بھارتی لیور ٹرانسپلانٹ سرجن سبھاش گپتا اور ان کی ٹیم رواں ماہ کراچی آئے گی، وی سی ڈاؤ یونی ورسٹی پروفیسر سعید قریشی

577

کراچی (اسٹاف رپورٹر) پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے باوجود نام ور بھارتی لیور ٹرانسپلانٹ سرجن سبھاش گپتا اور ان کی ٹیم رواں ماہ کراچی آئے گی اور ڈاﺅ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے اوجھا کیمپس میں تین سے چار جگر کی پیوند کاری کے آپریشن کرے گی، آپریشن کے لیے مریض اور ان کے ڈونرز کا انتخاب کر لیا گیا ہے اور اس سلسلے میں تمام تیاریاں مکمل ہیں، سندھ میں جگر کی پیوند کاری نہ ہونے کا سب سے بڑا سبب تربیت یافتہ سرجنز اور عملے کی کمی ہے، امید ہے جلد ہی ڈاﺅ یونی ورسٹی کے ماہرین اس پیچیدہ سرجری پر عبور حاصل کر کے مقامی طور پر بغیر کسی بیرونی مدد کے یہ آپریشن کرنے کے قابل ہوجائیں گے،سندھ میں جگر اور پیٹ کے امراض کی سب سے بڑی وجہ آلودہ پانی کی فراہمی ہے، لوگوں کو چاہیے کہ وہ پانی کو اُبال کر پئیں، جس کے نتیجے میں پیٹ کے80 فی صد سے زائد امراض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاﺅ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سعید قریشی نے پاکستان گیسٹرو انٹرولوجی اینڈ لیور ڈیزیز سوسائٹی کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں منعقدہ پہلی ایک روزہ کانفرنس سے خطاب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر کانفرنس کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد احمد، معروف گیسٹرو انٹرولوجسٹ ڈاکٹر وسیم جعفری، ڈاکٹر لبنیٰ کمانی، ڈاکٹر نازش بٹ، ڈاکٹر سجاد جمیل، ڈاکٹر امان اللہ عباسی اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس کا مقصد پیٹ اور جگر کے امراض کے حوالے سے عوامی آگہی پیدا کرنا اور نوجوان ڈاکٹروں کو علاج کے مختلف طریقوں اور پہلوﺅں سے روشناس کروانا تھا۔ ڈاکٹر سعید قریشی کا کہنا تھا کہ بھارتی سرجن سبھاش گپتا نے جگر کی پیوند کاری کا آخری آپریشن گزشتہ برس دسمبر میں اوجھا کیمپس میں کیا تھا اور اس سال رواں ماہ بھی وہ اپنی ٹیم کے ساتھ کراچی تشریف لا رہے ہیں اور جگر کی پیوند کاری کے تین سے چار آپریشن کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں ہیپا ٹائٹس اے، ڈی اور ای کے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ آلودہ پانی ہے، عوام الناس کو چاہیے کہ وہ پانی کو اُبال کر استعمال کریں اور بوتلوں میں فروخت ہونے والا غیر معیاری پانی پینے سے گریز کریں۔ انہوں نے اس موقع پر پیٹ کے امراض کے ماہرین کو مشورہ دیا کہ وہ اینٹی بائیوٹک ادویات کا نسخہ لکھنے سے گریز کریں تاکہ دواﺅں کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی بیماریوں سے بچا جا سکے۔ ڈاکٹر شاہد احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ڈاکٹروں کی جانب سے اینٹی بائیوٹک ادویات کا بے دریغ استعمال دواﺅں کے خلاف مزاحمت کرنے والے ٹائی فائیڈ کا سبب بن رہا ہے، تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سندھ میں پھیلنے والے ٹائی فائیڈ پر انتہائی قوت بخش اینٹی بائیوٹک ادویات بھی اثر نہیں کر رہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اینٹی بائیوٹک ادویات کی ڈاکٹری نسخے کے بغیر فروخت پر پابندی عائد کی جائے، شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جائے جو نہ صرف ایک بنیادی انسانی حق ہے بلکہ پیٹ کے امراض سے بچنے کا سب سے بہترین نسخہ بھی ہے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لیاقت نیشنل اسپتال کی ماہر ڈاکٹر لبنیٰ کمانی نے واضح کیا کہ پاکستان میں ہیپا ٹائٹس سی انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان پر سفری پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے حکومت اور عوام سے اپیل کی کہ وہ ہیپا ٹائٹس سی کے حوالے سے آگہی کو فروغ دیں، انجکشن اور ڈرپس لگانے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے اور استعمال شدہ طبی آلات مریضوں پر استعمال نہ کیے جائیں تاکہ اس خطرناک مرض کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔