کیے ہیں جہاں پرآنے والے تمام مریضوں کو علاج و معالجہ سمیت دیگر تمام طبی سہولتیں مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ اِس بیماری کا دورانیہ بہت لمبا ہے یعنی جراثیم کے جسم میں داخل ہونے اور علامات کے ظاہر ہونے کا دورانیہ جو قریباً 5 تا 20 تا 40 سال ہے لہٰذا یہ شرح آئندہ 10سال بھی یوں ہی برقرار رہنے کی امید ہے۔ جذام کا عالمی دن منانے کا مقصد دنیا بھر میں جلد کے موذی مرض جذام کی روک تھام کے ضرورت اور اس بیماری کے بارے میں شعور و آگہی پیداکرنا اور جذام کے مریضوں کی بحالی اور معاشرے میں ان کے خلاف امتیازی برتاﺅ کی روک تھام کرنا ہے۔ ان خیالا ت کا اظہار ماہرین میں شامل ایم اے ایل سی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر مارون لوبو، ڈاکٹر مطاہر ضیائ، ڈاکٹر علی مرتضیٰ اور سیویو پریرا نے میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر کی جانب سے عالمی یوم جذام کے موقع پر منعقد پریس کانفرنس میںکیا۔ اس موقع پر ایم اے ایل سی ہیڈآفس میں ڈاکٹر روتھ فاﺅ کی بے پناہ قربانیوں اور احسانات کو خراجِ تحسین پیش کرنے اور ان کے نام اور کام کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے میوزیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اِس میوزیم میں اُن سے جُڑی تمام چیزوں کو محفوظ کر کے اُسی حالت میں رکھا گیا ہے۔ اِس میوزیم کو لیپروسی ٹریننگ کا حصہ بنایا جائے گا اور تمام تعلیمی اداروںکو اِس تک رسائی دی جائے گی تاکہ آنے والی نسلوں کو ڈاکٹر رُتھ فاﺅ کی شخصیت کو پڑھنے اور جاننے کا موقع مل سکے اور اُن میں انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدا کیا جا سکے۔ ماہرین نے مزید کہا کہ پاکستان میں میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر گزشتہ 6 دہائیوں سے جذام کے مرض کے خاتمے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ اس بیماری کے خاتمے کے بیشتر اہداف حاصل کیے جا چکے ہیں مثلاً نئے مریضوں کے ملنے کی شرح ایک لاکھ افراد میں ایک سے کم، زیرِعلاج مریضوں کی شرح دس ہزار افراد میں ایک سے کم، نئے مریضوں میں معذوری کی شرح ایک لاکھ افراد میں ایک سے کم، نئے مریضوں میں بچوں کی شرح 10% یا اس سے کم۔ یہ وہ اہداف ہیںجن کو عالمی ادارہ صحت WHO نے مقرر کررکھا ہے۔ اِس مقرر کردہ پیمانے کے تحت پاکستان میںاب نئے مریضوں کے ملنے کی شرح 0.19، زیرِعلاج مریضوں کی شرح 0.12، نئے مریضوں میں معذوری کی شرح0.40 جب کہ نئے مریضوں میں بچوں کی شرح 7% ہے مگر باوجود اِن تمام کام یابیوں کے ہم یہ ہر گز نہیں کہہ سکتے کہ اس موذی مرض کا جڑ سے خاتمہ ہو چکا ہے، اب بھی پاکستان میں ایسے مریض موجود ہیں جو دوسروں میں اس بیماری کو پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جنہیں سامنے لانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا بروقت علاج کر کے اِس بیماری کے مکمل خاتمے کو یقینی بنایا جا سکے۔ مزید یہ کہ جذام سے متاثرہ بچوں میں معذوری کی شرح پر بھی ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے، بچوں میں معذوری کی شرح اس وقت 6% ہے جو یقیناً قابلِ تشویش ہے۔ جذام کے خاتمے سے متعلقWHO کی جاری کردہ حکمتِ عملی برائے سال 2016 – 2020ءمیںتین اہم اہداف مقرر کیے گئے ہیں جس کے لیے ہم سب کو مشترکہ طور پرکوششیں کرنی ہوں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب تک پورے پاکستان سے 57,000 سے زائد جذام کے مریض رجسٹرڈ کیے جا چکے ہیں، ان میں سے 99% مریض اپنا علاج مکمل کر چکے ہیں جب کہ88% مریض مکمل طور پر صحت یاب ہو کر نارمل زندگی بسر کر رہے ہیں، زیر علاج مریضوں کی تعداد بھی بتدریج کم ہو کر اب صرف531 رہ گئی ہے، جذام مرض پر کام یابی سے قابو پانے کے بعد اب اس کے خاتمے کے لیے بھی اُسی تندہی سے کام ہو رہا ہے، لیپروسی کنٹرول پروگرام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی شراکت کی ایک بہترین مثال ہے جو گزشتہ50 برسوں سے جاری و ساری ہے، گزشتہ تین برسوں سے اندرون سندھ مریضوں کی تعداد میںخاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا تھا، سال 2013ءمیں نئے مریضوں کی تعداد 66 تھی جب کہ سال 2016ءمیں یہ تعداد بڑھ کر 133 ہو گئی تھی جب کہ دیگر صوبوں میں یہ شرح بتدریج کمی کی طرف مائل ہے تاہم اس بڑھتی تعداد کے باوجود صوبہ سندھ میں جذام کا مرض قابو میں ہے اور عام لوگوںکے لیے یہ کسی خطرے کا باعث نہیں، جذام جراثیم سے پیدا ہونے والی ایک بیماری ہے اگر مرض کی بروقت تشخیص اور علاج نہ کیا جائے تو یہ جسم میں معذوری پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے، پچھلے وقتوں میں چوں کہ اس مرض کا علاج موجود نہیں تھا اسی لیے پرانے مریضوں میں معذوری کا تناسب بھی زیادہ ہے، اب یہ مرض100% قابل علاج ہے کیوں کہ آج اس کا جدید علاج موجود ہے، بروقت تشخیص اور علاج سے معذوری کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے اور مریض 6 ماہ سے ایک سال کے قلیل عرصے میںمکمل طور پر صحت یاب ہو کر نارمل زندگی گزار سکتا ہے، لوگوں کو چاہیے کہ اس مرض میں مبتلا ہونے پر شرمندہ یا خوف زدہ ہونے کے بجائے اس کا بر وقت علاج کروائیں جو بالکل مفت دست یاب ہے تاکہ کسی بھی قسم کی معذوری سے بچا جا سکے۔