کراچی (اسٹاف رپورٹر) تھر ایکسپریس، سمجھوتہ ایکسپریس سمیت مسافر ٹرینوں میں کوالیفائیڈ ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے ملکی اور غیرملکی مسافر طبی امداد کی سہولت سے یکسر محروم کر دیے گئے، تھر ایکسپریس اور خوش حال خان خٹک ایکسپریس میں اموات کے باوجود ریلوے حکام نے طبی سہولتیں بحال نہ کیں، تھر ایکسپریس کے 400 مسافروں کو کمپاو¿ڈر کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ریلوے ڈاکٹر بدستور ڈیوٹی سے غائب ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی سفر پر روانہ ہونے والی تھر ایکسپریس، سمجھوتہ ایکسپریس سمیت اندرون ملک چلنے والی مسافر ٹرینوں میں ڈاکٹرز اور ضروری طبی سہولتوں کی عدم موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ کراچی کھوکھرا پار اور بھارتی سرحدی علاقے مونا باو¿ جانے والی تھر ایکسپریس، لاہور، واہگہ اور اٹاری کے مابین چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس میں کسی بھی مسافر کو ایمرجنسی میں طبی سہولتیں حاصل نہیں ہیں جب کہ اندرون ملک چلنے والی مسافر ٹرینوں میں صورت حال اس سے بھی بدترہے۔ گزشتہ ماہ مونا باو¿ بھارت سے مسافروں کو لے کر کراچی آنے والی تھر ایکسپریس میں ایک مسافر محمد یوسف فوری طبی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے ڈھورو نارو کے چھوٹے اسٹیشن پر جاں بحق ہو چکے ہیں جب کہ اندرون ملک کراچی سے پشاورکے مابین چلنے والی خوش حال خان خٹک ایکسپریس میں 9 سالہ ننھی مسکان علاج معالجے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے دوران سفرجاں بحق ہو چکی ہے۔ لازمی ڈیوٹی کے ریلوے قوانین کے باوجود ریلوے کے ڈاکٹرز تھر ایکسپریس میں ڈیوٹی نہیں دیتے اور کراچی سے ٹرین کے ساتھ کمپاو¿ڈر کو بھیج کر خانہ پری کر لی جاتی ہے، جمعہ 16 مارچ کو کراچی سے روانہ ہونے والی تھر ایکسپریس بھی بغیر ڈاکٹرز کے کراچی سے زیرو پوائنٹ کھوکھرا پارکے لیے روانہ کر دی گئی، پاک بھارت ویزا فراہمی میں سختی اور صرف عمر رسیدہ افراد کو ویزا دینے کے باعث تھر ایکسپریس میں سفر کرنے والے زیادہ تر مسافر پچاس سال سے زائد عمر کے ہوتے ہیں جب کہ کراچی سے روانگی کے بعد بھارتی اسٹیشن مونا باو¿ تک پہنچنے کے لیے مسافروں کو بارہ سے اٹھارہ گھنٹے صرف کرنا پڑتے ہیں، تھر کا صحرائی علاقہ ہونے کی وجہ سے عمر رسیدہ افراد کو دوران سفر اور زیرو پوائنٹ پر کئی طبی مسائل کا سامنا ہوتا ہے مگر دوران سفر تھر ایکسپریس میں اور حیدرآباد سے تھر پارکر، زیروپوائنٹ تک کسی بھی ایک ریلوے اسٹیشن پر طبی سہولتیں اورڈاکٹرز کا انتظام نہیں ہے، تھر ایکسپریس کے گارڈ یا ریلوے اسٹیشن ماسٹر کے پاس ایمرجنسی بکس میں صرف پین کلر ٹیبلیٹس، پولی فیکس اور مرہم پٹی کا سامان ہوتا ہے اور کسی بھی ریلوے اسٹیشن یا کھوکھرا پار زیرو پوائنٹ ریلوے اسٹیشن جہاں مسافروں کو امیگریشن،کسٹم اور سفری دستاویزات سامان چیک کرانے کے لیے کم ازکم چھ سے آٹھ گھنٹے گزارنا ہوتے ہیں ڈسپینسری نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ تھر ایکسپریس کے مسافروں نے بارہا ریلوے حکام سے ڈاکٹرز کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے مگر حکام نے تاحال تھر ایکسپریس جو نہ صرف پاکستانی بلکہ بھارتی دیگر غیر ملکی مسافروں کو سرحدی علاقے سے اندرون ملک سفری سہولت مہیا کرتی ہے، طبی سہولتوں کے انتظام سے خالی ہے۔ مسافروں کو سفرکی سہولتوں کے ساتھ ساتھ ان کے تحفظ کو یقینی بنانا ریلوے قوانین کے مطابق ریلوے حکام کی ذمے داری ہے مگر ریلوے حکام قوانین پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں ہیں۔ تھر ایکسپریس کے ایک بھارتی مسافر کا کہنا ہے کہ اگر دوران سفر کوئی بیمار ہو جائے یا کوئی حادثہ پیش آ جائے تو انہیں فوری طبی امداد دینے کے لیے بھارت میں ہر ایک اسٹیشن پر علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے مگر تھر ایکسپریس میں ایمرجنسی میں طبی سہولتیں تو دور کی بات ایمرجنسی کھڑکی بھی موجود نہیں ہے۔ ایک ریلوے افسر کے مطابق ریلوے قوانین کے تحت طبی سہولتوں کی مناسبت سے ہر ایک اسٹیشن کی درمیانی منزل پر خصوصی طبی کیبن جن میں ڈاکٹر، نرس، طبی عملہ اور اسٹریچر ادویہ وغیرہ دستیاب ہوں اس کا قیام لازمی امر ہے۔ علاوہ ازیں مسافروں کے مسائل کے فوری حل کے لیے خصوصی اسٹیشن ماسٹرز کا تقرر بھی کیا جاتا ہے مگر پاکستان ریلوے میں اس کا فقدان ہے۔