نواز شریف کے عدلیہ پر حملے: نتیجہ صفر

292

مظفر ربانی

میاں نواز شریف نا اہلی کے فیصلے کے بعد جس ڈگر پر چل پڑے تھے مخالفین تو کجا خود ان کے برادر عزیز شہباز شریف بھی ان کو گاہے گاہے باور کراتے رہے کہ عدلیہ اور فوج پر بے جا تنقید کسی کے بھی حق میں نہیں‘ شاید میاں صاحب کا یہ خیال تھا کہ بڑے بڑے عوامی جلسوں سے عدلیہ اور مقتدر حلقوں کو دباؤ میں لیا جا سکتا ہے، حالاں کہ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے والے کھلی آنکھوں دیکھ رہے تھے کہ اگر عدالتوں اور نیب میں زیر سماعت مقدموں کے فیصلے ان کے خلاف آئے تو دوسری صورت میں کیا ہوگا لیکن شاید میاں صاحب ہمیشہ کی طرح اس بار بھی تصویر کا ایک ہی رخ دیکھتے رہے۔ ہماری رائے میں شاید میاں صاحب نے پہلے فیصلے کے بعد اگلے فیصلے کے دورانیے کو غنیمت جانتے ہوئے مریم نواز کو سیاست میں پوری طرح داخل کرنے کی حکمت عملی بنائی ہو کہ اس دوران بیٹی کو فرنٹ فٹ پر کھِلا کر قومی سطح کی سیاست دان کے طور پر متعارف کرادیا جائے پھر ان کی جانشینی کا مسئلہ بھی کسی حد تک حل ہو جائے گا اور شہباز شریف کے لیے زور لگانے والے بھی کمزور پڑ جائیں گے۔ ممکن ہے میاں صاحب اپنی دانست میں اس حکمت عملی میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئے ہوں کہ نئے فیصلے سے پہلے جس میں اب وہ پارٹی کی صدارت سے بھی محروم کردیے گئے تک ان کا بیانیہ کہ مجھے کیوں نکالا کو میڈیا کے بعض حلقوں کی طرف سے کامیابی کی سند حاصل ہونے لگی تھی اور مجھے کیوں نکالا کے مخالفین قدرے دفاعی پوزیشن پر چلے گئے تھے خاص طور پر اس وقت جب بقول شیخ رشید کے حدیبیہ پیپرز کا کیس سارے کیسوں کی ماں ہے اس کو کھولا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ادھر عمران خان تین سو ارب کی کرپشن کی گردان کرتے نظر آئے۔
یہ عجیب منطق نواز شریف نے سیاست میں متعارف کرائی ہے کہ جب مجھے لوگوں نے ووٹ دیا اور ایک بار نہیں تین بار وزیر اعظم منتخب کیا تو یہ پانچ افراد (ججز) کون ہوتے ہیں مجھے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبک دوش کرنے والے، اس بیانیے کی جتنی جگ ہنسائی ہوئی وہ تو اپنی جگہ لیکن اس سے میاں صاحب کی سوچ کا دائرہ بھی واضح ہو گیا۔ کیا دنیا کا کوئی حکمران ایسی بات پہلے کبھی کرتا رہا ہے جس کی روشنی میں مثال دیتے ہوئے میاں صاحب نے یہ نظریہ گھڑھ لیا کہ اگر کسی کو لوگ منتخب کریں تو چاہے وہ قتل ڈاکا چوری اور کسی بھی جرم میں پکڑا جائے تو اس کو سزا اس بنیاد پر نہیں ہوسکتی کہ اس کو لوگوں نے منتخب کیا ہے۔ اسلامی شریعت اور دیگر نظام ہائے حکومت میں تو ایسے شخص کے لیے دوہری سزا مقرر کی جاتی ہے کہ اس نے نہ صرف ایک جرم کیا بلکہ لوگوں کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچائی اور اپنے منصب کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور دیگر چوروں لٹیروں قاتلوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنا اگر اس فارمولے کو کڑوا گھونٹ سمجھتے تسلیم بھی کر لیا جائے تو کوئی بھی شخص منصوبہ بندی کر کے کسی عوامی عہدے پر جا پہنچے پھر وہاں بیٹھ کر اپنے منصوبے کے مطابق قتل ڈاکا چوری کرتا پھرے کیوں کہ اس کو نواز فارمولے کے تحت عدالت ہاتھ بھی نہیں لگا سکتی کہ وہ عوامی نمائندہ ہے۔ اگر کسی عقل کے اندھے نے نواز شریف کے منہ میں یہ الفاظ ڈال بھی دیے تھے تو خود میاں صاحب کو اس پر ایک بار نہیں دس بار غور کرنا چاہیے تھا کہ آیا یہ بیانیہ عوامی سطح پر قابل قبول بھی ہوگا یا ان کی اور پارٹی کی جگ ہنسائی کا باعث بنے گا۔ کروڑوں روپنے خرچ کرکے دس پندرہ جلسوں میں یہی پیغام دیا جاتا رہا اورکہ ان کے ووٹرز اور عدلیہ کو عوامی موازنے کے لیے پیش کیا جاتا رہا ایک معصوم بچہ بھی یہ بات جانتا ہے کہ عوام کا کام ووٹ دینا اور عدالت کا کام مجرم کو سزا دینا ہوتا ہے اگر جرم ثابت نہ ہو تو ایک عام ملزم بھی باعزت بری ہو سکتا ہے۔ میاں صاحب نے یہیں پر بس نہیں کی بلکہ انتخابی اصلاحات کے نام پر ایک ایسا بل بمشکل سینیٹ سے پاس کروا لیا جس کے تحت 62 اور 63 کی زد میں آیا ہوا نا اہل شخص بھی پارٹی صدر بن سکتا ہے لیکن یہاں بھی میاں صاحب اور ان کے حواریوں نے آئین کو کھول کر دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی کہ کہیں یہ بھی لکھا ہوا ہوگا کہ آئین سے متصادم قانون سازی کو قانونی حیثیت دینے کا اختیار بھی عدلیہ کے پاس ہے اور موجودہ چیف جسٹس متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ پارلیمنٹ کی توقیر اور اختیار اپنی جگہ مگر آئین سے متصادم قوانین بنانے کی وہ بھی مکلف نہیں۔ بس اسی کی زد میں آتے ہوئے میاں نواز شریف ایک بار اور نااہل قرار پائے ابھی تو نیب میں فلیٹس سے متعلق کیسز زیر سماعت ہیں وہ بھی گھوم پھر کر عدالت عظمیٰ کے کمرہ نمبر 1 میں جلد ہی پہنچا چاہتے ہیں اور عین ممکن ہے نا اہلی کی ہیٹرک کر کے میاں صاحب عالمی رکارڈ بھی بنا ڈالیں اس طرح ان کا نام ای سی ایل تو معمول چیز ہے گنیز بک اور ورلڈ ریکارڈ کی زینت بھی بن سکتا ہے۔
عمران خان بھی ہیٹرک کے ماہر نکلے پہلے کرکٹ کے میدانوں میں کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کرکے ہیٹرک بناتے تھے اب شادیوں کی ہیٹرک بھی خیر سے مکمل کر لی ہے جس پر تمام تبصرے اور تجزیے سر آنکھوں پر لیکن رانا ثنا کا تبصرہ انتہائی بیہودہ شرمناک اور ہماری معاشرتی روایات کی تذلیل کے مترادف تھا۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر آیا ہے جب میاں صاحب قومی اسمبلی میں عددی اکثریت کے بلبوتے پر عدالت عظمیٰ اور صوبائی ہائی کورٹس کو پارلیمنٹ کے مقابلے میں ثانوی حیثیت پر رکھنے کی کوشش کر رہے تھے جس میں ملک کی تمام ہی وہ پارٹیاں جو لوٹ مار میں ملوث ہیں ان کا ساتھ دینے کو در پردہ تیار بیٹھی ہوئی تھیں کہ اسمبلیوں کے ایک بل کی منظوری کے ساتھ ہی جس جج کو چاہے فارغ کر دیا جائے مطلب اگر پیپلز پارٹی کی حکومت ہے تو کوئی جج پیپلز پارٹی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا اگر ن لیگ کی حکومت ہے تو کوئی جج ن لیگ کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکتا اگر ایسا کیا گیا تو تفصیلی فیصلہ لکھنے سے قبل ہی اس جج یا بنچ کی قسمت کا فیصلہ ایک گھنٹے میں اسمبلی سے بل پاس کروا کر اس کو فارغ کر دیا جائے گا کیا دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا۔ ہماری اسلامی تعلیما ت تو اس ضمن میں سخت موقف رکھتی ہے کہ حکمران وقت ہر وقت قاضی کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے تیار رہے اور کسی بھی وقت اس کو قاضی کے سامنے جوابدہ ہونا پڑ سکتا ہے ہماری اسلامی تاریخ ایسے سنہری واقعات سے بھری پڑی ہے۔ لیکن پاکستان کی پارلیمنٹ میں جو لوگ براجمان ہیں ان کی قابلیت یہی بتاتی ہے کہ انہوں نے نہ تو اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے نہ دنیا بھر کی عدالت انصاف کا مطالعہ کیا ہے اور یہ بھی کہ یہ اراکین پارلیمنٹ کسی بھی قسم کی قانونی معلومات سے یکسر بے بہرہ ہیں جن کو قانون کی بالا دستی کا کوئی شعور نہیں ہے۔ اب جب کہ ان کو یہ احساس ہو چلا ہے اب ایسے نہیں چلے گا اب نہ صرف مقتدر حلقے بیدار ہو چکے ہیں کہ اقوام عالم میں اپنی جگہ بنانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا تو ان سارے چوروں کو اپنے اپنے کرتوتوں کی پاداشت میں جیلوں کی سلاخیں نظر آنے لگی ہیں اسی لیے انہوں نے سوچا کہ
کیوں نہ پارلیمنٹ کا سہارا لیتے ہوئے اس خطرے سے نمٹا جائے لیکن حسرت ان غنچوں پر جوِ بن کھلے مرجھا گئے یوں اس فیصلے کی روشنی میں اب عدالتوں کو پارلیمنٹ کے ماتحت کرنے کا خواب بھی چکنا چور ہو جائے گا کیوں کہ عدالتیں پارلیمنٹ پر گہری نظریں جمائے ہوئے ہیں اور عدالت کے پاس اس وقت جو ہتھیار موجود ہے وہ یہ ہے کہ آئین پاکستان کی روح سے متصادم کوئی بھی قانون بنایا جائے گا عدالت اس کو آئین کی روشنی میں کالعدم قرار دے سکتی ہے جس طرح انتخابی اصلاحات کا قانون کالعدم قرار دے کر نواز شریف کو دوسری بار نا اہل قرار دے دیا گیا۔ ابھی تو قوم حدیبیہ پیپرز کا کیس کھلنے کی منتظر ہے اور پاناما کیس کا ان دو فیصلوں کی روشنی میں فیصلہ چاہتی ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ قوم اس وقت ششدر رہ گئی تھی جب حدیبیہ پیپرز کا کیس انتہائی عجلت میں فارغ کر دیا گیا حالاں کہ قوم تو اس کیس پر گہر ی نظر رکھتی تھی اور اس کے فیصلے کی بھی متمنی تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔ ابھی تو بڑے میاں کے بعد چھوٹے میاں کی بھی باری آنے والی ہے جس میں آشیانہ اسکیموں سے نتھی دیگر اسکیموں اور پلاٹوں کی بندر بانٹ کے ساتھ مہنگے میٹرو سسٹم اور موٹرویز میں بد ترین بدعنوانیوں کے مقدمات کی سماعت کی قوم منتظر ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!!!