بے ضمیر حکمرانوں کے ترقیاتی طعنے

333

میں نے کوئی بیس سال قبل ایک غیر معروف شاعر سے ایک جملہ کہا تھا جس کو اس نے بہت سنجیدگی سے لیا اور کہا یہ تو ایک نظم کا عنوان ہو سکتا ہے وہ جملہ یہ تھا۔ جب حکمران چپ تھا تو قوم ترقی کر رہی تھی اب حکمراں صرف بول رہا تو قوم اپنی منزل گم کرتی جا رہی ہے۔
ممکن ہے آج بھی کسی صاحب دل اور صاحب فہم کو یہ بات قابل توجہ محسوس ہو لیکن یہ خاکسار کے دل سے نکلے ہوئے وہ الفاظ تھے کہ جب میڈیا نیا نیا وجود میں آ رہا تھا اور قوم کے نام نہاد نجات دہندہ اپنا پورا زور اس بات پر صرف کر رہے تھے کہ بس وہی ہیں جو اس قوم کو ترقی کی معراج پر پہنچا سکتے ہیں کوئی پاکستان کو ایشائی ٹائیگر بنا رہا تھا تو کوئی کراچی اور لاہور کو پیرس بنا رہا تھا لیکن بیس سال کے تجربے نے ثابت کیا کے وہ سب ایک دھوکا اور سراب کے سوا کچھ نہ تھا۔ ان ظالم حکمرانوں نے قوم کے ساتھ جو بد ترین دھوکے بازی کی وہ یہ کہ اس قوم کو اور آنے والی نسلوں کو شعور اور آگاہی سے یکسر بے بہرہ کر دیا کیوں کہ ان سیاسی لٹیروں کو یہ بات ازبر کرا دی گئی تھی کہ جس دن یہ قوم شعور کی دولت سے مالا مال ہو گئی تمہاری ایک نہیں چلنے کی بلکہ وہ تمہاری بوٹیاں تک نوچ لے گی اس لیے ضروری ہے کہ ان کو ’’شعوری اور عقلی جاہل‘‘ رکھو اسی میں بقا ہے۔ جہاں میڈیا کی بے شمار خرابیاں گنوائی جا سکتی ہیں وہیں اس برائی کی کوکھ سے سچائی اور چشم کشاہ حقائق بلکہ حکمرانوں کے کرتوتوں سے قوم کو بہرہ مند ہونے کا موقع بھی ملا وگرنہ تو چند ہزار افراد ہی حکمرانوں کی بد عنوانیوں اقربا پروریوں لوٹ مار سے ہی آگاہ ہوتے تھے۔
اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ علم شعور اور آگاہی دیتا ہے اور جس سطح کا علم حاصل کیا جائے گا اسی سطح کا شعور انسان کے اندر پیدا ہونا نہ صرف لازمی ہے بلکہ فطری اعتبار سے لاشعور کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ہم نے گزشتہ کم و بیش چالیس سال میں جو سب سے خطرناک کام کیا ہے وہ ایک بے شعور، نا سمجھ، اچھائی برائی کے فرق سے نابلد نسل کو پروان چڑھایا ہے جس کے نظارے کشمیر تا کراچی جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں ایک وقت تھا جب انسان کو پروفیشنل تعلیم کا ادراک بھی نہ تھا مگر علم فہم و فراست عقل و دانش سے اس کو آراستہ و پیراستہ کیا جاتا تھا یہی وجہ تھی کہ اوسطاً مڈل پاس لوگ علامہ اقبال قائدِ اعظم محمد علی جناح مولانا مودودی اور دیگر اکابرین کی باتیں اچھی طرح سمجھ جاتے تھے جس کا بین ثبوت قیام پاکستان کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے لیکن اب تعلیم تو دی جا رہی ہے مگر شعور و بیداری کے بغیر یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پینتیس سال سے قوم پر مسلط حکمران اپنی تمام تر بد عنوانیوں کرپشن لوٹ کھسوٹ قومی خزانے پر بے دریغ ڈاکا زنی یہاں تک کے عدالتوں سے سزا پانے کے باوجود اس قوم کے یہی ہیرو ہیں یہی ان کے نجات دہندہ ہیں لیکن قوم ان کو مسترد کرنے کو کسی قیمت پر تیار نہیں ہے۔
قوم کو ٹیکسوں کے جال میں پھنسا کر اور کھربوں روپوں ٹیکس جمع کر کے چند ارب کے پروجیکٹ لگا کر سیاسی حکمراں یہ طعنے مارتے پھرتے ہیں کہ ہم نے موٹرویز بنائے، کہیں بجلی گھر بنائے کہیں پل اور کہیں زیر زمین گزرگاہیں بنائیں، کہیں اسکول کالج بنائے کہیں یونیورسٹیاں بنائیں، کہیں ہسپتالوں میں معیاری سہولتیں فراہم کیں اور کہیں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کی تو کہیں گیس کی ان ساری ترقی میں اگر مجموعی طور پر لاگت دیکھی جائے چند سو ارب کی زکوٰۃ سے زیادہ نہیں لیکن کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ ہزاروں ارب کے ٹیکسز اور قوم کے نام پر بیرونی ساہوکاروں جن کا کاروبار ہی قرضہ دینے پر چلتا ہے سے ہزاروں ارب کے قرضے حاصل کیے ان کا کوئی حساب قیام پاکستان سے لیکر آج تک کسی نے نہیں دیا بلکہ الٹا رونا یہ رویا جاتا ہے کہ اب ان قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے مزید سیکڑوں ارب روپے کے قرضے لینے پڑیں گے اس پر بھی قوم کے رونگٹے کھڑے نہیں ہوتے کہ جن کاموں کے لیے ہزاروں ارب روپے کے قرضے لیے تھے ان کو ان منصوبوں میں کیوں نہیں لگایا۔ قوم کو ترقی کا جھانسا دینے والوں سے کوئی یہ سوال کرنے والا نہیں کہ جن منصوبوں کی تکمیل اور اعلانات سے قوم کو بہلایا جا رہا ہے وہ تو خود اس قوم کی ہی دولت تو تھی اس میں سیاسی اور مطلق العنان حکمرانوں کی جیب سے کیا خرچ کیا گیا قوم کا پیسہ اور خون پسینے کی کمائی سے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق ترقیاتی کام کا بار بار ذکر کس بنیاد پر کیا جاتا ہے لیکن ان سے کوئی یہ پوچھنے والا نہیں۔ بجلی، پانی، گیس، پٹرول ٹیلی فون موبائل فون کے لوڈ بچے کے دودھ کی فیڈر سے لیکر بوڑھے نحیف کمزور بے آسرا اور جن کی کمائی کا کوئی ذریعہ نہ ہو ان کے کھانسی کے شربت سے لیکر زندگی بچانے والی ادویات پر کھربوں کے جو ٹیکس جمع کیے تھے وہ کہاں گئے۔
ایک لٹر پٹرول پر حکومت 35روپے کا ظالمانہ ٹیکس وصول کرتی ہے جب مثال یہ دی جاتی ہے کہ ریجن میں سب سے کم پٹرول کی قیمت پاکستان میں ہے ان عقل کے اندھے حکمرانوں کو یہ خبر بھی کوئی دے کہ جن ممالک کی وہ مثال دے رہے ہیں وہاں عوام کے لیے کتنی سستی سفری سہولت دی جا رہی ہے۔ ان کو اپنے اپنے شہروں میں بہترین سفری سہولتیں ارزاں ٹکٹوں پر دستیاب ہیں۔ ٹرین ہو یا بس پورے شہر کو مکمل طور پر اپنی وسعت میں لیے ہوئے ہوتی ہیں جاپان کی ایک مثال پیش کرنا بے موقع نہ ہوگا کہ ایک ٹرین کسی دور دراز کے علاقے میں جاتی تھی ریلوے حکام اس کو بند کرنا چاہتے تھے۔ ریلوے پر بوجھ ہے جب یہ بات حکام بالا تک پہنچی تو انہوں نے تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ ایک لڑکی اکیلی ہی اس ٹرین میں سفر کرتی ہے اور اپنے کالج یا اسکول جاتی ہے اس ٹرین کے سوا اس کو کوئی ٹرانسپورٹ دستیاب بھی نہیں
تو حکام نے فیصلہ کیا کہ جب تک اس لڑکی کے امتحان نہ ہو جائیں اس وقت تک ٹرین کی سروس بند نہ کی جائے۔ پھر یہ کہ بجٹ پیش کیا جاتا ہے اور ایسے کم ظرف اور شرم و حیا سے عاری وزیر خزانہ کسی ایک چیز پر قیمت کم کرنے کا کوئی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ہی قوم پر یہ احسان بھی جتانا اپنا فرض عین سمجھتا ہے کہ اس شے کی قیمت میں کمی سے قومی خزانے کو دو سو ارب یا تین سو ارب کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا اور فلاں منصوبے پر قومی خزانے سے دس ارب روپے خرچ ہوں گے یہ ایسے حکمران ہیں جو عوام ہی کو اس ملک کا بوجھ سمجھتے ہیں۔ جب بھی کوئی حکومت آتی ہے اس کا پہلا بیان یہی ہوتا ہے کہ حکومت سنبھالتے وقت قومی خزانہ خالی تھا۔ یعنی قوم کو ذہنی طور پر تیار کرنا ہوتا ہے قوم کے نام پر عالمی ساہوکاروں سے قرضہ لیا جا سکے۔ ستر سال سے وہی طریقہ اپنایا ہوا ہے۔ ہر با اثر ادارہ اپنا اپنا حصہ اپنی طاقت کے مطابق قومی بجٹ سے اچک لینا چاہتا ہے جس کی جتنی طاقت ہے وہ اتنی ہی رقوم قومی بجٹ یا قومی خزانے سے اچک لیتا ہے پھر چاہے قوم کے بچوں کے پاؤں میں جوتا نہ ہو مائیں سڑکوں پر بچوں کو جنم دیتی پھریں غربت کے مارے اپنے لخت جگروں کو بیچتے رہیں تعلیم کے نام پر این جی اوز کے ذریعے قوم کی بیٹیوں کو نچایا جاتا رہے علاج کے نام پر قوم کے ساتھ سنگین مضحکہ خیزی کی جاتی رہے اور ان کی تذلیل کا کوئی موقع نہ چھوڑا جائے، بیٹیوں کی شادی کے لیے جہیز اکھٹا کرتے کرتے باپ قبر کا مکین بنتا رہے، نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں اچھالتے پھریں پھر جوان بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنے اور چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے دو وقت کی روٹی کی خاطر یا بوڑھے ماں باپ کے لیے علاج معالجے کے لیے با عزت روزگار نہ ہونے کی وجہ سے وہ لوٹ مار اور ڈاکا زنی پر مجبورہوتا رہے، دہشت گرد مجبور و بے کس نوجوانوں کو استعمال کرتے رہیں، لیکن کوئی طاقتور اداراہ بجٹ پر ہاتھ صاف کرنے کے اپنے ’’حق‘‘ سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔
جس ملک کا بجٹ پیش ہونے سے پہلے ہی حصے بخرے کا شکار ہو جائے تو ترقیاتی کام اور قوم کا معیار زندگی بدلے کا خواب کیوں کہ شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
امید ہے کہ عقل و شعور سے نا بلد اور بے ظرف حکمراں آئندہ قوم کو ترقیاتی کاموں کا طعنہ نہیں دیں گے بلکہ جن حکمرانوں نے قومی خزانے کو لوٹا ہے وہ لوٹی ہوئی رقوم جن کا حجم کم و بیش پچیس ہزار ارب روپے بنتا ہے وہ قومی خزانے میں واپس لائیں گے سوئیس بینکوں میں مستند خبر کے مطابق پاکستانی اشرافیہ کے دو سو ارب ڈالر یعنی بیس ہزار ارب روپے پڑے ہوئے ہیں، ہماری لوٹی ہوئی دولت سے مغرب کس طرح اپنے ترقیاتی کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچا رہا ہے۔ تنخواہوں کا معاملہ ہو یا مجوعی طور پر معیار زندگی کو بہتر بنانا ہو وہ اسی لوٹی ہوئی رقوم مرہون منت جو پاکستان سمیت دیگر غریب اور کم ترقیاتی ممالک سے جن کو عرف عام میں تیسری دنیا کہا جاتا ہے کے نا اہل اور بدعنوان حکمرانوں کی لوٹی گئی ہے اسی لیے تو مغرب بشمول امریکا تیسری دنیا کے ممالک اور خاص طور پر مسلم ممالک میں کبھی ایماندار اور قوم کی خدمت سے سرشار لوگو ں کو حکومت کے قریب تک پھٹکنے نہیں دیتے اور دن رات اسی سازش میں مصروف رہتے ہیں کہ ان ممالک میں کس طرح کرپٹ حکمرانوں کو جگہ دی جائے جس کے لیے وہ انہیں پیسوں کا جو تیسری دنیا کے لٹیرے حکمرانوں نے مغرب کے بینکوں میں جمع کرائے ہوئے ہوتے ہیں کو میڈیا کو خریدنے این جی اوز کو پالنے مزید بد کردار اور بے شرم عناصر کو تلاش کرنے اور بد سے بد تر حکمراں کو حکومت دلانے کی سر توڑ کوششیں انہی پیسوں سے کی جاتی ہیں اس کام کے لیے وہ اپنی جیب سے پیسہ نہیں لگاتے بلکہ اسی پیسے کو وہ ہمارے خلاف استعمال کرتے ہیں تاکہ تیسری دنیا میں بد عنوان عناصر حکومت کرتے رہیں اور مغرب کے بینک ان کی لوٹی ہوئی رقوم سے بھرتے رہیں۔