پہلے نوکر شاہی اب بیوروکریسی 

766

ہمارے ایک مرحوم دوست جن کے کچھ قریبی عزیز اعلیٰ سرکاری عہدوں پر ہوا کرتے تھے ایک دفعہ ا نہوں نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ مختلف حکمرانوں کے بارے میں کس طرح اپنی نوکریوں کو ایڈجسٹ کر لیتے ہیں تو جواب یہ موصول ہوا کہ ہم لوگ پہلے ہی سے تیاری کر لیتے ہیں کہ کس قسم کا حکمران آنے والا ہے اس کے مزاج اور سوچ کے مطابق فائل تیار کر کے رکھ لیتے ہیں پھر ہماری ساری پالیسیاں اسی طرز پر بنائی جاتی ہیں اس طرح ہر حکمراں ہم سے مطمئن رہتا ہے۔ لیکن تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ کسی زمانے میں یہ طبقہ نوکر شاہی کے نام سے بدنام تھا جس کی بنیادی وجہ ان کا وہ ’’سرخ فیتہ‘‘ ہوا کرتا تھا جو کسی بھی طرح عوامی مفاد کے قانون، منصوبے اور سہولت سے تعلق رکھتا تھا ہر فائل پر سرخ فیتے کی تلوار ہمیشہ لٹکی رہتی تھی۔ وقت بدلتا گیا پھر نوکر شاہی سے یہ مخلوق بیوروکریسی کے نام سے جانی پہچانی لگی مگر طرز ’’حکمرانی‘‘ وہی ہے۔ نام نہاد جمہوریت کے بطن سے جم لینے والی عوامی حکومتوں نے بدعنوانی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والے مقتدر حلقوں کی آشیر واد سے حکمراں بنتے رہے پھر اسی نوکر شاہی نے اپنا وتیرہ بھی تبدیل کر لیا اب یہ ان حکمرانوں کے ’’فرنٹ مین‘‘ بنے رہتے ہیں اس وقت چوں کہ ن لیگ کی حکومت ہے اور نواز شریف اور شہباز شریف کی کمزوریوں سے نوکر شاہی اچھی طرح واقف ہے تو لا محالہ خصلت سے مجبور ہے یعنی جو حکم سرکار کا کے مصداق اپنے کام سے لگی ہوئی ہے۔ یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ راقم ن لیگ سے تعلق رکھتا ہے یا اس سے کسی قسم کی ہمدردی رکھتا ہے اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو یہی نوکر شاہی تھی وفاق میں بھی اور صوبوں میں بھی، یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی نئی حکومت اپنی مرضی کے افراد کو جہاں چاہے لگا دے لیکن ان کو اسی نوکر شاہی سے ہی افراد کا چناؤ کرنا پڑتا ہے جو سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہوتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بیوروکریسی میں کس کس عہدے پر کس طرح کے افراد براجمان ہیں اور وہ کس کے کہنے پر یا دباؤ پر لگائے جاتے ہیں ان کے بھرتی کے طریقہ کار پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ویسے تو بظاہر عام طریقے ہی سے یعنی سول سروس کے امتحان پاس کر کے ہی نوکریاں حاصل کرتے ہوں گے۔ پھر انہی میں سے آنے والی حکومتیں اپنی مرضی اور مزاج کے مطابق افسران کا چناؤ کرتی ہوں گی۔بہر حال سر دست مسئلہ یہ ہے کہ کیا سرکاری سطح پر کام کرنے والے بیوروکریٹس کو یونین سازی کا قانونی حق حاصل ہے یا ان کو احتجاج اور دفتروں میں تالا بندی کا کوئی قانون حق ہے جس طرح حال ہی میں ایک بیوروکریٹ احد خان چیمہ کو گرفتار کر کے دفاتر میں تالے لگا دیے گئے اور شور یہ مچایا گیا کہ ہم کو عدم تحفظ کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ یہ وہی بات ہو گئی کہ نواز فارمولے کے تحت جب کوئی شخص عوام سے ووٹ لیکر کسی عوامی عہدے تک پہنچ جائے تو عدالت کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اس سے باز پرس کر سکے کہ لاکھوں افراد نے اس کو ووٹ دیے ہیں تو پانچ جج کس طرح اس کو کسی بھی کیس میں سزا دے سکتے ہیں۔ بیوروکریسی کے اس غیر قانونی بلکہ قابل دست اندازی قانون احتجاج کو اس لیے جائز قرار دے دیا جائے کہ وہ ہر حکومت کے خدمت گزار رہے ہیں ہماری دانست میں قانون میں ایسی کوئی گنجائش موجود نہیں۔
سارے افسران ایک جیسے نہیں ہوتے بہت سے ایسے بھی ہوں گے جن کے ہاتھ صاف ہوں گے ان کو کسی قسم کا ڈر خوف نہیں ہونا چاہیے۔ حیرت کی بات یہ ہے جس بیوروکریسی کو کسی بھی قانون کے تحت ہڑتال اور تالا بندی کا حق حاصل نہیں ہے اس کی پشت پر پوری ن لیگ کھڑی ہوگئی۔ احد چیمہ کی گرفتاری قانونی ہے یا غیر قانونی یہ فیصلہ بھی عدالت ہی کو کرنا ہے کہ وہ ایک اچھا وکیل کر کے عدالت کو مطمئن کردیں کے ان کی گرفتاری غیر قانونی ہے وہ ایک منٹ میں رہا ہو سکتے ہیں ابھی تو گرفتاریوں کی لائن لگنے والی ہے اور وہ اس لیے کہ یہ نوکر شاہی ہر آنے والے کے مزاج کے مطابق کام کرنے کی عادی ہو چکی ہے اور سب جانتے ہیں کھربوں روپوں کی بیرون ملک ترسیل ان بیروکریٹس کی مدد کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے وہ بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ شریفوں کی کرپشن میں برابر کے شریک ہوں گے اسی لیے تو نیب نے ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔
سرکاری دفاتر کو تالے لگوانے والے بھی ن لیگی رہنما تھے اور جب حزب اختلاف نے ان بند دفاتر کو کھلوانے کے لیے اپنی حکمت عملی وضع کی تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے کمال پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری طور پر دفاتر کو کھولنے کے احکامات جاری کر دیے لیکن ایک غیر قانونی کام تو ہو چکا اور جرم سرزد ہونے کے بعد اس لیے معاف نہیں ہو سکتا کہ اس کا ازالہ کیا جا چکا ہے، اس پر سوموٹو بنتا ہے کہ نہیں یہ تو عدالت عظمیٰ کی صوابدید پر منحصر ہے۔ خبر یہ ہے کہ پنجاب کی بیوروکریسی اس وقت شدید ہیجان کا شکار ہے اور کوئی بھی خود کو محفوظ سمجھنے کو تیار نہیں ماسوا معدودِ چند افسران کے جو شریف حکومت کی نظر عنایت سے بچ کے اپنی سرکاری تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور ہیں اور کسی کرپشن میں ملوث نہیں مگر بیش تر افسران کیوں پریشان ہیں کیا چور کی ڈاڑھی میں تنکا ہے۔ نوکر شاہی سے تعلق رکھنے والے افسران کی جائدادوں کا حساب لیا جائے تو لوگ کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب صرف پاکستان ٹیلی وژن ہی ہوا کرتا تھا۔ لاہور سے ایک نڈر صحافی نے ان بیروکریٹس کے گھروں ان کی اولادوں کے رہن سہن گھروں میں کھڑی گاڑیوں اور دیگر تفصیلات کو سامنے رکھتے ہوئے کئی پروگرام پیش کیے تھے مگر وہ پروگرام بھی بزور طاقت بند کروا دیا گیا۔ کچھ جھلک آپ کو دکھاتے ہیں۔ ایک دفعہ وہ کسی بیوروکریٹ کے گھر پہنچا تو اس نے ان افسر محترم کے بچوں سے ملاقات کی اس موقع پر اس نے بچوں سے پوچھا کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی قومی زبان کون سی ہے بچوں نے برجستہ جواب دیا اردو پاکستان کی قومی زبان ہے اس پر صحافی نے طرح لگائی کہ پھر آپ لوگ گھر میں بھی انگریزی میں کیوں بات کر رہے ہیں بچوں کا جواب سنہری حروف سے لکھنے کے لائق تھا بچوں نے جواب دیا کہ اردو تو ہمارے نوکروں کی زبان ہے۔ اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے گھروں میں جو نوکر چاکر کام کرتے ہیں وہ کم تعلیم یافتہ ہوں گے اس لیے وہ اردو ہی میں بات کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے ان بیوروکریٹس کے بچوں کی تربیت بھی کچھ اسی طرح ہوتی ہے کہ پورے ملک کے عوام تمہارے نوکر ہیں ان کو اردو ہی بولنے دو اور تم میں اور اُن میں اگر کوئی حد فاصل ہے تو وہ صرف انگریزی ہے۔ شاید اسی لیے اردو آج تک قومی سطح پر وہ مقام حاصل نہ کر سکی جس کی وہ مستحق ہے اور آگے چلیں تو نظر آئے گا کہ پیلے اسکولوں کے پیچھے یہی فلسفہ کارفرما نظر آتا ہے۔ سرکاری افسران کا انتہائی عہدہ گریڈ 22 ہوتا ہے جس کے اختیارات طاقت سے بھرپور عہدے کی کوئی مائی کا لعل تاب نہیں لا سکتا اپنی جگہ درست مگر جو تنخواہ سرکار مقرر کرتی ہے وہی ان کو ماہانا ادا کی جاتی ہے مگر ان کے بچوں کے ٹھاٹ باٹ اور بیرون ملک تعلیم کا حصول گھروں میں کھڑی گاڑیاں دو دو ہزار گز کے پر تعیش بنگلے دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ سرکاری تنخواہ کا مرہون منت ہو سکتا ہے۔ جو بیروکریٹس اتنی دولت علاوہ تنخواہ اکھٹا کر سکتے ہیں لازمی ہے کہ وہی ان نئے آنے والے حکمرانوں کو بھی دولت کمانے کے گُر سکھاتے ہوں اور اس سے بچنے کی ترکیبیں بھی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے سکھاتے ہوں شاید اسی لیے شریف برادران ببانگ دہل کھل عام چیلنج کے انداز میں کہتے ہیں کہ دس روپے کی بھی کرپشن ثابت کر کے دکھاؤ کیوں کہ ان کو بھروسا اور یقین ہے جس باریک چھری سے قوم کی کھال اتاری گئی ہے وہ کسی کے ہاتھ نہیں آ سکتی پھر ڈھاگ کے تین پات ایک اتفاق فاؤنڈری سے پاناما تک کی کھربوں روپوں کی دولت کا کیا راز ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ تمام زندہ بیوروکریٹس حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کے اثاثوں اور خاص طور پر ان کے اثاثوں کی جو بیرون ملک سفیر اتاشی سفارتی عملے کے طور پر تعینات ہیں یا رہے ہیں کی دولت کی چھان بین کے لیے نیب کا ایک الگ ادارہ قائم کیا جائے جس کی مانیٹرنگ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ٹیم کرے تاکہ ملک میں پھیلی ستر سال سے کرپشن کی آکاس بیل کا کوئی سرا تو ہاتھ لگ سکے جس کی بنیاد پر بد عنوانوں کو قرار واقعی سزا کے ساتھ تمام جائداد اندرون ملک اور بیرون ملک بحق سرکار ضبط کی جائے اور عوامی مفاد کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔