نواز شریف پر جوتا پھینکا گیا۔۔۔ سارے سیکولر یکجا ہوگئے

390

اتوار 11 مارچ 2018 کو جامعہ نعیمیہ لاہور میں ایک تقریب میں تقریر کے لیے آتے ہی میاں نواز شریف پر ایک شخص نے بہت قریب سے جوتا پھینک دیا جو سیدھا ان کو جا لگا قبل ازیں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر بھی جوتا پھینکا گیا تھا اور ایک روز قبل وفاقی وزیر خارجہ خواجہ آصف پر بھی سیاہی سے لبریز بوتل پھینکی گئی قابل ذکر امر یہ ہے کہ دونوں وفاقی وزرا پر جوتا اور سیاہی ان کے اپنے حلقہ انتخاب میں پھینکا گیا اور نواز شریف پر جوتا لاہور میں ہی پھینکا گیا جو شریفوں کی راج دھانی کہلاتا ہے۔ جوتا کلب میں یوں تو کم و بیش ساری دنیا کے چوٹی کے راہنما شامل ہیں جن میں امریکا کے سابق صدر جارج واکر بش بھی قابل ذکر ہیں۔ ایسے واقعات دنیا بھر میں وقوع پزیر ہوتے رہتے ہیں جو تنگ آمد بجنگ آمد کا پیش خیمہ سمجھے جاتے ہیں جب عوام کی شنوائی کسی بھی سطح پر نہ ہو رہی ہو اور عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے والی قوتیں ناکامی کا مظاہرہ کرتی ہوں۔اس ناچیز نے دنیا کے کم و بیش پندرہ ملکوں میں تھوڑا بہت وقت گزارا ہے جن میں امریکا سرِ فہرست ہے ہر ملک کے عوام اپنی معاشی تنگی کا رونا روتے ہی نظر آئے پھر بہتر مستقبل کے لیے نوجوان ادھر ادھر کے ملکوں کی خاک چھاننے پر مجبور ہوئے لیکن ڈھاک کے تین پات کے مصداق سکون قلب کہیں بھی نصیب نہیں ہاں اتنا ضرور ہے کہ چھوٹے ملکوں کے جوان جن کی کرنسی ڈالر پاؤنڈ کے مقابلے میں کمتر ہے ان ممالک کے نوجوان محنت مزدوری کر کے کچھ رقم پسِ انداز کر کے اپنے گھروں کو بھیج دیتے ہیں یوں ان کے ملکوں میں ان کے خاندان کے کچھ آنسو پچھ جاتے ہیں لیکن یہ کوئی حتمی اور مستقل حل نہیں ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دنیا کے ہر ملک میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہو اور نوجوانوں کو اپنے ہی ملکوں میں روزگار مہیا کیا جائے تو کیوں کوئی اپنے بوڑھے والدین اور بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر دیار غیر میں تیسرے اور چوتھے درجے کا شہری بننے کو گوارہ کرے، لیکن عالمی تجارتی اور کاروباری ٹولے نے دنیا کے چھوٹے ملکوں کو اقتصادی معاشی اور صنعتی ترقی سے دور رکھنے کے ظالمانہ قوانین بنا رکھے ہیں تاکہ ان کی مصنوعات ساری دنیا میں بیچی جا سکیں اور ان ممالک کی کھربوں ڈالر کی رقوم ان چند مغربی بشمول امریکا میں پہنچتی رہے۔ اسی لیے وہ ایسے حکمراں ان چھوٹے ممالک کے لیے تیار
کرتے ہیں جو ان کی پالیسیوں کو اپنے ملکوں میں رائج کریں اب ظاہر ہے ایسے منصوبوں پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ایماندار دیانتدار ملک و قوم کا درد رکھنے والی قیادت تو راضی نہیں ہو سکتی تو لا محالہ بد عنوان لوٹ مار کے ماہر اور ہر طرح کی کرپشن کرنے والے سیاستدان ہی درکار ہوں گے اور وہ ساری دنیا میں ان کو وافر مقدار میں دستیاب ہوتے ہیں۔ کوئی ملک اگر قدرتی دولت، معدنیات، تیل گیس سے مالا مال ہیں تو ان ممالک کے ان ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے وہاں جنگ مسلط کر دی جاتی ہے پھر اپنے پٹھوؤں کو مسند اقتدار پر بٹھا دیا جاتا ہے جن کا عوام سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ہمارے ملک میں بھی سیاسی اور فوجی حکمرانوں نے عوام کو معاشی ترقی کے مواقع فراہم نہیں کیے لیکن عوام کی بدحالی اور ترقی نہ کرنے کا الزام ہر دو طبقہ ہائے حکمراں ایک دوسرے کے سر منڈھتے رہے اور آج بھی وہی کھیل اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے کوئی کہتا ہے کہ اس نے ڈیم بنا دیے کوئی کہتا ہے اس نے سڑکیں بنا دیں لیکن کسی کو یہ کہنا نصیب نہیں ہوتا کہ اس نے کتنے سو کارخانے ملک کے طول و عرض میں لگائے کتنی گھریلو صنعتوں کے لیے عوام کو آسانیاں بہم پہنچائیں یہاں تو حال یہ ہے کہ بیرون ملک سے اربوں روپے لے کر آنے والے صنعت کاروں کو نت نئے طریقوں سے تنگ کیا جاتا ہے قانونی موشگافیوں طرح طرح کی غیر ضروری قدغنوں سے تنگ آکر صنعت کار واپس بھاگنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے ان کو بھگانے والے کے یہی وہ لوگ ہیں جو مغرب کی ایما پر صنعت کاری کو اتنا مشکل بنا رہے ہیں کہ کوئی بیرونی سرمایہ کار تو رہا ایک طرف اپنے ملک کا صنعت کار بھی یہاں سرمایہ کاری کرنے سے کانوں کو ہاتھ لگا رہا ہے۔
گزشتہ تیس سال سے کراچی میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ یہاں کے حالات اتنے دہشت زدہ کردیے گئے کہ اچھے اچھے جمے ہوئے کارخانے یہاں سے نکال لیے گئے ایک اندازے کے مطابق کراچی سے ساڑھے چار ہزار یونٹس دیگر شہروں اور بیرون ملک منتقل کردیے گئے ظاہر ہے ان ہزاروں یونٹس کی موجودگی اس بات کی ضمانت تھے کہ ملک کو مالی طور پر فائدہ ہو رہا تھا اور عوام کو روزگار کے مواقع بھی حاصل ہو رہے تھے جب کہ سرمایہ کار مزید یونٹس لگانے کی پوزیشن میں بھی تھے اب تک اتنے ہی یونٹس اور لگائے جا چکے ہوتے مگر بیرونی سازشوں کے تحت کراچی کی صنعت کو تباہ و برباد کر دیا گیا یہاں مہنگائی اور بے روزگاری، بدامنی، دہشت گردی کا جن پوری قوت سے دو کروڑ انسانوں کے سینوں پر مونگ دلتا رہا کراچی میں سیکڑوں غیرملکی کمپنیاں اپنا کاروبار چلا رہی ہیں جن کو پچاس پچاس سال ہو چلے ہیں مگر ان کو تو کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا اور وہ اس پر آشوب دور میں بھی اپنا کاروبار پوری آب و تاب کے ساتھ چلاتے رہے بلکہ یہاں کی صنعتوں اور کارخانوں کو بھی خرید رہے ہیں کراچی کے دگر گوں حالات کا ان پر رتی برابر اثر نہ ہوا یہ بھی قوم کو نہیں معلوم کے وہ سیکڑوں کمپنیاں جو پچاس پچاس سال سے اس شہر سے کھربوں ڈالر کمارہی ہیں آخر وہ ٹریڈ اور آمدنی ٹیکس بھی حکومت کو دے رہی ہیں یا صرف کمانے ہی پر لگی ہوئی ہیں یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں نہ صرف پیسہ بٹورنے میں لگی ہوئی ہیں بلکہ معاشرتی اور سیاسی میدان میں بھی گل کھلا رہی ہیں میڈیا پر بعض کمپنیوں نے قبضہ جمایا ہوا ہے جن کے بیہودہ شرم و حیا سے عاری اور اخلاق باختہ اشتہارات نوجوان نسل کو بگاڑنے کا کام بھی کر رہے ہیں یہیں پر بس نہیں اب تو کھلے عام متعدد چینلز پر جوا بھی کھلایا جا رہا ہے جس پر اربوں روپے لٹائے جا رہے ہیں جن کا واحد مقصد نوجوان نسل میں ہوس دولت کو فروغ دینا اور دولت کے حصول کے لیے حلال و حرام کی تمیز سے بے بہرہ کرنا ہے جس کے نتائج یہ نکلیں گے کہ وہ عام انتخابات میں ہمیشہ انہیں نام نہاد بیرون ایجنڈے پر کام کرنے والے سیاست دانوں کو ووٹ دیں گے جو ان کے لیے جائز و ناجائز کمائی کے لیے راہ ہموار کر سکیں آج ہر سیکولر سیاستدان ایک ہی نعرہ لگاتا ہے کہ مذہب کو سیاست سے الگ رہنا چاہیے کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے یہی فلسفہ امریکا اور یورپ میں اپنایا گیا جن کی معاشرتی تباہی سب کے سامنے ہے وہاں گھرانے کا تصور ختم ہونے کو ہے خاندانی نظام تباہی کے گڑھے کے تک پہنچ چکا ہے ایک ہیجانی کیفیت ہے کہ بڑھاپے کے آنے سے پہلے زیادہ سے زیادہ دولت کسی نہ کسی طرح جمع کر لی جائے پھر اس رقم کو بینک کے حوالے کر کے بقیہ زندگی اس کی خیرات نما آمدنی پر گزاری جا سکے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی بیسویں صدی کے وہ رجل رشید تھے کہ جنہوں نے اسلام کو ریاست کا مذہب ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی کیوں کہ ا سلام زندگی کے ہر ہر شعبے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے اس بات پر بقیہ طبقہ ہائے فکر متفق تو تھے مگر ان کو یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی راستہ ہاتھ نہیں آ رہا تھا لیکن یہ کام سید مودودی نے کر دکھایا اور یہ ثابت کیا کہ اسلام ریاست کے تمام معاشرتی، معاشی، اقتصادی معاملات کا مکمل طور پر احاطہ کرتا ہے۔
نواز شریف کو جوتا مارنے کے بعد ایک اور باریک حقیقت سامنے آئی کہ جب احسن اقبال پر جوتا پھینکا گیا تو کسی نے مذمت کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی ایک روز قبل خواجہ آصف پر سیاہی کی پوری بوتل پھینک دی گئی کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی لیکن نواز شریف پر جوتا پھینکتے ہی ہر طرف چیخ و پکار کا شور سنائی دینے لگا آخر ان تینوں واقعات میں اتنا متضاد رویہ دیکھنے میں کیوں آ رہا ہے کہ تمام سیکولر سیاستدان پورا سیکولر میڈیا جو اسلام کے نام سے الرجک ہے اتنی ہا ہا کار کیوں مچائی ہوئی ہے یہ تو کہا جا سکتا ہے کو نواز شریف اور دیگر افراد کی شخصیت میں بہت فرق ہے لیکن بات اتنی سادہ نہیں اول ذکر دونوں افراد کو جوتا اور سیاہی پھینکے کی حرکت ان کے اپنے ورکرز نے کی جہاں سارے لوگ ایک سیکولر پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن نواز شریف پر جوتا چوں کہ ایک مذہبی ادارے کی حدود میں ایک باریش مسلمان نے پھینکا اس لیے ساری سیکولر جماعتوں اور میڈیا پر قابض سیکولر لادین عناصر کی ٹولی کی برداشت سے باہر ہو گیا اب سب کو اسلام کی رواداری حسن سلوک یاد آ رہا ہے، ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ سیاست کو اسلام سے الگ نہ کرو تاکہ ایسی حرکت کرنا تو درکنار کوئی اس کا سوچ بھی نہیں سکے گا کیوں کہ اسلام سب سے پہلے درس ہی رواداری برداشت باہم احترام کا دیتا ہے۔