نواز شریف کا انقلاب: پیالی میں طوفان

419

کہتے ہیں کہ گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ ن لیگ کے قائد محترم نواز شریف نے ایک ایسا اعلان بغاوت کیا ہے جس کو سر کی طرف سے دیکھیں تو انقلاب نظر آتا ہے پاؤں کی طرف سے دیکھیں تو بغاوت نظر آتی ہے یہ انقلاب و بغاوت کی ملاوٹ سے بننے والے محلول کو آخر کیا نام دیا جائے قبل ازین محترم نواز شریف تحریک عدل بھی چلا چکے ہیں جس کی لمبائی چوڑائی چند جلسوں سے زیادہ نہ تھی اس میں نہ عدل نظر آیا نہ تحریک اسی طرح اب جلد بازی میں ایک اور ملغوبے کا اعلان کر دیا ہے کچھ روز پہلے تک نواز شریف خود کو نظریاتی کہلوانے کے شوق میں انقلاب کی باتیں کرنے لگے اس میں بھی نہ انقلاب نظر آیا نہ نظریہ اب نیند سے جاگے ہیں تو انقلاب اور بغاوت دونوں کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی ٹھان لی شاید ابھی تک نواز شریف صاحب انقلاب، بغاوت، نظریہ، تحریک اور عدل میں سے کسی ایک کا بھی انتخاب نہیں کر سکے کہ آخر انہیں کرنا کیا ہے کیوں کہ ان ساری چیزوں میں جو چیز مشترک ہے وہ ہے عوامی بیداری اور جس چیز کے خلا ف محمد نواز شریف اعلان انقلاب و بغاوت کر رہے ہیں وہ عوامی بیداری ہی ہے اور جن قوتوں نے عوامی بیداری سے نجات حاصل کرنے کے لیے نواز شریف جیسے سیاست دانوں کی سیاست میں انٹری کر وائی ہے وہ اسی عوامی بیداری سے خائف رہتی ہیں انہوں نے ماضی کی عوامی بیداری کو عوامی خوابی میں تبدیل کرنے کہ بہت جتن کیے ہیں اور ستر سال اسی دشت کی سیاہی میں لگا دیے ہیں لیکن نہ جانے کیوں اسی گملے کے ایک پودے نے اسی نظام سے بغاوت کا اعلان کر دیا ہے جس کے وہ خود پرتو رہے ہیں۔
ویسے تو نواز شریف صاحب عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ پر کافی عرصے سے اعتراضات کرتے آئے ہیں مگر ان میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اس کی وجہ قوم کے سامنے بھی رکھ دیں چار سال میں ایک یا دو بار ہی محترم نواز شریف نے قوم سے خطاب کیا ہو ہمیں تو بس وہی خطاب یاد ہے جب پاناما میں پکڑے جانے کے بعد قوم کو ’’اعتماد‘‘ میں لینے کے لیے پہلے قومی اسمبلی میں خطاب کیا اور پھر قومی سطح پر میڈیا کے ذریعے ٹی وی کی اسکرین پر نمودار ہوئے اور وہ بھی عدالت میں ثابت ہو گیا کہ جو کچھ قوم سے کہا گیا تھا سب جھوٹ تھا۔ ایک قطری خط بھی قوم کے سامنے پیش کیا گیا وہ بھی جھوٹ ثابت ہو گیا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو ایک انتہائی کم سطح کی سزا دے دی گئی ان کو وزارت عظمیٰ سے سبک دوش کر دیا گیا وہ بھی اس بنا پر کہ ان کا جھوٹ ثابت ہو چکا تھا۔اتنے بڑے منصب پر براجمان ہونے والے کے جھوٹ کا پیمانہ اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ وہ اس حقیقت کو بھی ظاہر کرے جو بتانی لازمی ہو چاہے کوئی پوچھے یا نہ پوچھے۔ دوسرے یہ کہ اس منصب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سچ کو چھپانا بھی جھوٹ کے مترادف ہوتا ہے اور یہی جھوٹ میاں صاحب پر ثابت ہو گیا جس کی پاداشت میں موصوف کو گھر بھیج دیا گیا۔
جن باتوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ان کے تمغے کسی ایسے شخص کے سینے پر نہیں سجائے جا سکتے جو ان کے معنی و مطالب سے بھی بے بہرہ ہو یہ انقلاب، یہ نظریات، یہ تحاریک، یہ عدل و انصاف اس کے لیے پہلے تو کسی بھی شخص کو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا چاہیے تاریخ کا عمیق مطالعہ ہونا چاہیے تحاریک عالم سے خواندہ ہونا چاہیے، عدل و انصاف کے دنیاوی و سماوی علوم سے کچھ نہ کچھ اس کا لاحقہ ہونا چاہیے سب سے بڑھ کر یہ کہ جو شخص انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے پہلے اس کو خود انقلابی ہونا چاہیے۔ انقلابی سوچ ہونی چاہیے انقلابی حرکات و سکنات ہونی چاہیے، اس کے کچھ نظریات ہونے چاہئیں۔ جب یہ ساری بھاری بھرکم چیزیں جن کا بوجھ اٹھانا ہر کسی کے بس کا روگ نہ ہو یک دم کسی ایک شخصیت میں عود کر آجائیں تو معاملہ خود بخود مشکوک ہو جاتا ہے اور دیدہ بینا رکھنے والے دور اندیشی کی صفت کے پش نظر دیکھ لیتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں ہے یہ سب وقتی باتوں کے سوا کچھ نہیں، کیوں کہ ان سب چیزوں کی بنیاد میں علم و حکمت شعلہ بیانی نظریات کی پختگی اور بہت زیادہ حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے جو میاں صاحب کی شخصیت میں سرے سے موجود ہی نہیں نہ تو محترم تاریخ سے کما حقہ واقفیت رکھتے ہیں نہ ہی کوئی واضح نظریہ نظر آتا ہے یہ انہوں نے اس سے قبل عدل کا صحیح مفہوم سمجھنے کا کوئی ثبوت پیش کیا ہے نا ہی کسی تحریک کے چلانے کا انکا کوئی ماضی قریب و بعید میں کوئی تجربہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ قبل ازیں ان کا فلسفہ بھی سامنے آ چکا ہے کہ اگر ایک منتخب رکن پارلیمنٹ کوئی جرم کرتا ہے تو اس پر مقدمہ اور سزا اس لیے نہیں ہو سکتی کہ وہ ایک منتخب شخص ہے اور اس کو لاکھوں لوگوں نے ووٹ دیا ہے کوئی ان کو یہ سمجھائے کہ بھائی صاحب جرم کی سزا تو مل کر رہتی ہے اور جرم اور ووٹ کا حصول ایک پلڑے میں نہیں ڈالے جا سکتے جرم جرم ہے ووٹ ووٹ ہے دونوں کے معنی و مطالب الگ الگ ہیں کیا تاریخ میں صاحبان اقتدار اور صاحبان منصب کو سزائیں نہیں ہوئیں وہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ہم تو منتخب کردہ ہیں ہم کو سزا کاہے کو دی جا رہی ہے۔ ایسا بوگس نظریہ نہ تو پہلے کبھی ملکی، قومی، عوامی اور حکومتی اور عدالتی سطح پر قابل قبول ہوا اور نہ آئندہ ہو سکتا ہے۔