شقی القلب ۔۔۔ وزیر اعلیٰ پنجاب 

326

مظفر ربا نی

کیسی شقی القلبی، کیسی سفاک ذہنیت، کیسی بے رحمانہ مسکراہٹیں اور کیسی چھلنی جگر پر نمک پاشی یہ ہیں وہ اعزازات جو نام نہاد خامِ اعلیٰ پنجاب نے اس وقت حاصل کیے جب ایک باپ ان کے درمیان بے کسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا وہ باپ جس کی جگر گوشہ کو اس سے بے دردی کے ساتھ چھین لیا گیا تھا جس کو انصاف کی کسی طور فراہمی نظر نہیں آ رہی تھی جس کو ایک ‘‘ سازش ‘‘ کے تحت قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بھیگی بلی بنا کر سفارک حکمرانوں نے دبوچا ہو ا تھا بے حسی سے بھرپور یہ وہ قہقہے تھے جو پوری قوم کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ تمہاری حیثیت ہمارے نزدیک کمی کمین سے زیادہ نہیں ہے۔ پنجاب پولیس اور حکومت نے وہی کھیل کھیلا جو وہ اکثر کھیلا کر تی ہے کہ کسی جائز ناجائز پولیس مقابلے میں کسی کو مار کر اس کی لاش پر ماضی کے وہ تمام مقدمات رکھ کر دفن کرنے کی کوشش کرتی ہے جو پولیس کے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہوتے ہیں تاکہ باقی کی کاروائی کو داخل دفتر کیا جا سکے یا وہ مقدمات جس میں کوئی ’’اپنا‘‘ پکڑ میں آسکتا ہو اس کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے چند لاشیں گرا دی جاتی ہیں اور اپنوں کے جرائم کا کفن ان لاشوں کو پہنا کر قبر میں اتار دیا جاتا ہے اب اس ملک میں کس مائی کے لعل میں اتنی جرات ہے کہ وہ پولیس اور مسندِ اقتدار کے سنگھا سن پر براجمان حکمرانوں سے یہ پوچھ سکے کہ وہ یہ ثابت کریں کے جس لاش کے ساتھ وہ ماضی کے لاینحل مسئلے کو دفن کر رہے ہیں وہ کہاں تک درست ہے اتنی اجازت تو 70سال میں ابھی تک اس قوم کے نصیب میں نہیں آئی۔ یہی کچھ معصوم پری زینب قتل کیس میں گرفتار شخص کے ساتھ کیا جا رہا ہے جس کی برین واشنگ بھی کی گئی ہوگی کہ اس کو سزاتو اتنی ہی ملنی ہے چاہے ایک قتل و زیادتی کی ہو یا دس قتل و زیادتی
کی اگر وہ یہ اقرار کر لے کہ وہ سارے قتل اور زیادتی کے جرائم اسی نے کیے ہیں تو نااہل پولیس اور ناہل خادم اعلیٰ کی جان چھوٹ سکتی ہے تو اس نے یہ بیان ایک تھپڑ کھائے بغیر ہی دے دیا کہ ہاں میں نے ہی آٹھ دس بچیوں کے ساتھ یہ گھناؤنا فعلِ بد کیا تھا اور میں ہی ان سب کا قاتل ہوں اس کا یہ بیان سامنے آنے کے بعد شاید نام نہاد خادم اعلیٰ اپنی خوشی پر قابو نہ رکھ سکے اور خوشی میں تالیاں پیٹنے لگے اور یہ بھول گئے کہ کوئی کمی کمین زینب کا غمزدہ باپ بھی ان کے پہلو میں بے کسی کی تصویر بنا بیٹھا ہے جس کا اس ملک پر کوئی حق نہیں جس کی پہنچ سے حکمرانوں اور قانون دانوں کی دہلیزیں بہت دور ہیں جو اتنی ہی داد رسی کا حق دار ہے جتنی کہ بھیک کے طور پر اس کی جائے۔ جام نہاد خادمِ اعلیٰ جس فرعونیت اور ہٹلری انداز میں ایک ایسی محفل میں براجمان تھے جہاں ہر آنکھ نہ صحیح ہر دل تو ضرور رو رہا تھا۔ پچھلے چند ماہ و سال میں درندگی کا شکار ہونے والی معصوم بچیوں کے لواحقین بھی رفتہ رفتہ منظر عام پر آنا شروع ہو گئے ہیں آج 24جنوری کو تین ایسے افراد سامنے آئے جن کا کہنا ہے کہ ان کو اس بات کی کوئی خبر نہیں اور نہ وہ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ ان کی بچیوں کا قاتل بھی یہی عمران ہے وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ نام نہاد خادمِ اعلیٰ ہماری بچیوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر تالیاں پیٹِ رہے ہیں اور یہ کہ ان سے کبھی بھی پولیس نے رابطہ نہیں کیا اور نہ
ہی کیس کو سلجھانے اور اسی وقت قاتل کو پکڑنے میں کوئی کارکردگی کا مظاہرہ کیا پھر عمران نے کس طرح سارے گھناؤنے جرائم کا ایک ہی سانس میں اعتراف کر لیا یہی وہ نکتہ ہے جو میڈیا اور عوام کو شکوک میں مبتلا کر رہا ہے پہلے تو یہ بھی خبر آئی تھی کہ جو ملزم سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آ رہا ہے اس کی عمر جسامت اور نقوش میں زمین آسمان کا فرق ہے کیا یہی وہ عمران ہے جس کو پہلے پہل پکڑ کر چھوڑ دیا گیا تھا جو لاہور جانے کے بعد لا پتا ہو گیا تھا حکمرانوں نے جس طرح امین انصاری کو دبوچ رکھا ہے اور پوری بات بھی قوم کے سامنے نہیں آ رہی اور رانا ثناء اللہ انصاف کے متلاشی امین انصاری کی دھمکی آمیز گفتگو کا منظر عام پر آنا یہ سب کیس کو مشکوک بنانے کے لیے کافی ہیں پھر سوال یہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اڑھائی میل کے علاقے میں ایک شخص ایسی شقی القلبی تواتر کے ساتھ چند ماہ کے عرصے میں کر رہا ہو اور نہ تو عوام کو ہی اس کا پتا چلے اور نہ پولیس کو۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نام نہاد خادم اعلیٰ آئی جی پنجاب سمیت متعلقہ علاقعے کے ایس ایس پی، ایس پیز اور ڈی ایس پیز کر لائن حاضر ہونے کا حکم دیتے الٹا ان کی نااہلی اور ناکامیوں پر ان کو انعامات سے تالیاں بجا بجا کر نوازا جا رہا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کی ڈی این اے رپورٹس کہاں ہیں ویسے تو عمران کی زینب کے معاملے پر ڈی این اے رپورٹ بھی ابھی تک عام نہیں کی گئی بات یہیں ختم نہیں ہوتی عمران کی گرفتاری پر پولیس کے متضاد بیانات کیس کو مزید مشکوک بنا رہے ہیں پہلے کہا گیا کہ پاک پتن اور عارف والا سے گرفتار کیا گیا جب دیکھا کہ اس دعوے میں کوئی خطرہ ہے تو بیان یہ سامنے آیا کہ کوئی پولیس مقابلہ ہوا تھا اس میں اس کو گرفتار کیا گیا شاید پولیس اور پنجاب حکومت یہ ثابت کرنا چاہ رہی ہے کہ وہ پولیس مقابلے میں صرف مارتی ہی نہیں گرفتار بھی کرتی ہے مگر اس سے قبل ایک شخص مدثر کو کیوں پولیس مقابلے میں مار دیا گیا جو ان چند کلیوں میں سے کسی ایک کا مبینہ قاتل تھا۔ میڈیا پر تو اور بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں لیکن مختصر بات یہ معلوم ہو تی ہے کہ پولیس نے قطعی کوئی کوشش نہیں کی بقول امین انصاری ان کے گھر کے تمام افراد رشتہ دار احباب محلے دار اور علاقے کے لوگوں کی بڑی تعداد دن رات جاگ جاگ کر مجرم کو پکڑنے کی تگ و د و میں لگے رہے اور پولیس ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر اسکرپٹ لکھتی رہی کہ کس طرح اس مصیبت سے جان چھڑائی جائے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملزم کو عدالت میں بیان بدلنے کا بھی کہہ دیا گیا ہو تاکہ کیس کو طویل سے طویل کیا جاتا رہے کیوں کہ جس عدالتی نظام سے اس قوم کا سابقہ پڑا ہو ا ہے اس میں فوری انصاف کی تو کوئی گنجائش ہی موجود نہیں، یہ ہم نہیں بڑے بڑے قانون دان اور منصفین کہتے رہے ہیں کہ اگر پوتے کو بھی انصاف مل جائے تو غنیمت جانو۔ کیوں کہ ہر وہ ملک جہاں انگریزوں نے اپنی مکاری اور عیاری سے قبضہ کیا اور جس کی حکمرانی کا وہ ملک مزہ چکھ چکا ہو وہاں کا عدالتی نظام اور تعلیمی نظام اور صحت کا نظام سو سو سال گزرنے کے بعد بھی درست سمت پر نہیں آ سکا لیکن جو ممالک جیسے سعودی عرب، چین اور افغانستان جو انگریز کی دسترس سے دور رہے وہاں ان تینوں شعبوں سے عوام کو کوئی شکایت نہیں اور وہ اپنی مرضی اور اپنے ملک کے حالات اور معاشرتی ضروریات کے تحت جب چاہتے ہیں تبدیلیاں کر لیتے ہیں کیوں کہ ان پر انگریزوں کے غلام ابنِ غلام حکمران نہیں ہیں۔