چین: ایک نئی عالمگیر حکومت 

561

دیکھنے میں ایسا لگتا ہے جیسے دنیا کے حالات معمول پر آتے جارہے ہیں۔ شام میں قتل عام بند ہو چکا ہے۔ چاہے ترکی اور اس کے امریکی اتحادی بیچارے شامیوں پر بمباری کریں یا پھر شامی فوج اور اس کے روسی اتحادی، سب کچھ ٹھیک ہے۔ سعودی عرب میں بھی خاموشی ہے اور یمن کے محاذ پر بھی سناٹا ہے۔ لبنان اور اسرائیل میں بھی کوئی ایسی صورت حال نظر نہیں آرہی جسے کہا جاسکے کہ معاملات شدید تناؤ کا شکار ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین الفاظ کی گولہ باری بھی تھم چکی ہے اور ایران میں حکومت مخالف ہونے والے مظاہرے جس طرح اچانک شروع ہوئے تھے بالکل اسی طرح اچانک ختم ہوچکے ہیں۔ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ تمام طاقتوں نے سمجھوتا کرلیا ہے اور جس کے پاس کیک کا جتنا حصہ آیا ہے وہ اس پر قانع ہے۔ کیا حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے۔ صورت حال پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ عالمی منظر نامے پر نہ تو سناٹا چھایا ہے اور نہ ہی کھیل ختم ہوگیا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ذرائع ابلاغ پر اس کا کوئی چرچا نہیں ہے بلکہ نان ایشوز کو خوب اچھالا جارہا ہے تاکہ ایک عام فرد کی نگاہ سے وہ تمام معاملات اوجھل رہیں جنہیں چھپانا مقصود ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جب ہم اسٹیج ڈرامے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو ہم صرف اس منظر میں ہی محو ہوتے ہیں جو اسٹیج پر روشنی میں نظر آتا ہے مگر اس کے بالکل برابر میں نیچے تاریکی میں اداکار اگلے سین کی جو تیاری کررہے ہوتے ہیں وہ سب کچھ سامنے ہونے کے باوجود آڈیٹوریم میں بیٹھے تماش بینوں کی آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے۔
آئیے اسٹیج کی سائیڈ پر ہونے والی سرگرمیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اسٹیج کے سائیڈ پر یوں تو کئی ساتھی اداکار اپنے اپنے کردار کی تیاری میں مصروف ہیں مگر مرکزی کردار چین کے پاس ہی ہے۔ one belt one road کا خالق چین پوری دنیا میں ایک نئی عالمی بادشاہت کے قیام میں سرعت کے ساتھ مصروف عمل ہے۔ دنیا بھر میں قطب شمالی سے لے قطب جنوبی تک چین کی عملداری میں تیزی کے ساتھ اضافہ جاری ہے۔ چین کی جغرافیائی سرحدوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ تاہم ان جغرافیائی سرحدوں میں اضافے کے سلسلے میں پوری دنیا پر ایک حیرت انگیز خاموشی طاری ہے۔ چین اپنی مملکت کے ساتھ ہر سرحد پر اضافے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس سلسلے کا آغاز سب سے پہلے تاجکستان کے ساتھ ملنے والی سرحد پر ہوا تھا جہاں پر چین نے تاجکستان کے ساتھ ایک سرحدی سمجھوتے میں پامیر کے پہاڑی سلسلے میں ایک ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ باقاعدہ طور پر اپنی حکومت میں شامل کرلیا تھا۔ اب چین نے بھوٹان کے ساتھ سکم میں ملنے والی سرحد پر ڈوکلام کا علاقہ چینی عملداری میں شامل کرلیا ہے۔ چین کی پیش قدمی جاری ہے اور بھوٹان کے مزید علاقوں کے ساتھ ساتھ نیپال کی حکومت میں شامل علاقوں پر بھی چین نے دعویٰ کردیا ہے۔ چین سے باہر سری لنکا کی بندرگاہ ہمبنٹوٹا کو بھی چین نے 99 برس کے لیے لیز پر حاصل کرلیا ہے۔ چین کے معاملات یہیں پر نہیں تھم گئے ہیں۔ چین نے تیزی کے ساتھ افریقا اور جنوبی امریکا پر اپنی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔ افریقی اور جنوبی امریکی ممالک میں چینی سرمایہ کاری کے نتیجے میںیہ ممالک بھی عملاً چینی عملداری میں آتے جارہے ہیں۔ چین نے یہ سب کچھ انتہائی خاموشی کے ساتھ کیا ہے۔ اس نے یہ فتوحات فوجی طریقے سے کرنے کے بجائے معاشی طور پر غلام بنا کر کی ہیں۔ مثلاً تاجکستان میں چین نے سڑکوں کے انفرا اسٹرکچر پر کام کیا اور اربوں ڈالر کے قرض تلے تاجکستان جیسی حکومت کو دبا دیا۔ جب تاجکستان کی حکومت نادہندہ ہوگئی تو اس قرض تلے تاجکستان کا ایک ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ حاصل کرلیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ سارے کا سارا قرض اسی علاقے کے انفرا اسٹرکچر کی ترقی پر خرچ ہوا تھا جو چینی حکومت نے اپنی عملداری میں لے لیا۔ یعنی مفت کی زمین ہاتھ آئی۔ اگر یہ زمین تاجکستان کی حکومت فروخت کرتی تو اسے کئی سو ارب ڈالر ویسے ہی ہاتھ آجاتے۔ یہی ہاتھ سری لنکا کے ساتھ ہوا۔ پہلے چین نے قرض دے کر ہمبنٹوٹا کی بندرگاہ بنائی اور پھر نادہندگی پر اسی بندرگاہ کو قبضے میں لے لیا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی آپ سے کہے کہ وہ آپ کے گھر کی ڈیکوریشن کے لیے قرض دے گا۔ جب گھر سنور جائے تو نادہندگی پر آپ کا گھر ہی قبضے میں لے لے۔ اس طرح آپ کا گھر بھی گیا اور اس پر ہونے والا کام بھی مفت میں قرض دینے والے کو مل جائے۔ کچھ یہی کھیل اس وقت پوری دنیا میں چین کھیل رہا ہے۔
ایک بات کی پھر سے وضاحت۔ قرض چینی حکومت نہیں دیتی بلکہ چینی بینک دیتے ہیں۔ یہ بینک وہ تمام مروجہ طریق کار اختیار کرتے ہیں جو کوئی بھی بینک کسی بھی فرد کو قرض دینے کے لیے اختیار کرتا ہے۔ یعنی قرض کی واپسی کی ضمانت، قرض دینے سے قبل اس کی دگنی مالیت کی جائداد کو گروی رکھنا اور قرض کی واپسی نہ ہونے کی صورت میں جائداد قرق کرنے کا قانونی اختیار۔
چین نے اب تک جس ملک میں بھی سرمایہ کاری کی ہے وہ تیسری دنیا کے ممالک ہیں جہاں پر کرپشن ایک عام سی بات ہے۔ یہ بات چینی بینکوں کے حق میں جاتی ہے جو پوری دنیا میں رشوت یا کمیشن دینے کے معاملے پر بدنام ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان ہی کو دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری پر انشورنس پریمیم ہی 7 فی صد ہے۔ جب حکومت ان قرضوں کی ضمانتی ہے تو شرح سود سے زیادہ انشورنس پریمیم کی شرح یقیناًسوالیہ نشان ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چینی قرضوں پر تمام تر وصولیاں شامل کرلی جائیں تو یہ 22 فی صد تک ہیں۔ یعنی 100 ارب ڈالر کے قرضے پر 22 ارب ڈالر سالانہ۔ اس شرح سود پر کوئی ملک نادہندہ نہیں ہوگا تو کیا ہوگا۔ اور پھر اس کے بعد نادہندگی کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو دیگر ممالک میں نکل رہا ہے۔
چین نے قبضے کا کوئی نیا یا اچھوتا طریقہ کار نہیں اختیار کیا ہے۔ اسرائیل کے قیام کے لیے یہی طریقہ کار اختیار کیا گیا تھا۔ پہلے وہاں پر زمینیں خریدی گئیں۔ ان زمینوں پر یہودیوں کو بسایا گیا اور پھر اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ چین پوری دنیا پر حکومت کرنے کے منصوبے پر تیزی کے ساتھ عمل پیرا ہے۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دیکھنے میں چین کی حریف طاقتیں امریکا، یورپ اور روس وغیرہ کیوں خاموش ہیں اور انہوں نے کیوں اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ اس سوال پر گفتگو آئندہ کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔