مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

366

یوں تو پاکستان کی سیاست شروع دن ہی سے ہنگامہ خیز رہی حالاں کہ یہ زمین بہت مردم خیز بھی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ملک سیاسی، سماجی معاشرتی معاشی اعتبار سے استحکام کی منازل طے کرنے کے بجائے ان منزلوں سے دور ہوتا جا رہا ہے ایک عمومی مثال سے اس گتھی کو سلجھانے میں مدد مل سکتی ہے، جس گھر میں عدم سکون اور عدم استحکام نظر آتا ہو تو سمجھ لیں کہ اس گھر پر بیرونی عناصر اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اگرچہ کہ بظاہر اس گھر کے رہنے والے کسی طور پر بھی لڑاکو اور جھگڑالو نظر نہیں آتے بعینہ پاکستان میں بھی کچھ اسی قسم اثرات نظر آتے ہیں، اگرچہ اس ملک کی زمین بڑی مردم خیز واقع ہوئی ہے اور زندگی کے ہر ہر شعبے میں پاکستانیوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے مگر شاید کچھ بیرونی قوتیں کار فرما ہیں جو ہمارے ٹیلنٹ کو ابھرنے نہیں دیتیں اور نہ ان کے کارناموں کو کوئی وزن دینے کو تیار ہیں اور یہ کام وہ اندرونی عناصر کے بغیر کر نہیں سکتے۔ جس ملک کا معاشرہ انتشار کا شکار ہو اور سیاسی نظام عدم استحکام کا شکار ہو وہاں کوئی بھی ادارہ اپنا کام اپنی بساط کے مطابق نہیں کر سکتا۔ اس ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جمہوریت کو عبادت کا درجہ بھی دیا جاتا مگر جمہوریت سیاست کی کوکھ سے جنم لینے والی لونڈی ہوتی ہے جس کو سیاست دان اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں اسی لیے جمہوریت کی تو تعریف کی جاتی ہے مگر سیاست کو گالی کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے کہ فلاں فلاں ناموں پر سیاست کی جا رہی ہے، کوئی کہتا ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، کوئی کہتا ہے خاندانی سیاست نہیں ہونی چاہیے، کوئی کہتا کہ کسی کے نام پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، میری سمجھ میں آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ’’نام پر سیاست‘‘ سے آخر سیاست دانوں کا کیا مقصد ہے جب کہ اس ملک کا آئین ہر شخص کو کسی بھی ایجنڈے پر سیاست کرنے کا پورا اختیار دیتا ہے پھر ’’نام پر سیاست‘‘ کی بھپتی کیوں کسی جاتی ہے۔ فی الحال یہ ہمارا موضوع نہیں ہے یہاں ملکی سیاست کو زیر بحث لانا مقصود ہے۔ میمو گیٹ سے لیکر تا امروز سیاست میں جو بھونچال آئے چلے جا رہے ہیں وہ قوم کو جمہوریت سے نالاں کرنے کے لیے کافی ہیں میمو گیٹ کے بعد ڈان لیکس اور اس کے ساتھ ہی پاناما لیکس اور پھر اس سے منسلک دیگر وارداتوں نے تو سیاست اور جمہوریت کا چہرہ ہی مسخ کر کے رکھ دیا ہے اور رہی سہی کسر معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کے بعد ان کا قتل اور معصوم بچوں کے ساتھ بد فعلی کی ویڈیوز نے تو پاکستان کا بین الاقوامی سطح پر چہرہ ہی مسخ کر دیا ہے اسی ہنگامہ آرائی میں لگے ہاتھوں ن لیگیوں نے جن میں بیش تر اسلامی جماعتوں دھتکارے گئے اراکین پارلیمنٹس بھی موجود ہیں ان کی ناک کے نیچے قومی اسمبلی کے حلف نامے کو بیرونی دباؤ کے تحت تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ختم نبوت پر شب خون مارنے کی مزموم کوشش کی گئی اور قوم کے بروقت نوٹس لینے کے باوجود اور حلف نامے کو اپنی اصل عبارت اور الفاظ میں بحال کرنے کے باوجود سینیٹ میں ن لیگی ارکان دیگر سیکولر عناصر کے ساتھ مل کے واردات کرنے سے باز نہیں آرہے جس پر دینی جماعتوں کی طرف سے سخت نوٹس لینے کی بھی خبریں آ رہی ہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا کہ جب بھی ملک میں کوئی اصلی یا مصنوعی سیاسی بحران پیدا کیا جاتا ہے تو اس کی آڑ میں آئین کی اسلامی شقوں پر ضرب لگانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر شاید ابھی بیدار مغز قیادت کہیں نہ کہیں موجود ہے جو یہودیوں اور کافروں کے ایجنٹوں کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔ قوم عدلیہ سے جس اقدام کی توقع رکھتی ہے وہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ پاناما میں پکڑے جانے والے نواز شریف اور ان کے خاندان کو کس طرح آرام سے سیاست کرنے کا موقع دیا گیا اور ایک مبہم مقدمے میں معمولی سزا دے کر ان کو اس پر کھل کر سیاست کرنے کا جواز فراہم کیا گیا وہ عقل سے بعید ہے۔ پاناما کیس صرف ایک کیس ہی نہیں تھا بلکہ اس مقدمے میں نواز شریف اور خاندان کے دیگر افراد نے جو جرائم کیے ان پر ابھی تک عدالت خاموش ہے۔ مثال کے طور پر جھوٹے کاغذات عدالت عالیہ میں جمع کرانا، غلط بیانی کرنا، اقامے کا نکل آنا قوم کو اپنے منصب کا لحاظ کیے بغیر بیوقوف بنانے کی کوشش کرنا یہ سب جرائم کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں لیکن تاحال کسی ایک جرم کا بھی کوئی باقاعدہ مقدمہ درج نہیں کیا گیا، لے دے کر نیب کچھ فلیٹوں اور رقوم کی ترسیل کے بارے میں کچھوے کی چال سے تحقیقات کر رہا ہے اس طرح تو میاں نواز شریف کو کم از کم 125 سال کی عمر درکا ر ہوگی کہ وہ سارے جرائم کے ثابت ہونے پر سزا پا سکیں۔ عدالتوں کے خلاف نواز خاندان اور ن لیگ دن رات ہرزہ سرائی کر رہے ہیں ججوں پر دشنام طرازی کر رہے ہیں مگر کیا مجال کسی ایک کو بھی قرار واقعی سزا دی جائے۔
کراچی کے ماورائے عدالت 440 مقتولین کا حساب کون اور کب لے گا ایک ایس ایس پی جس پولیس اور درجنوں ایجنسیوں سے نہیں پکڑا جا رہا وہ اس ملک کو بیرونی سازشوں سے کیسے بچا سکتی ہیں پنجاب میں بچوں کی پورنو گرافی اور معصوم بچیوں پر درندہ صفت بھیڑیوں کی طرف سے آبرو ریزی اور قتل کی وارداتوں میں روز بروز اضافہ پھر اس پر سیاست اور میڈیا کا افسوسناک رویہ جیسے اس میڈیا کو ایسی ہی ’’خبروں‘‘ کی تلاش رہتی ہو حالاں کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسے مقدمات میں سات دن کے اندار فیصلہ ہوجائے مگر ملزمان تو سزا سے کوسوں دور مگر متاثرہ خاندا ن کا دن رات میڈیا پر تماشا لگا یا جاتاہے تاکہ دنیا کو پاکستان کہ وہ چہرہ دکھایا جائے تو یہود و نصاریٰ دیکھنا چاہتے ہیں۔ بیرونی خیرات پر پلنے والے میڈیا ہاؤسز صحافت کم تجارت زیادہ کر رہے ہیں۔ ایک شخص نے جب معاملے کی سنگینی کی طرف حکام اور قوم کی توجہ دلائی تو پورا کاروباری میڈیا اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا اور اس پر وہ دشنام طرازی کی کہ الامان الحفیظ شاید اس کا قصور یہی تھا کہ وہ ان کاروباری صحافیوں کی طرز کا صحافی نہیں بلکہ پیشے کے اعتبار سے ایک ڈاکٹر ہے ہمارا مشاہدہ ہے کہ جو اینکرز ان کاروباری صحافیوں سے ہٹ کر اس شعبے کی طرف قدم رنجا ہوئے ہیں وہی زیادہ حقائق پر مبنی پروگرام پیش کر رہے ہیں اور قوم کو جگانے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی گہما گہمی میں سینیٹ کے انتخابات اور بعد ازاں عام انتخابات سر پر آن پہنچے ہیں لیکن ن لیگ عدالتوں کو مطعون کر کے سیاسی شہید بنے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے لیکن شاید اس ملک کے مقتدر حلقے اس چال کو سمجھ گئے ہیں، اسی اثنا میں چند ماہ بعد عبوری حکومت بھی آنے والی ہے جو ن لیگ کو بھاری پڑ سکتی ہے اور کوئی مخلوط حکومت قائم ہو سکتی ہے جس کے کافی امکانات موجود ہیں۔ ن لیگ اپنے بیرونی آقاؤں کو اپنی وفاداری کے لیے گاہے گاہے ناموس رسالت کے قانون پر حملہ آوار ہورہی ہے اور یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہی کہ اگر اس کو ایک بار پھر دو تہائی اکثریت دلا دی جائے تو وہ پوری قوت سے ناموس رسالت کے قانون کو تبدیل کرنے کی پوزیشن میں ہوگی لیکن جب تک اس ملک میں ایک بھی مسلمان زندہ ہے وہ ن لیگ کے ایسے کسی ناپاک عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔