ووٹ کا تقدس محترم! مگر آپ کیا جانیں 

300

میاں نواز شریف مسلم لیگ کی صدارت چھوٹے بھائی کے سر منڈھ کر ایک بار پھر نئے ’’عزم‘‘، ’’ولولے‘‘ اور ’’حوصلے‘‘ کے ساتھ میدان میں کودنے کی کوشش کر رہے ہیں بالفاظ دیگر نئے سرے سے لنگوٹ کَس کر اکھاڑے میں اکیلے ہی کود پڑے ہیں اور معتبر اداروں کو للکارنے کی رہرسل کر رہے ہیں۔ ہم نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے کیوں نکالا کا ’’فلسفہ‘‘ سنا کہ جب کسی سیاسی رہنما کو عدالت سے سزا ہو جائے تو وہ اس کو ووٹ کے تقدس کی پامالی پر گرداننا شروع کردے۔ جمہوریت کی کم از کم دو سو سال کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال دینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کہ کسی سیاسی رہنما کو عدالت سے سزا ہو یہاں تک کے سزائے موت تک کا پروانہ جاری کر دیا جائے تو وہ اس کو ووٹ کے تقدس کی پامالی قرار دے۔ نواز شریف صاحب کی یہ منطق اب ایک نہ صرف مذاق بن گئی ہے بلکہ زبان زدِ عام ضرب المثل بن گئی ہے جو کسی پر طنز کرنے کے لیے بولا جانے لگا ہے۔ اس پر مزید حیرت کہ سات ماہ میں کوئی ایک بھی بطل جلیل مسلم لیگ نواز میں نہیں پایا گیا کہ کہے میاں صاحب اس مذاق کو اب بند کردیں کیوں کہ اب تو ہم کسی کو منہ دکھانے کے لائق بھی نہیں رہے، لوگ ہم کو اب اسی نام سے پکارتے اور بلاتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا اور ساتھ ہی جلسوں میں یہ بھی کہتے نظر آئے کہ عوام کے ووٹ کا تقدس ان پانچ ججوں نے پامال کر دیا۔ سزا کو ماننا نہ ماننا اس کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کرنا کسی بھی مجرم کا بنیادی حق تو ہو سکتا ہے مگر اپنے گناہوں کا ملبہ لاکھوں ووٹروں کے سر تھوپنا کہاں کا انصاف اور کہاں کی انسانیت ہے کہ جرم کوئی کرے اور پھر عوام کو اکسایا جائے کہ تمہارے ووٹوں کے تقدس کو پیروں تلے روند دیا گیا یہ عوام کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف پالیسی ہے کہ عوام کو اداروں کے خلاف مشتعل کیا جائے اور موقع پا کر اسی جذباتی طوفان کو اداروں کی طرف موڑ دیا جائے جیسا کہ ماضی میں مسلم لیگ (ن) کر چکی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پوری قوم میاں صاحب کے نئے بیانیے کو بے اثر کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے وگرنہ حالات بتا رہے ہیں کہ اگلے انتخابات کے آتے آتے میاں صاحب نوجوانوں کے گرم خون کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کرسکتے ہیں جس کے نتیجے میں پھر کوئی سانحہ ماڈل ٹاؤن برپا کیوں نہ کرنا پڑے میاں صاحب کی بلا سے کیوں کہ ان کی اپنی اولاد تو لندن کی ٹھنڈی ہواؤں میں محفوظ ہے۔ یہی وہ سیکولر سیاست دان ہیں جو عوام کے خون سے اپنی جمہوری کیاری کی آبیاری کرتے ہیں پھر پھول اپنی اولادوں کے لیے اور کانٹے بلکتی ماؤں کے لیے چن لیتے ہیں۔
عوام کے ووٹ کے تقدس کو خود میاں صاحب نے بری طرح پامال کیا سب سے پہلے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران آپ نے کشمیر کے جوانوں کے خون سے غداری کرتے ہوئے اور ان کے خون کے تقدس کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے سب سے بڑے عالمی فورم پر کشمیر کا ذکر کرنا تک گوارہ نہ کیا تھا۔ دوسری بار جب بھارت کا آن ڈیوٹی اعلیٰ سرکاری افسر کلبھوشن یادیو بلوچستان سے رنگے ہاتھوں گرفتار ہوا اور اب تک پاکستان میں قید ہے کے بارے میں ایک لفظ آج تک اپنے منہ سے نہ نکالا اور قوم ششدر اور انگشت بدنداں ہے کہ یہ کس طرح کا وزیر اعظم ہے جو ہمارے ازلی دشمن کی خفیہ ایجنسی کے حاضر سروس افسر کی گرفتاری پر لب کشائی کی زحمت تک نہیں کر رہا۔ میاں صاحب کو ووٹ کے تقدس کا خیال نہیں آیا جو عوام نے اسی لیے ان کی جھولی میں ڈالے تھے کہ آپ پاکستان کی نمائندگی کا حق ادا کریں گے، بلکہ اب تو ہم اس نتیجے پر پہنچنے میں حق بجانب ہیں کہ دل ہی دل میں میاں صاحب ناراض ہیں کہ را کے ایجنٹ کو کیوں پکڑا۔ فوجی عدالت سے سزا ہونے کے باوجود میاں صاحب کے سِلے ہوئے ہونٹ نہ کھل سکے کیا یہی ووٹ کا وہ تقدس ہے جس کا آپ مظاہرہ کر رہے ہیں۔ تیسری دفعہ آپنے عوام کے ووٹوں کی تذلیل اس وقت کی جب شاتم رسول کو واصل جہنم کرنے والے غازی ممتاز قادری شہید کو رات کی تاریکی میں بھارت، امریکا اور اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے تختہ دار پر لٹکا دیا اور قوم کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی اس پر بھی آپ کا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا بھارت امریکا اور اسرائیل کو مزید خوش کرنے اور اپنی دانست میں مزید پانچ سال حکومت کا چانس لینے کے لیے اس شہید کی نماز جنازہ کا میڈیا پر جنازہ نکال دیا گیا اور ایک جھلک تک ان لاکھوں فرزندان توحید کی نہ دکھائی جو اپنے محبوب شہید کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے ہاں اگر دس پندرہ اسلام بیزار مغرب کی فقیرنیاں اسلام کے خلاف کہیں مظاہرہ کریں تو دن رات پچاس چینلوں پر ان کی ’’جدو جہد‘‘ کی ویڈیو چلائی جاتی رہتی ہیں مگر کیا مجال کہ آپ کو ان لاکھوں ووٹوں کے تقدس کا خیال تک آیا ہو جو ممتاز قادری شہید کو خراج تحسین پیش کرنے اس کے جنازے میں پہنچے تھے وہ کوئی سیاسی لیڈر تو نہیں تھا کہ اس کے ووٹر اس کو خراج تحسین پیش کرنے وہاں پہنچے تھے ان میں لاکھوں آپ کے ووٹر بھی ہوں گے جو اس شہید کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے اس وقت آپ کو ان کے ووٹ کے تقد س کا خیال نہیں آیا۔
محترم میاں صاحب عوام تو آپ کی نظر میں ویسے بھی کمی کمین ہیں ان کی اوقات ہی کیا ہے کیا ان کا ووٹ اور کیا ان کے ووٹ کا تقدس! آپ کو ان کے ووٹوں کا تقدس اس وقت یاد نہیں آتا جب آپ اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ ٹکٹ ان کو ملے گا جو الیکٹیبل (electables) ہوں گے عام ووٹر تو دور کی بات آپ کو تو اپنے دیرینہ کارکنوں کے جذبات کے تقدس کا بھی خیال نہیں کہ اسمبلیوں کے ٹکٹ کے سب سے زیادہ حق دار تو وہی کارکنان ہیں جو دن رات آپ کو مسند اقتدار پر بٹھانے کے لیے ہر طرح کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ میاں صاحب آپ کو تو اپنی زبان کے تقدیس کا احترام نہیں جب آپ نے حافظہ عافیہ صدیقی کی ماں سے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آتے ہی چند ماہ میں آپ بیٹی کو امریکیوں کے چنگل سے آزاد کروا کر واپس لاؤں گا مگر امریکیوں کی حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب ان پر یہ کھلا کہ پاکستان پر ایک ایسا شخص حکمران بن بیٹھا ہے جو عافیہ کی ماں سے وعدہ بھی کر چکا ہے کہ وہ اس کی بیٹی کو رہائی دلوائے گا پوری امریکی عدالت وکلا اور انتظامیہ منتظر تھے کہ ایک دو لائن کا خط آجائے کہ عافیہ صدیقی کو رہا کیا جائے تو دو ملکوں کی دوستی کی لاج رکھتے ہوئے عافیہ کی رہائی کو ممکن بنایا جائے مگر دنیا حیرت زدہ رہ گئی کہ نواز شریف نے قوم کی بیٹی کی رہائی کے لیے دو لائن کا خط لکھنے کی زحمت گوارہ نہ کی۔ اپنی بیٹی کو ممکنہ گرفتاری سے بچانے کے لیے چیف آف آرمی اسٹاف کے گھٹنوں میں سر رکھ کر آنسو بہانے والے کا دل اس وقت بھی نہ پسیجا جب امریکی وکیل خاتون عافیہ صدیقی بے گناہی اور اپنی بے بسی پر موٹے موٹے آنسو بہا رہی تھی اور غیر ملکی اور غیر مذہب ہونے کے باوجود ایک دو لائن کے خط کی بھیک مانگ رہی تھی۔ میاں صاحب جن قوتوں کو خوش کرنے کے لیے آپ ہمیشہ پاکستانیوں اور کشمیریوں کے جذبات کے تقدس کو پامال کرتے رہے انہیں طاقتوں بشمول امریکا اور بھارت نے آپ سے آنکھیں پھیر لی ہیں آپ تو انہیں کو بڑا سمجھ رہے تھے لیکن سب سے بڑا تو اللہ ہے جب اس کی پکڑ میں کوئی آجائے تو دنیا کے فرعونوں کی ایک نہیں چلتی۔ میاں صاحب آپ نے تو ناموس رسالت کی تقدیس کو بھی نعوذ باللہ ٹھیس پہنچانے کی ناپاک جسارت تک کرڈالی اور دھوکے سے قومی اسمبلی میں اٹھائے جانے والے حلف ہی کو تبدیل کردیا جس پر جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی طارق اللہ نے بروقت نشان دہی کر کے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا، کیا آپ کو لفظ تقدیس کا مطلب بھی معلوم ہے۔ ساڑھے چار سال سے قوم آپ سے اپنے تقدیس کی بھیک مانگتی رہی مگر آپ نے ہر ہر موقع پر عوام کے ووٹ کی تقدیس کو پامال کیا۔