میاں صاحب: مجھے کیوں نکالا پر معافی کب مانگیں گے؟

364

ابھی ہمارے کالم نواز شریف کا انقلاب۔ چائے کی پیالی میں طوفان کی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ میاں صاحب نے عمران خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جن کو وہ اور ان کی دختر نیک اختر عدالتی لاڈلہ کہتے رہتے ہیں کی طرح بڑا سا U ٹرن لے لیا اور اپنی اس ’’غلطی‘‘ کو تسلیم کیا کہ جب وہ حسین حقانی والے میمو گیٹ کیس میں عدالت عظمیٰ کے گیٹ سے کالا کوٹ پہن کر گزرے تھے اور اب جب میاں صاحب عدالت عظمیٰ جاتے ہوں گے تو یہی گاتے ہوں گے کہ یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے، فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے کالا کوٹ پہن کر عدالت گئے تھے اب عوامی لبادے میں جاتے ہیں۔ ویسے تو میمو گیٹ ہو یا ڈان لیکس یا پھر پاناما گیٹ سب ہی نے ملک کی جڑیں ہلادی تھیں مگر ہر گیٹ کو مختلف زاویے سے دیکھنے کا رجحان ابھی تک باقی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ قوم اپنی منزل سے دور کوسوں دور ہوتی چلی جا رہی ہے، اگر میاں صاحب واقعی یہ سمجھتے تھے کہ میمو گیٹ ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے تو شاید انہوں نے درست ہی اقدام اٹھایا ہوگا کہ عدالت کے حضور بنفسِ نفیس پیش ہوگئے کم و بیش پانچ سال تک یہی بیانیہ دیتے رہے کبھی یوسف رضا گیلانی کو کہتے تھے کہ قانون کا احترام کریں اور اپنی سیٹ سے نیچے اتریں گھر جائیں مگر جب عدالت نے ان کو وزارت عظمیٰ سے سبک دوش کردیا تو بیانیہ تبدیل ہو گیا کہ مجھے کیوں نکالا۔ ملک کے طول و عرض میں یہی بیانیہ جاری ہوتا رہا ساری قوم کہہ رہی ہے کہ اسے معلوم ہے کہ آپ جناب کو کیوں نکالا یہاں تک کہ یہ زبان زدِ عام ہو گیا پھر بھی گردان جاری رہی ، بقول شاعر جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔
جب میاں صاحب مشکل میں تھے تو لوگ پیپلز پارٹی کو کہتے تھے کہ حکومت گرانے میں اپنا کردار ادا کرے لیکن خوشید شاہ صاحب یہی کہتے
رہے کہ ہم میاں صاحب کو نہیں بچا رہے بلکہ ہم جمہوریت کو بچا رہے ہیں اور یہی ایک سیاسی کارکن کی سوچ کی پختگی ہوتی ہے کہ وہ اپنے بیانیے پر قائم رہے اور وہ رہے، حالاں کہ ان کے پاس بہت کچھ تھا کہ جس کا وہ بدلہ لے سکتے تھے قبل ازیں پیپلز پارٹی کے دور میں یہی کچھ لوگ میاں صاحب کو بھی کہتے رہے مگر ان میں سیاسی بصیرت کی کمی تھی اس لیے وہ کوئی ٹھوس بیانیہ دینے میں ناکام رہے اور دوستانہ اختلاف کی بھپتی بھی سہتے رہے۔ آصف زرداری صاحب نے تو ایک دفعہ اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیان پر اپنی گشتیاں تک جلا ڈالی تھیں لیکن چوں کہ پیپلز پارٹی کی سیاسی بصیرت ن لیگ سے کہیں زیادہ ہے کوئی مانے یا نہ مانے سیاسی فیصلے کرنے میں پیپلز پارٹی کو ملکہ حاصل ہے۔ اب میاں صاحب کو کسی نے مشورہ دیا کہ میمو گیٹ کھلنے والا ہے اگر پھر اس گیٹ سے نکلنے کی کوشش کی تو اس میں لگے خطرے کے الارم بج سکتے ہیں اور پیپلز پارٹی پنجاب میں آپ کو مشکل میں ڈال سکتی ہے کیوں کہ زرداری صاحب نے اپنا مستقل مسکن
لاہور کو بنایا ہوا ہے اور وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں لہٰذا بہتر ہوگا کہ میمو گیٹ میں داخل ہونے کے بجائے راستے سے ہی واپس ہو لیں جس پر میاں صاحب نے عمل درامد کرنا شروع کر دیا ہے اور پہلے قدم کے طور پر پیپلز پارٹی سے معافی کے خواست گار بن کر سامنے آئے۔ یہ ایک بڑی دلچسپ صورت حال ہے حسین حقانی اس وقت دونوں کی ناک کا بال بنے ہوئے ہیں وہ تو پہلے بھی وکٹ کے دونوں طرف کھیل چکے ہیں اور جان چکے ہیں کہ کس میں کتنا ہے دم ! اگر میاں صاحب جنرل جیلانی کی کیاری کا پودا ہیں تو حسین حقانی میاں صاحب کی کیاری کا۔ اگرچہ کہ پیپلز پارٹی حسین حقانی سے ایک طرح کی لا تعلقی کا اظہار کر چکی ہے مگر میاں صاحب کی معافی چغلی کھا رہی ہے کہ ایسا نہیں ہے وہ اب بھی زرداری صاحب کی پسندیدہ کتاب کا حصہ ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں کہ لوگ منتظر ہیں کہ میاں صاحب ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ پر معافی کب مانگتے ہیں شاید یہ جملہ اتنا قابل اعتراض تو نہ ہو لیکن اس جملے کی تشریح میں جس طرح میاں صاحب نے عدالت کے فاضل جج صاحبان پر دشنام طرازی اور ان کی عزت کی پامالی یہ کہہ کر کی کہ انہیں بیس کروڑ عوام نے منتخب کیا ہے تو یہ پانچ لوگ کون ہوتے ہیں مجھے وزارت عظمیٰ سے نکالنے والے اب پھر وہ بڑا سا U ٹرن لینے پر مجبور ہیں کہ اور پھر ایک اور بیانیہ سامنے آگیا کہ ووٹ کو عزت دو پہلے آپ ووٹر کو عزت دیں پھر ووٹ کو عزت دو کی بات کریں۔ اسی دوران میں شاہد خاقان عباسی خود چل کر چیف جسٹس صاحب کی دہلیز پر پہنچ گئے۔ گمان غالب اور سیاسی بصیرت رکھنے والے یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ میاں صاحب اور ان کی دختر نیک اختر کی جانب سے عدالتوں پر جو دشنام طرازیاں کی گئی ہیں پر معذرت کرنے گئے تھے، کیوں کہ 10 اپریل 2018 کی تاریخ ن لیگ کے لیے عام طور پر اور شریف خاندان کے لیے خاص طور پر سوہان روح ثابت ہو سکتی ہے۔ملک کے دو اعلیٰ ترین اداروں کے سربراہوں کی دو گھنٹے کی ملاقات کوئی معمولی بات نہیں۔ اگر یہ مفروضہ مان لیا جائے کہ اس ملاقات میں میاں صاحب کے لیے کو محفوظ راستے کی بات کی گئی ہے تو وہ غیر اعلانیہ ہو تاکہ عزت سادات بھی بچی رہے اور میاں صاحب کی بچی بھی بچی رہے۔ اب آیئے میاں صاحب کی بصیرت پر بلکہ قربان جائیے میاں صاحب کی بصیرت پر کہ کل تک جو کام ملک کی سلامتی کے خلاف تھا وہ زرداری سے معافی کی درخواست کرنے سے ملک کے مفاد میں کیسے ہو گیا، ابھی پیپلز پارٹی کے کاندھوں پر اس کا بوجھ ہے کہ وہ یہ بتائے کہ میاں صاحب میمو گیٹ پر معافی کے طالب کیوں ہوئے۔ اگر میمو گیٹ دوبارہ کھل گیا تو ن لیگ کا اس بارے میں کیا لائحہ عمل ہوگا؟ اگر پیپلز پارٹی نے اس معافی نامے پر جواب دینے میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا تو وہ بھی اسی صورت حال کا شکار ہو سکتی ہے۔ ویسے تو ایک معافی نامے اور دو گھنٹے کی ایک ملاقات نے میاں صاحب کے اب تک کے پھلائے ہوئے سارے غباروں سے ہوا نکال دی ہے اور یہ سارے محل ریت کے گھروندے ثابت ہوئے جو ایک ہی لہر میں ملیا میٹ ہو گئے۔