شام کا المیہ (حصہ اول) 

725

شام میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اسے ایک المیہ کہنا یقیناًوہاں پر ہونے والی حقیقت سے انتہائی کم ہے۔ جو خبریں اور تصاویر روز آرہی ہیں وہ کسی بھی سمجھ رکھنے والے شخص کے ہوش و حواس گم کرنے کے لیے کافی ہے۔ شام میں یہ سب کیا ہورہا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے تھوڑا سا پس منظر دیکھتے ہیں۔
روایتی طور پر ملک شام کے نام سے معروف یہ ملک 1946 میں فرانسیسی استبداد سے آزاد ہوا یا کانٹ چھانٹ کر ایک ملک کی صورت میں آزاد قرار دیا گیا۔ آزادی کے بعد اس کا عربی میں نام سوریا اور انگریزی میں سیریا قرار پایا تاہم برصغیر میں یہ اپنے پرانے نام شام ہی سے معروف ہے۔ موجودہ شام رقبے میں بھی انتہائی چھوٹا سا ملک ہے اور آبادی کے لحاظ سے بھی۔ 2017 کے ایک اندازے کے مطابق اس کی آبادی محض ایک کروڑ 80 لاکھ تھی۔ 1970 میں حافظ الاسد ایک فوجی انقلاب کے ذریعے برسراقتدار آئے تھے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، اسد خاندان ہی شام کے اقتدار پر قابض ہے۔ اسد خاندان کا تعلق نہ تو ملک کے اکثریتی قبیلے سے ہے اور نہ ہی اکثریتی مذہب سے۔ کہنے کو وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان کے عقائد اکثریتی شیعہ مسلک سے بھی بہت مختلف ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ شام، مصر، لبنان کا علاقہ مختلف عقائد رکھنے والوں کے لحاظ سے انتہائی زرخیز ہے۔ عیسائیت، اسلام یا دیگر مذاہب ہوں، ان ممالک میں جو عقائد پائے جاتے ہیں وہ پوری دنیا سے یکسر مختلف ہیں۔ یہاں پر تو محض ایک خاندان پر مشتمل خصوصی عقیدے والے عیسائی بھی پائے جاتے ہیں۔
بہرحال ایک طویل عرصے سے حکومت میں رہنے کی بناء پر اسد خاندان کے خلاف بے چینی ایک فطری امر ہے۔ اس پر اسد خاندان کے آمرانہ رویہ، مخالفین کو بلڈوز کردینے اور اپنے قبیلے کو نوازنے نے بھی مرے پر سو درے کا کام کیا۔ حافظ الاسد کو اقتدار میں لانے والی اور ان کے اقتدار کو دوام دینے والی وہی قوتیں تھیں جو لیبیا کے معمر قذافی اور عراق کے صدام حسین وغیرہ وغیرہ کو برسر اقتدار لائی تھیں۔ حافظ الاسد اور ان کے بعد ان کے بیٹے بشار الاسد نے ان قوتوں کی اسی طرح خدمت گزاری کی جیسے صدام حسین اور قذافی وغیرہ وغیرہ کرتے رہے تھے۔
مشرق وسطیٰ میں جب نیا کھیل رچایا گیا تو اپنے ہی پیادے معتوب ٹھیرے۔ شام میں پہلے ہی اسد خاندان کے خلاف غم و غصہ تھا۔ اب اس بھس میں چنگاری ڈال دی گئی اور باغیوں کو ہر طرح کی مدد پہنچانا شروع کردی گئی۔ پہلے یہ مدد خفیہ تھی بعد میں اعلانیہ حملے شروع کردیے گئے۔ ناٹو افواج نے ترکی سے براہ راست شام پر حملے شروع کردیے۔ عراق، لبنان، اسرائیل، ترکی اور اردن کی سرحد کے ساتھ ساتھ شامی علاقے میں خوں ریزی شروع ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی امریکی بلاک میں شامل عرب ممالک نے بھی شام کا مقاطعہ شروع کردیا۔ اس کی عرب لیگ اور مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کی رکنیت معطل کردی گئی۔ شام انتظامی طور پر 14 صوبوں پر مشتمل ہے۔ یہ صوبے مزید 60 اضلاع پر مشتمل ہیں۔ ان 14 صوبوں میں سے 9 صوبے افراتفری اور خوں ریزی کا شکار رہے ہیں۔ دمشق، دیر الزور، رقہ، الیپو، ادلیب، لطاکیہ، طرطوس، ہما اور الحسکہ یہ وہ صوبے ہیں جہاں پر شدید ترین خوں ریزی بھی ہوئی اور انسانیت تڑپی اور سسکی بھی ہے۔ ذرا شام کے نقشے پر ان صوبوں پر ایک نگاہ تو ڈالیں۔ یہ سارے کے سارے علاقے ترکی، اردن، لبنان اور اسرائیل کی سرحد کے ساتھ ملحق ہیں۔ بقیہ صوبے جو پرامن ہیں وہ امریکی بلاک سے دوری پر ہیں۔ حالاں کہ ان علاقوں کے لوگوں کو بھی اسد خاندان سے وہی شکایات ہیں جو جنگ زدہ علاقے کے لوگوں کو ہیں۔ شام میں لڑنے والا کوئی ایک گروہ نہیں ہے۔ یہاں پر ایک ایک علاقے میں کئی کئی درجن گروہ برسرپیکار ہیں۔ امریکا اور ان کے اتحادی ان گروہوں کی بھی سرپرستی اور امداد کرتے ہیں جنہیں وہ دیگر ممالک میں دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے شام میں ہونے والے انسانی المیے کو مسلم دنیا میں شیعہ اور سنی جنگ قرار دے دیا گیا ہے۔ بشار الاسد کو اس وقت شیعہ آئی کون کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ ایرانی مدد کے ساتھ ساتھ پاکستانی، افغانی اور لبنانی شیعہ نوجوان بھی وہاں پر جوق در جوق لڑنے کے لیے جارہے ہیں اور جان کی بازی بھی ہار رہے ہیں۔ اسی طرح بشار الاسد کے ساتھ برسر پیکار گروہوں میں عرب دنیا اور وسط ایشیا کے سنی نوجوان موجود ہیں۔ شام میں کون کون سے گروہ کس علاقے میں برسر پیکار ہیں، اس پر میں 7 جنوری 2017 کو کئی کالموں پر مشتمل ’حلب میں برسر پیکار کون‘ کے نام سے کالم لکھ چکا ہوں۔ یہ سارے کالم میرے ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
سوال یہ نہیں ہے کہ شام میں کیا ہورہا ہے؟ شام میں جو کچھ ہورہا ہے، اس سے زیادہ سنگین دنیا کے اور دیگر ممالک میں ہورہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ بھارتی فوج کررہی ہے وہ غوطہ سے کم نہیں ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو المیہ جاری ہے وہ شام سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ برمی فوج نے رہے سہے روہنگیا مسلمانوں کا مکمل طور پر محاصرہ کررکھا ہے۔ فاقہ زدہ مسلمان اور ان کی خواتین و بچے بھوک سے مرنے کے قریب ہیں۔ ان کے بچوں اور عورتوں کو انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں میں بیچا جارہا ہے۔ جب کسی طرح یہ مسلمان چھوٹی موٹی کشتیوں کے ذریعے فرار کی کوشش کرتے ہیں تو تھائی فوجی راستے میں ان کا شکار کرتے ہیں۔ اسی طرح لیبیا کی صورت حال ابتر ہے۔ عراق میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔ لیبیا میں بھی صورت حال شام سے ابتر نہیں تو بہتر بھی نہیں ہے۔ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کا تو ذکر ہی کیا؟ اس کا کہیں پر کسی بھی ظلم سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس وقت صرف اور صرف شام ہی مغربی ذرائع ابلاغ پر کیوں چھایا ہوا ہے۔ اس اہم ترین سوال پر گفتگو آئندہ کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔