دوسری سرد جنگ کا ملبہ بھی کیا مسلم امہ پر ڈالا جائیگا ؟

490

مسلمان کا ایمان ہے کہ کفر کی چالوں میں دم نہیں ہوتا اور وہ اپنی موت آپ مرجاتی ہیں۔ اللہ رب العزت نے سورہ انفال آیت 30 میں مسلمانوں کو خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ: ’’وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘۔ دنیا کی دوسو سال کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو قرآن کریم کی اس آیت پر سو فی صد یقین ہوجاتا ہے اور مسلمانوں کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام کے بعد پہلا نشانہ جو مغرب نے بنایا وہ ایک عظیم ترک سلطنت تھی، خلافت ترکستان کے پرچم تلے عالم اسلام متحد تھا اور اسی کی مرکزیت قائم تھی ترک حکمرانوں نے جس عزم و ہمت اور غیرت و حمیت اور جذبہ حریت کے ساتھ مغرب کے پہلو میں بیٹھ کر امت کی رہنمائی کی اور جس جواں مردی اور حوصلے کے ساتھ امت کے اتحاد کو پارہ پارہ ہونے سے بچایا وہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ موجود رہیں گے۔ ترکوں نے نہ صرف عزت و وقار کے ساتھ حکمرانی کا نمونہ پیش کیا بلکہ شریعت کی بلادستی اور ناموس رسالت کے تحفظ کا بھی اتنا ہی اہتمام کیا جب فرانس میں ناموس رسالت پر رکیک حملے کرنے والے اسٹیج ڈراموں کا سلسلہ شروع ہوا تو سلطان حمید الدین نے فرانس کو پہلے متنبہ کیا کہ وہ ایسے ڈراموں کو فی الفور بند کرے لیکن جب فرانسیسی حکمرانوں نے سلطان حمید الدین کے احتجاج کو درخور اعتنا نہ جانا تو فرانس کے سفیر کو اپنے محل میں بلا کر واشگاف الفاظ میں تنبیہ کی کہ اگر ایک ہفتے کے اندر یہ ڈرامے بازی بند نہ کی گئی تو ترک فوج فرانس پر حملہ کر دے گی اس دھمکی نے اپنا کام کر دکھایا اور فرانس ناموس رسالت کے معاملے میں گھٹنے ٹیکنے پر تیار ہوگیا بارہویں صدی کے آغاز سے تیرہویں صدی کے اختتام تک جاری رہنے والی کم و بیش نو (۹) صلیبی جنگوں میں مسلسل اور پے در پے شکستوں نے مغرب کو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑا۔ مغرب نے ایک چال کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود ہی صلیبی جنگوں کا آغاز کر دیا تھا اور جس کی بنیاد بیت المقدس کی آزادی قرار دیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے کافروں کی چال الٹی انہیں پر مار دی اور صلیبی جنگوں کے بطن سے ایک ایسا عظیم سپہ مسلمان سالار پیدا ہوا جس کے نام سے آج بھی مغرب کانپنے لگتا ہے اور وہ ہے سلطان صلاح الدین ایوبی۔ دو سو سال سے زاید جاری رہنے والی صلیبی جنگوں میں کوئی مغربی سپہ سالار آج تاریخ میں کہیں موجود نہیں اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا مقابلہ تو دور کی بات اس کے نام کے ساتھ کوئی مغربی سپہ سالار اپنا نام تک لکھوانے میں ناکام رہا جب کہ کم و بیش سات سو سال بعد بھی سلطان صلاح الدین ایوبی کا ذکر تاریخ میں شگفتہ اور تر وتازہ پھول کی مانند موجود ہے اور وہ ہر دور میں مسلم سپہ سالاروں کا آئیڈیل اور رول ماڈل رہا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد مغرب اگرچہ کہ ترک خلافت کے محل کو مسمار کر کے مصطفی کمال کی صورت میں اپنا ایک بے دین سیکولر مہرہ بٹھانے پر کامیاب ہو گیا مگر مغرب کو کیا معلوم تھا کہ ترکوں کے دل میں اسلام کی چنگاری ہمیشہ سلگتی رہی تھی اور صرف ستر سال کے مختصر عرصے میں ترک قوم ایک اسلامی طرز حکومت کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہو گئی لیکن مغرب پھر بھی باز نہ آیا اور فتح اللہ گولن کے ذریعے ترکی کو پھر کسی مصطفی کمال کے سپرد کرنے کی سازش کرنے لگا جس کو ترک قوم نے بڑی ہمت جانبازی جواں مردی کے ساتھ ناکام بنا دیا۔ لہٰذا مغرب کو اپنی اس روایت کو برقرار رکھنے کے لیے ایک اور عالمی جنگ کا سہارا لینا پڑا جس کے بعد وہ عرب کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہو گیا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد عرب کا نقشہ اپنے مفادات کے تحت ترتیب دینے میں کامیاب ہو گیا، لیکن یہاں بھی اللہ کے فرمان کے عین مطابق مغرب کی چال اکارت گئی اور جس دوسری جنگ عظیم کی آڑ میں اس امریکا اور اس کے اتحادیوں نے روس کے ساتھ پہلے سرد جنگ کا آغاز یعنی 1947 میں کیا تھا جو کم و بیش 45 سال تک جاری رہی اسی سال عالم اسلام کی عظیم سلطنت پاکستان معرض وجود میں آ گئی اور مغرب پھر مسلمانوں کی صلاحیتوں کا اندازہ لگانے میں بری طرح ناکام رہا ایک ایسی عظیم سلطنت جو دیکھتے ہی دیکھتے عالم اسلام کی آنکھ کا تارا بننے کے ساتھ ہی ایٹمی طاقت بن کر دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کے طور پر مغرب اور اس کے حواری بھارت کے سینے پر مونگ دلنے کو تیار ہو گئی اور سارا عالم اسلام ایٹمی پاکستان کی پشت پر کھڑا ہو گیا یہ تھا وہ مختصر تاریخی حوالہ جو مغرب کو کبھی ہضم نہ ہوگا چاہے وہ اپنی انگلیاں ہی کیوں نہ چبا ڈالے یہ تھا وہ تاریخی بغض جو امریکا نے اپنی ہی دو انگلیاں چبا کر نائن
الیون کا ڈراما رچایا جس کو مسلمان تو کجا بعض عیسائی مورخ اور صحافی و دانشور قبول کرنے کو تیار نہیں ابھی تک کسی مسلمان نے اس پر کتاب نہیں لکھی مگر عیسائیوں کی متعدد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور مغرب کی جلد بازی اس کی عیاری کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے جارج ڈبلیو بش نے نائن الیون کے ڈرامے کے بعد اور افغانستان پر اپنے حواریوں کے ساتھ چڑھائی کرتے ہی اعلان کردیا تھا کہ اب صلیبی جنگ شروع ہو چکی ہے یعنی وہ مسلمانوں سے آٹھ سو سال قبل کی شکست کا بدلہ لینے کے موڈ میں نظر آیا جبکہ روس کو افغانستان میں تاریخ کی بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور جس کے نتیجے میں روس کا شیرازہ بکھر گیا تھا جس طرح پہلے مسلمانوں کے درمیان خلفشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صلیبی جنگوں کا آغاز کی گیا تھا اب مسلمان کو مسلمان سے دور کر کے پچاس سالہ پالیسی کے بعد مسلم ممالک کو یکے بعد دیگرے نشانہ بنایا جا رہا ہے اب چوں کہ مسلم امہ میں عوامی سطح پر بیداری کی لہر دوڑ چکی ہے اور عوام اپنے بے ضمیر حکمرانوں کی پروا کیے بغیر امریکا اور اس کے اتحادیوں سے نبرد آزما ہیں تو یہ صورت حال بھی مغرب کے لیے تشویش کا باعث ہے اسی لیے اس نے اپنی سازشی گاڑی کا رخ ایک بار پھر سرد جنگ کی طرف موڑ دیا ہے کہ چند سال کی سرد جنگ کا ڈراما رچایا جائے گا اس دوران مسلمان یہ دیکھ کر خوش ہو جائیں گے کہ چلو مغرب کے تیروں کا رخ روس کی طرف ہو گیا ہے لیکن یہ بھی ایک غلط فہمی سے زیادہ نہ ہوگی کیوں کہ دو جنگ عظیم کے بعد کے نتائج مسلم امہ کو ہی بھگتنے پڑے تھے اور ایک سرد جنگ کے اختتام کے بعد بھی مسلم امہ کو بے پناہ جانی و مالی نقصانات اٹھانا پڑے افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور دیگر مسلم ممالک میں گزشتہ پندرہ سال میں کم و بیش 15 لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا مگر تف ہے مسلم حکمرانوں پر جو ابھی تک مغربی اصطلاح دہشت گردی کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں اور مغرب کا کھل کر مقابلہ کرنے کا ان کے یہاں کوئی تصور موجود نہیں جب کہ مسلم امہ کا ہر جوان مرد و زن مغرب کا مقابلہ کرنے کو ہمہ وقت تیار ہے کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ مغرب کا لفظ دہشت گردی کا مطلب اسلام ہے کیوں کہ صرف مسلم ممالک ہی میں یہ راگ گایا جاتا ہے کیا اس کا واضح مطلب یہ نہیں کہ دہشت گرد صرف مسلم ممالک میں پیدا ہوتے ہیں اسی لیے ایک انتہائی معمولی واقعے جس کی کوئی توجیہ مغرب پیش نہیں کر رہا کہ ایک سابق روسی جاسوس سر گئی اسکرپل کو روس کی جانب سے زہر دینے کی کوشش کی گئی جس سے اس کی حالت غیر ہو گئی ابھی تو پولیس اپنی رپورٹ بھی پوری طرح تیار کرکے برطانیہ کی حکومت کو پیش نہیں کر سکی کہ تھریسامے نے اعلان کر دیا کہ روس کے تئیس سفارت کار ملک چھوڑ دیں جس کے جواب میں روس نے بھی ایسا ہی کیا اور پھر سلسلہ چل نکلا روس نے سب سے زیادہ ساٹھ سفارت کار تو صرف امریکا ہی نکال دیے اب پورا مغرب یہی کچھ کیے جا رہا ہے بات وہیں پر آجاتی ہے کہ اتنے معمولی غیر اہم اور بے وقعت واقعے کو اتنا طول اتنی جلد بازی میں کیوں دیا جا رہا
ہے شایدیہ صورت حال مغرب کے لیے ناقابل برداشت ہو چکی ہے اور وہ دن رات سارے کام کاج چھوڑ کے صرف اور صرف پاکستان کو نیست و نابود کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے مگر مغرب کو یہ نہیں معلوم کہ اللہ اپنے دین کو تا قیامت قائم رکھے گا۔ اگر امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کو روس کے ساتھ دوسری سرد جنگ کا آغاز ہی کرنا تھا تو اس کے لیے شام کی خانہ جنگی کی بنیاد پر کر سکتا تھا جس کا کوئی جواز بھی نظر آتا مگر یہ کیا کہ ایک ایسے بھونڈے طریقے سے سرد جنگ کا آغاز کر دیا گیا۔ پہلی دوسری جنگ عظیم ہو یا پہلی دوسری سرد جنگ ہو یا نائن الیون کا واقعہ یہ سب اگرچہ کہ عیسائی دنیا میں ہوتا ہے مگر ان سب کے بھیانک نتائج مسلمانوں ہی کو کیوں بھگتنے پڑتے ہیں۔ ترکی سے خلافت کا خاتمہ عرب سرزمین کی وحدانیت کو پارہ پارہ کرنا اور اس کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں من پسند شیوخ کے حوالے کرنا عرب و عجم کے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کی پالیسیاں مسلم اکابرین اور علمائے کرام کو تخت دار پر لٹکانا افغانستان، عراق، شام، لیبیا جیسے امیر مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا اور مسلمانوں کی اقتصادیات کو تباہ کرنا پھر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنانا دنیا بھر میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہیں ہو رہا تو کیا یوں ہی اتفاقی گولیاں چل رہی ہیں جن سے صرف مسلمان ہی شہید ہو رہے ہیں۔ عیسائی دنیا صلیبی جنگوں کی دو سو سال تک ہزیمت اٹھانے کے بعد متحد ہو چکی ہے اور اب وہ مسلمانوں سے گن گن کر بدلہ لے رہی ہے جس کا دورانیہ بھی دو سو سال سے کم نہ ہوگا۔