تاجر برادری بیرون ملک 90فیصد سے ذائد فنڈز کاروبار سے نکال کر باہر بھیجے

308
 کراچی: ڈی جی قومی احتساب بیورو سندھ محمد الطاف باوانی نے حال ہی میں عالمی ریسرچ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ رپورٹ کے مطابق بدعنوانی کی وجہ سے دنیا بھر میں کاروباری لاگت میں 10 فیصد اضافہ ہوتا ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں بلکہ یہاں بدعنوانی کی وجہ سے کاروباری لاگت میں 20 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔یہ بات انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس ااینڈانڈسٹری میں” کرپشن کے خاتمے میں تاجربرادری کا کرداد” کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب میں کہی۔ اس موقع پر چیئرمین بزنس مین گروپ و سابق صدر کے سی سی آئی سراج قاسم تیلی، وائس چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا، ہارون فاروقی،انجم نثار، کے سی سی آئی کے صدر مفسر عطا ملک،سینئر نائب صدر عبدالباسط عبدالرزاق،، نائب صدر ریحان حنیف،سابق صدور محمد ہارون اگر،افتخار احمد وہرہ اور منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔
اس موقع ڈی جی نیب سندھ نے کہا کہ ہم سب ملک میں بڑھتی بدعنوانی کے ذمہ دار وں ہیں کیونکہ ہم جلد از جلد کام کروانے کے لیے افسران کو رشوت لینے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان میں رشوت ستانی کے خاتمے کے لیے قوانین تو موجود ہیں لیکن رشوت دینے والوں کے لئے کوئی قانون نہیں۔سوسائٹی سے بدعنوانی کے مکمل خاتمے کے لیے انہوں نے زور دیا کہ بدعنوانی کے خلاف جہاد کیا جائے۔جہاد کا مطلب یہ نہیں کہ جنگ کی جائے لیکن ہمیں بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگی ۔الطاف باوانی نے کہا کہ نیب کی جانب سے سمن ملنے کے بعد کسی بھی ایماندار شخص کوخوفزدہ نہیں ہونا چاہئے
بلکہ اس کا فوری طور پر جواب دینا چاہیے. نیب صرف اس وقت کارروائی کرتا ہے جب کوئی نیب کی جانب سے کارروائی سے قبل جاری کئے گئے تین نوٹسوں کا جواب نہیں دیتا۔انہوں نے نیب کے ادارے کے امور کو اجاگر کرتے ہوئے کہاکہ نیب اپنے افسران کیخلاف بھی سخت کارروائی عمل میں لاتا ہے جو رشوت ستانی یا کسی غلط کام میں ملوث پائے جاتے ہیں اس ضمن میں 35 افسران کو نیب سے نکالا جا چکا ہے جبکہ کئی اب تک جیل میں ہیں۔ڈی جی نیب نے کہاکہ وہ ایمنسٹی اسکیم کیخلاف ہیں جسے ٹیکسوں کی وصولی کے لیے متعارف کروایا جارہا ہے
لیکن اگر ناجائز طریقے سے آمدنی حاصل کی گئی ہے تو نیب کویہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس کیخلاف کارروائی کرے۔انہوں نے بتایا کہ نیب پلی بارگیننگ کے ذریعے رقم واپس نکلواتا ہے اور اس کے نتیجے میں صرف جیل جانے بچا جاتا ہے لیکن ایسے افراد کومجرم قرار دیاجاتا ہے جو 10 سال کی مدت تک کسی سرکاری عہدے پر نہیں رہ سکتے اور وہ بینکوں سے کوئی قرض بھی حاصل نہیں کرسکتے۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیئرمین بزنس مین گروپ و سابق صدر کراچی چیمبر سراج قاسم تیلی نے کہا کہ برنس مین گروپ نے چاہے وزیر اعظم ہوں، صدر ہوں یا کوئی اور سب کے سامنے ہمیشہ پوری ایمانداری سے ہمیشہ سچ ہی بولا اور یہ ہماری
سچائی اور ایمانداری کی بدولت ہی ممکن ہوا کے بی ایم جی پچھلے 20سالوں سے کراچی چیمبر کے انتخابات مسلسل جیت رہا ہے۔انھوں نے کہا کوئی بھی شخص جو مدد کا طلبگار ہو کراچی چیمبر کے عہدیداران اُس کی مدد کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں تاہم یہ بات نیب کے لئے سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ بڑے سے بڑا تاجر کسی غلط یا غیر قانونی کام کے لئے کے سی سی آئی سے مدد مانگتا ہے تو ایسے شخص کی کسی صورت مدد نہیں کی جاتی۔ ان تمام سالوں میں ہم نے چوروں اور بے ایمانوں کو کبھی سپورٹ نہیں کیااور جب تک بزنس مین گروپ کراچی چیمبر میں موجود ہے ہم کسی بے ایمان کو سپورٹ نہیں کریں گے۔ عوامی خدمت اور سچائی بزنس مین گروپ کی اولین پالیسی رہی ہے اور یہی وہ راستہ ہے جسپر چل کر تمام اقسام کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں کوئی سچ بولنے کی ہمت نہیں کرتا اور اپنے ذاتی مفادات سے بڑھ کر دیکھنا نہیں چاہتا جس کی وجہ سے پوری سوسائٹی ہی بری طرح بگڑ چکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سچائی اور ایمانداری سے ہی ملک کو جاری بحران سے نکالا جاسکتا ہے۔سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی جانب سے قوانین اور پالیسیوں میں ترامیم کا حوالہ دیتے ہوئے سراج تیلی نے کہا کہ یہ ترامیم صرف اس وجہ سے کی جاتیں ہیں کہ ذاتی فوائد حاصل کئے جاسکیں جبکہ ٹیکس کی پالیسیوں کو کچھ اس طرح مرتب کیا جاتا ہے تاکہ تاجر وصنعتکار برادری کو حراساں کیا جا سکے
 زیادہ سے زیادہ کمایا جا سکے۔ زیادہ تر قوانین قوم کو درست سمت میں لانے کے لئے نہیں بلکہ اس مقصد کے تحت بنائے جاتے ایف بی آر کے بے جا اختیارات جو پچھلے پانچ سالوں میں دیئے گئے انہیں استعمال کرتے ہوئے تاجر و صنعتکار برادری کو حراساں کیا جائے اور مزید نچوڑ ا جائے تاکہ صرف اپنی جیبوں میں زیادہ سے زیادہ پیسہ بھرا جاسکے۔انھوں نے ڈی جی نیب سے درخواست کی کہ جب بھی کسی تاجر و صنعتکار کے خلاف کوئی مسئلہ ہو تو تاجر و صنعتکار برادری کو آن بورڈ لیا جائے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کے ہمارے ساتھ سو فیصد معلومات شیئر کی جائے تاہم نیب اس بات کی یقین دہانی ضرور کرلے کہ وہ سہی کام کرنے جارہے ہیں اور کسی ایماندار کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہو رہی۔ نیب کو کسی بھی بے ایمان تاجر و صنعتکار کے خلاف کارروائی کرنے کی آزادی حاصل ہے لیکن متعلقہ معلومات اور ثبوت کراچی چیمبر سے شیئر کئے جائیں اور اگر یہ ثبوت جھٹلانے جیسے نہیں تو کراچی چیمبر ایسے بے ایمان تاجروں اور صنعتکاروں کے خلاف نیب کے ساتھ کھڑا رہے گا۔چیئرمین بی ایم جی نے ڈی جی نیب کو مشورہ دیا کہ وہ صوبے کے تمام چیمبرز اور ٹریڈ ایسوسی ایشنز کا دورہ کریں تاکہ مسائل کو شناخت کرنے میں مدد مل سکے جبکہ نیب کے کیسز میں شکوک و شبہات کی صورت میں فائدہ تاجر برادری کو ہونا چاہئے۔منی لانڈرنگ اور ایمنسٹی اسکیم پر اظہار خیال کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تاجر برادری کی جانب سے باہر بھیجے گئے 90فیصد سے ذائد فنڈز ایسے ہوتے ہیں جو انھوں نے اپنے کاروبار سے نکال کر باہر بھیجے۔ ہاں اُن کا یہ قصور ضرور ہے کہ انھوں نے انکم ٹیکس سے بچنے کے لئے فنڈز باہر بھیجے جو ایک غیر قانونی عمل ہے تاہم یہ فنڈز اُن کے اپنے ذاتی کاروبار سے نکال کر باہر بھیجے جاتے ہیں جبکہ سیاست دان اور بیورو کریٹس اختیارات کا غلط استعمال کرکے عوام سے لوٹا گیا پیسا باہر منتقل کرتے ہیں ۔
میں ایمنسٹی اسکیم کے حق میں نہیں جس سے ایماندار ٹیکس گزاروں کو سزا دی جارہی ہے جنہوں نے ساری زندگی پوری ایمانداری سے ٹیکس جمع کروائے اور قوانین کی پاسداری کرتے رہے۔ ایمنسٹی اسکیم صرف چوروں اور بے ایمانوں کے لئے بنی ہے جو ملک سے اربوں روپے لوٹنے کے ذمے دار ہیں۔قبل ازیں کراچی چیمبر کے صدر مفسر عطا ملک نے اپنے استقبالیہ بیان میں کہا کہکرپشن پرسیپشن انڈیکس ( سی پی آئی ) کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کا شمار 180بدعنوان ممالک کی فہرست میں 117ویں نمبر پر ہوتا ہے جبکہ بھارت81ویں نمبر پر ہے۔ کم درجے پر رہنا بدقسمتی ہے۔ پاکستان جس کی بنیاد ایک اسلامی ملک کی حیثیت سے رکھی گئی یہاں بے پناہ بدعنوانی اور کرپشن کا پایا جانا ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ اس ملک کو لازوال قربانیوں کی بدولت طویل جدوجہد کے بعد حاصل کیا گیا لہذا کسی بھی صورت اسے بد عنوان عناصر کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔انھوں نے ڈی جی نیب کو مشورہ دیا کہ انسان کے انسان سے رابطوں کو کم سے کم کیاجائے۔عوامی اور نجی شعبوں میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بدعنوانی کو کم کیا جاسکتا ہے۔ متعلقہ محکموں کی نگرانی کی جائے۔اگرچہ کئی شعبوں میں آٹومیشن کے اقدامات کیے گئے ہیں ہیں لیکن بدعنوانی اب بھی ان میں موجود ہے جس کے خاتمے کے لیے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ بدعنوان حکام میں خوف پیدا کرنے کے لیے انسداد بدعنوانی کے قوانین کو سخت ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں عوام کو بھرپور آگاہی دی جائے۔انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر انہوں نے کوئی غلط کام کیا تو عوام قوانین سے واقف ہیں اور وہ میڈیا مہم کے ذریعے اپنا حق لینا جانتے ہیں۔ قانون سے کوئی بھی بالا تر نہیں ہونا چاہیے

Back to Conversion Tool