پی ایس ایل اور قومی اتحاد 

347

کھیل میں سیاست اور سیاست میں کھیل، یہ ایک پرانا مقولہ ہے لیکن کیا بات ہے کہ یہ مقولہ ہر دور میں اپنا اثبات ثابت کرتا رہتا ہے۔ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ بحال ہوگئی اور کرکٹ میدان سے زیادہ میڈیا ہاؤسز میں کھیلی جاتی ہے ایسا لگتا تھا کہ بس ابھی کوئی اینکر یا رپورٹر یا کوئی صنف نازک کھلاڑیوں کی ٹی شرٹ پہن کر اسکرین سے باہر اب نکلی کہ تب نکلی، ایسی دیوانگی کبھی بھی کسی قومی معاملے پر میڈیا پر نظر نہیں آتی جتنی کہ کرکٹ کے بخار میں مبتلا میڈیا ہاؤسز میں نظر آتی ہے۔
کچھ دن قبل ہی یوم پاکستان منایا گیا تھا جو منانا نہ منانا برابر ہی لگ رہا تھا کوئی جوش و ولولہ، کوئی قومی غیرت و حمیت کی بات، کوئی قوم کو یکجا کرنے کا سبق، نہ نسل نو کے لیے 23 مارچ کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی سبق آموز پروگرام سرکاری ٹی وی پر بھی نظر نہیں آیا! کیا قوموں کو اپنی بقا اور اپنی نشاۃ ثانیہ کی طرف گامزن ہونے کے یہی طور طریقے ہوتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کو ان کے اکابرین کے کارناموں ہی سے روشناس نہ کرایا جائے، تاریخی کام ان کے گوش گزار نہ کرائے جائیں۔ یہ تک نہ بتایا جائے کہ جس ملک میں انہوں نے جنم لیا ہے اس کو کس طرح معرض وجود میں لایا گیا اور کون کون سے عوامل کارفرما تھے؟ ہمارے قائدین نے کتنی جدو جہد کے بعد یہ وطن آزاد کرایا تھا جس کے اسکولوں میں وہ پڑھ رہے ہیں لیکن ان کی کتابوں سے ہی ان اکابرین کو غیر حاضر کر دیا گیا ہے یہ کھیل تو ایک عرصے سے کھیلا جارہا ہے اور اس دوران کئی کئی نسلیں پروان چڑھ کر جوان ہوکر اب بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ رہی ہیں پھر یہ نوخیز کلیوں کو کون بتائے گا کہ وطن کی آبیاری کرنے والے مالی کون تھے۔ ہماری نسلوں کی زندہ لاشوں کو انگریزی تعلیم کا ایسا کفن پہنا دیا گیا ہے کہ وہ نہ تو پاکستانی بن سکے نہ مکمل مسلمان، اور نہ ہی ذمے دار شہری، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ایک قوم کے بجائے ہجوم بن گئے اور ہجوم کبھی کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتا۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہجوم سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھی جاتی لہٰذا اس قوم کو منتشر رکھنے ہی میں عافیت سمجھی جاتی ہے اسی لیے سرکردہ مقتدر حلقے اس قوم کو منتشر کرنے کی ہر ممکن کوشش کر تے رہتے ہیں۔
ہمارے پالیسی ساز کیا کر رہے ہیں کہ قوم کو قوم نہ بننے دو ہجوم کو ہجوم نہ رہنے دو خیر و شر کے معیارات میں بھی اقربا پروری کا ملمع چڑھا ہوا ہو تو جو نتائج اس مبہم طرز حکمرانی میں اپنایا جائے گا وہ نہ صرف ملک کی بین الاقوامی حیثیت کو ثبوتاژ کرے گا بلکہ خاکم بدہن ملک کی سلامتی کے لیے بھی کوئی اچھا شگون نہیں ہوگا۔
بات پی ایس ایل یعنی پاکستان سپر لیگ کرکٹ کی ہو رہی تھی تو پہلے ایگ چینل کا ٹیکر سن لیں ’’پی ایس ایل نے قوم کو متحد کر دیا‘‘۔ یہ ایک بھیانک پیغام کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ قوم کو بین الاقوامی حالات و واقعات اور خاص طور پر مسلم امہ کے خلاف کی جانے والی دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے غفلت میں ڈالے رکھنا اور قوم کے نوجوانوں جن کو آنے والے وقتوں میں اس قوم کی کمان سنبھالنی ہے کو اپنے دشمن کی طرف سے غافل رکھو اور کھیل تماشے میں لگائے رکھو کیوں کہ کھیل ہی قوم کو متحد کر سکتا ہے یہاں قوم کی تشکیل ہی کا تو مسئلہ درپیش ہے یہ تو ہجوم ہے جس کو کھیل کی چھڑی سے ہانکا جا رہا ہے اور تاثر قوم کے اتحاد کا دیا جا رہا ہے اس ٹیکر کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قوم امت اور دین کے نام پر متحد نہیں ہو سکتی کیوں کہ قوم کو قوم نہ بننے دینے کی سازش کھلی آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہے کہ پنجاب کو نواز شریف کے حوالے کردو سندھ کو پیپلز پارٹی کے حوالے، کے پی کے کو اسفند یار ولی اور عمران کے حوالے جب کہ بلوچستان کو نومولود یونائٹد مسلم لیگ کے حوالے کردو یعنی پنجابی کو پنجاب تک سندھی کو سندھ تک پختون کو کے پی کے تک اور بلوچستان کو بلوچ سرداروں کے حوالے کردو اس طرح کیا قوم کبھی آئندہ پچاس سال بعد بھی متحد ہو سکتی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دینی سیاسی جماعتیں ہی قوم کو ایک لڑی میں پرونے کی صلاحیت رکھتی ہیں کیوں کہ اسلام لسانی عصبیت کی قطعی اجازت نہیں دیتا جب کہ مغربی جمہوریت کا وہ حصہ جو تیسری دنیا کے لیے ترتیب دیا گیا ہے اس کی بنیاد ہی تقسیم کرو اور حکومت کرو پر رکھی گئی ہے۔ قوم کو اگر کرکٹ کی بنیاد پر متحد کرنے کا مژدہ سنایا جاتا ہے اس سے یہ مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اب اس قوم کی نہ کوئی منزل ہے اور نہ کوئی نظریہ! ایک معمولی کرکٹ کے میچ کے لیے وہ کون سا ادارہ تھا جس نے اس میں حصہ نہیں لیا سارے قومی ادارے قوم کو ’’متحد‘‘ کرنے کی ایک کاہ سے سرتوڑ کوششیں کر رہے تھے جس پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لیے سارے کلیدی اداروں کے سربراہان اسٹیڈیم بھی پہنچ گئے۔
اس ملک کے عام انتخابات بھی مذاق بن کر رہ گئے ہیں بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک فوجی آمر عام انتخابات سے قبل ہی بعض افراد کو اپنے مطلب کے استعمال کے لیے پہلے سے آف کر دے کہ تم کو اس دفعہ وزیر اعظم بنوا دیتے ہیں اس کو کیسے معلوم ہوجاتا ہے کہ جس کو وہ آف کر رہا ہے وہ عام انتخابات میں جیت ہی جائے گا ایسے دعویٰ کرنے والوں میں عمران خان سمیت متعدد سیاسی رہنما شامل ہیں جن کو فوجی آمر کی جانب سے وزیر اعظم بنانے کی پیش کش کی جا چکی تھی۔ اگر مقتدر قوتوں کے پاس اتنی قوت ہے تو اس ملک کا شیرازہ بکھرنے سے بچانے کا واحد طریقہ وہی ہے جو دنیا بھر میں رائج ہے کہ پورے ملک سے ہر جماعت کے نمائندوں کو اسمبلیوں میں پہنچانے میں مدد کریں اور یہ تاثر بھی ختم کرنا پڑے گا کہ پنجاب سے صرف نواز شریف ہی جیتے گا اور سندھ سے صرف پیپلز پارٹی ہی جیتے گی ایسے اور بھی اشارے موجود ہیں کہ جب کچھ مقتدر قوتوں نے اس تاثر کو
زائل کرنے کی کوشش کی لیکن ان کوششوں پر بھی پانی پھر دیا گیا جس کی ایک مثال ممتاز علی بھٹو کی ہے جنہوں نے اپنی پارٹی کو ن لیگ میں ضم کرکے پارٹی کو تحلیل کر دیا لیکن اس کے بعد میاں نواز شریف نے پلٹ کر ممتاز علی بھٹو کی خیریت بھی دریافت نہیں کی اور اس اتحاد کی ہانڈی بیچ راستے ہی میں پھوٹ گئی وہ کون سی قوتیں تھیں جنہوں نے اس اتحاد کو پارہ پارہ کیا اور یہ کہ نواز شریف اپنی پارٹی کی خبر گیری کے لیے بھی سندھ کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ انتخابات کے زمانے میں تو وہ ایک دو چکر لگا بھی لیں گے لیکن اس کے بعد!! اسی طرح وہ کبھی کے پی کے نہیں جاتے وہ تو اسمبلی میں جانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ہاں اگر پاناما گیٹ پر قوم کو اعتماد میں لینا ہو تو اسمبلی کا فرش وہ ضرور اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں ایک اور حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ سیکولر جماعتوں کی شاخیں اگرچہ کہ چاروں صوبوں میں موجود ہوتی ہیں جو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہوتی ہیں مگر انتخابات میں ان کا فوکس وہی ہوتا ہے جس کی طرف اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ لسانی بنیاد پر اپنے اپنے صوبوں کی نشستوں ہی پر نظر ہوتی ہے کیوں کہ ان کی ڈوریں جہاں سے ہلتی ہیں ان کی مجال نہیں ہے کہ وہ دوسرے صوبوں میں بھی پاکستان کے نام پر ووٹ حاصل کریں اور اسمبلیوں تک رسائی پورے ملک کی بنیاد پر کریں لیکن مذہبی اور دینی و سیاسی جماعتوں کے ساتھ یہ لاحقہ نہیں لگا ہوتا کیوں کہ ان کو باہر سے کوئی ڈکٹیٹ کرانے والا نہیں ہوتا لا محالہ ان کا امیدوار ایک نشان اور ایک نظریہ کی بنیاد پر ووٹ طلب کرتا ہے جو یقیناًقوم کو متحد کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے کے ساتھ قوم کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے ممدو و معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سیکولر قوتیں کبھی اس قوم کو متحد نہیں ہونے دیں گی اور دینی قوتیں کبھی اس قوم کا شیرازہ بکھرنے نہیں دیں گی۔