شیخ احمد یاسین۔۔۔ عظیم قائد

469

۔22 مارچ 2004ء یہودیوں نے عظیم مجاہد ولی اللہ اور فلسطینی تحریک آزادی ’’حماس‘‘ کے روحانی راہ نما شیخ احمد یاسین کو اس وقت شہید کردیا جب وہ غزہ میں نماز فجر پڑھ کر مسجد سے باہر آرہے تھے۔ شیخ یاسین وہیل چیئر پر تھے وہ مسجد سے باہر نکلے ہی تھے کہ 16 اسرائیلی ہیلی کاپٹروں نے ان پر میزائل سے حملہ کردیا اس حملے میں ان کے دو بیٹے اور دو محافظ سمیت دس افراد شہید ہوئے۔ ذرا سوچیے وہیل چیئر پر بیٹھا ایک کمزور اور بوڑھا آدمی کتنا طاقت ور ہوسکتا ہے؟ پھر ایسا بوڑھا کہ جس کی آنکھیں بھی کمزور ہوں، جسم فالج زدہ ہو، کتنا طاقت ور ہوسکتا ہے؟؟۔ احمد یاسین کی طاقت کا اندازہ کسی کو ہو نہ ہو اسرائیلیوں کو بخوبی تھا۔ لہٰذا انہیں شہید کردیا گیا۔ یہی وہ وہیل چیئر پر بیٹھا بوڑھا اور کمزور شخص تھا جس نے اہل غزہ کو اسرائیل کے لیے لوہے کا چنا بنادیا۔ وہ غزہ جس پر 1967ء میں اسرائیل نے صرف چھ دن میں قبضہ کرلیا تھا۔ جب کہ غزہ کو عرب ممالک کی مدد و اعانت بھی حاصل تھی۔ لیکن وہ غزہ تن تنہا آج تک اسرائیل کی وحشیانہ طاقت کے سامنے سینہ سپر ہے اور سرخرو ہے۔ شیخ یاسین پر 22 مارچ 2004ء سے قبل بھی قاتلانہ حملے کیے گئے ایسے ہی ایک حملے کے بعد شیخ یاسین نے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ہم نہ موت سے ڈرتے ہیں نہ کسی کے سامنے جھکتے ہیں، ہمارے سامنے بس ایک ہی راستہ ہے عزت کی موت! جب اپنا قومی وجود خطرے میں ہو تو ہر مرد، عورت، بچے اور بوڑھے پر مزاحمت لازم ہوجاتی ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ظلم ہوتا رہے تو ہم کسی دوسرے سیارے کی مخلوق بن کر چپ چاپ اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں‘‘۔ یہ فارمولا آج ہر مسلم ملک کے شہری کے لیے ہے، ظلم کے خلاف اگر نہ اُٹھے تو خود ظلم کا شکار بنادیے جاؤ گے۔
شیخ یاسین کی شہادت پر اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون نے قاتل یہودیوں کو مبارک باد دی۔ یقین مانیں اگر ایسی حرکت کوئی مسلمان کرتا تو سارے مغرب کے حکمران اور ان کے کٹھ پتلی مسلم دنیا کے حکمران یک زبان ہو کر دہشت گردی کے فتوے دینا شروع کردیتے، ساتھ ہر طرح کے مہلک ہتھیاروں کے ساتھ حملہ آور ہوجاتے۔ لیکن اس کھلی دہشت گردی پر مغرب نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی، کسی نے زبانی کلامی مذمت تک نہ کی۔ لیکن شہید کے خون کے ایک ایک قطرے سے ہزاروں مجاہد جنم لیتے ہیں۔ اسرائیل اور شیرون نہ حماس کو ختم کرسکا نہ احمد یاسین کو۔ شیخ احمد یاسین زندہ و جاوید ہیں اور رہیں گے۔ اسرائیل نے غزہ میں ہزاروں بے گناہوں کو قتل کیا، معذور بنایا، معصوم بچوں کو ساحل پر فٹ بال کھیلتے ہوئے نشانہ بنایا، اسکولوں، ہسپتالوں پر بمباری کی اور آج اس کے سرپرستوں نے شام کو مشق ستم بنایا ہوا ہے۔ روز معصوم بچوں کی لاشیں میڈیا دکھاتا ہے، شہروں کے شہر کھنڈر بنادیے گئے ہیں لیکن یہ دہشت گردی نہیں ہے کیوں کہ دہشت گردی کی اصطلاح بنانے والوں نے اسے ہر صورت مسلمانوں کے لیے ہی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔
شیخ احمد یاسین شہید اپنے بچپن میں اپنی والدہ سے پوچھا کرتے تھے کہ ہمیں ہمارے گھروں سے کیوں نکالا گیا؟؟ یہ یہودی ہمارے گھروں کو آگ کیوں لگاتے ہیں؟؟ یہ یہودی کون ہیں؟ اور اس قدر ظلم کیوں کرتے ہیں؟؟ ان کی والدہ قرآن حدیث کا حوالہ دے کر انہیں یہودیوں کی اصلیت بتاتی تھیں۔ کہ یہ اللہ کی مبغوض قوم ہے اور یہ اللہ کی مبغوض قوم اپنی ظلم و نافرمانیوں کے باعث ہے۔ کہنے کو شیخ احمد یاسین ایک معذور شخص تھے جو اپنی مرضی سے دو قدم بھی نہ چل سکتا تھا لیکن وہ کیا شے تھی جس کی بنا پر اسرائیل ان سے تھر تھر کانپتا تھا انہیں اپنا دشمن نمبر ایک قرار دیتا تھا۔ یہ قوت یہ طاقت ایمان کی طاقت تھی، قوت ایمانی اور اللہ پر انحصار نے انہیں ایک ایسا کوہ گراں بنادیا تھا کہ ان سے ٹکرانے والی ہر قوت پاش پاش ہوجاتی تھی۔ شیخ یاسین نے فلسطینی قوم کو اسلام سے محبت اور رجوع الی اللہ کا راستہ دکھایا، یہ احساس پیدا کیا کہ ہر قسم کی مشکلات، پس مانندگی، غلامی اور دشمن کے ظلم سے نجات کا واحد راستہ اسلام کا سیاسی انقلاب ہے۔ انہوں نے نوجوان نسل کو عظمت رفتہ کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا، جہاد کا راستہ دکھایا اور اس کانٹوں بھرے راستے پر چلنے کا سلیقہ سکھایا پھر اس راستے پر خود چل کر دکھایا اور جام شہادت نوش کیا۔ یہ بات دنیا بھر کے انقلابیوں کے لیے انتہائی حیرت انگیز ہے کہ ایک ایسا معذور شخص جو اپنے جسم کو جنبش دینے کی قدرت نہیں رکھتا تھا ایک قوم اور ملت کو حرکت میں لے آتا ہے۔
اقبال نے برسوں پہلے ایسے ہی درویش خود آگاہ عظیم قائد اور مرد مجاہد کے بارے میں کہا تھا ؂

تونے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے