سرکاری اعلانِ جہاد کا بیانیہ 

388

مسلم حکمران اور ان کے خاصہ دار علماء کا یہ بیان تواتر سے آ رہا ہے کہ جہاد کے اعلان کا اختیار صرف حکمرانوں کو حاصل ہے اور یہ کہ سرکار کے اعلانِ جہاد کے بغیر کوئی تنظیم گروہ یا جماعت اعلان جہاد کرتی ہے تو یہ ناجائز بالفاظِ دیگر دہشت گردی کے زمرے میں آئے گا جس کو کچلنے کا اختیار حکومت وقت کو حاصل ہے۔ مصر سے پاکستان اور پاکستان سے اندونیشیا تک کوئی مسلم ملک اعلان جہاد کرے تو عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ اس جہاد میں حصہ لیں یہ ایک ایسا بیانیہ ہے کہ جس کے پیچھے حتمی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ امت کے سادہ لوح عوام کو ایک طرح سے تسلی دینا ہے کہ مسلم حکمران جہاد کے خلاف تو نہیں لیکن جہاد کے اعلان کا اختیار انہیں کے ہاتھ میں ہے۔ اس بات کا تعین کون اور کیسے کرے گا کہ اب وقتِ اعلان جہاد آن پہنچا ہے اور یہ کہ اعلان جہاد کی شرعی توجیہ کیا ہو سکتی ہے یعنی کہ کن حالات کے پیش نظر حکومت اسلامیہ اعلان جہاد کرے اور اہل کفر کے کن اقدامات سے براہ راست اور بدست نمٹنے کے لیے مسلم امہ کو جہاد کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ کیا اعلان جہاد اس وقت فرض نہیں ہوتا جب امت کا قابل ذکر حصہ کمزور پاکر دارالکفر میں دبا لیا گیا ہے۔ یہاں قرآن ہماری رہنمائی بھی کرتا ہے اور حکم بھی دیتا ہے کہ جب مسلمانوں کا کوئی گروہ کمزور پا کر دبا لیا جائے تو اس کی مدد کو نکلو، قرآن جہاد کا واشگاف الفاظ میں حکم دیتا ہے نکلو ہلکے ہو یا بھاری یعنی تم اگرچے کہ خود کو اتنا مضبوط نہیں سمجھ رہے ہو کہ کفار کا مقابلہ کر سکو مگر پھر بھی اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کی مدد کو نکلو اگر تم نے ایسا کیا تو یقیناًاللہ کی مدد و نصرت تمہارے شامل حال رہے گی اور کفار کی ہوا اکھاڑ دے گی۔
اب تو امریکی صدر بھی بشار الاسد کو جانور کہنے پر مجبور ہوگیا کہ یہ کیسا حکمران ہے جو اپنے ہی ملک کے باشندوں پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملے کر کے بلا تفریق سب کو ہلاک کیے جا رہا ہے، یہاں ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ امریکا نے حال ہی میں روس کو اپنے میزائیلوں کے حملوں کی دھمکی بھی دے دی ہے کہ وہ اس کے میزائیلوں سے بچ کے دکھائے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی بم تو شام ہی میں گرائے جائیں گے جن سے لا محالہ مسلمان ہی قتل ہوں گے کیوں کہ امریکی صدر نے یہ واضح نہیں کیا کہ امریکی بموں کی زد میں صرف روسی تنصیبات ہی آئیں گی اس طرح تو ان پر ایک اور بڑے ملک کی دہشت گردی مسلط کر دی جائے گی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورے شام کو خالی کراکے دنیا بھر کے خانہ بدوش یہودیوں کو لا کر آباد کرادیا جائے گا۔ پہلے تو ایک اسرائیل فلسطین، لبنان اور مصر کے مسلمانوں کے سینوں پر مونگ دل رہا تھا اب دو اسرائیل وجود میں آجائیں گے پھر سب سے زیادہ خطرے میں سعودی عرب ہوگا جس کے تحفظ کے لیے بھی شاید سرکاری اعلان جہاد کا انتظار کرنا پڑے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جن ممالک میں مسلم حکمرانوں کی حکمرانی ہو اور اس میں اہل کفر کی فوجیں اتار دی جائیں تب بھی اعلان جہاد فرض نہیں ہوتا، یہاں تک کہ خود سعودی عرب جہاں حرمین شریفین موجود ہیں شاید یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ امریکا میں ایسی انتہا پسند یہودی تنظیمیں موجود ہیں جن کی بنیاد ہی اس بات پر رکھی گئی ہے کہ وہ جب بھی موقع ملے مکہ اور مدینہ کو نشانہ بنائیں گے۔ کیا یہ سب کچھ انہی تنظیموں کے ایجنڈے کو پایے تکمیل تک پہنچانے کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے تو نہیں کیا جا رہا؟ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ جہاد میں زندگی ہے یعنی جتنا امت مسلمہ جہاد سے دوری اختیار کرے گی موت سے اتنی ہی زیادہ ہمکنار ہوتی جائے گی۔ مسلمانوں کے قتل عام اور ان پر بد ترین قسم کا ظلم روا رکھا جائے صابرہ شتیلہ کے کیمپ ہوں یا کشمیر میں پیلیٹ گن سے معصوم بچوں نوجوانوں بوڑھوں کے چہرے مسخ کر دیے جائیں۔ شام کا جانور بشار مسلمانوں پر کیمیائی بموں کنٹینر بموں سے لاشوں کے انبار لگا دے عراق اور لیبیا میں لاکھوں مسلمانو ں کا قتل عام کر دیا جائے اور ان کی لاشیں بے گور و کفن سڑکوں پر کتوں کے حوالے کر دی جائیں میانمر میں مسلمانوں کے گھروں کو نذر آتش کر کے خواتین کی عصمت دری کی جاتی رہے، افغانستان میں حفاظ کی دستار بندی میں شریک بچوں کو ڈرون طیاروں کی بمباری سے شہید کر دیا جائے، یہ سارے ظالمانہ اقدام کسی طور پر دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آ سکے، ہاں اگر مسلمان اپنے دفاع کے لیے جدو جہد کریں تو ان پر ایک سیکنڈ ضائع کیے بغیر دہشت گردی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے تو پھر اعلان جہاد کے لیے اور کون سی صورت ہو سکتی ہے کہ جس کا انتظار مسلم حکمراں اور ان کے کاسہ لیس علمائے سُو کر رہے ہیں۔
اس وقت دنیا بھر میں اگر کوئی مظلوم ترین طبقہ ہے تو وہ صرف مسلمان ہی ہیں۔ افغانستان، عراق، شام، لیبیا، فلسطین، کشمیر، میانمر، بھارت یہاں تک کہ برطانیہ جیسے ملک میں جو خود کو تہذیب کا چمپئن کہلاتا نہیں تھکتا اور دنیا بھر کی اقوام کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ غیر مہذب غیر شائستہ اور شہری آداب سے نابلد ہیں بس وہی ایک ہیں جو مہذب ملک کہلوانے کا مستحق ہے لیکن اسی برطانیہ کی تہذیب میں مسلمانوں کو سزا دینے کا دن بھی منایا جاتا ہے جب کہ دنیا بھر کے کسی بھی ’’غیر مہذب‘‘ ملک میں اپنی اقلیت کے خلاف ایسا کوئی دن نہیں منایا جاتا شاید اس لیے کہ وہ ’’غیر مہذب‘‘ ہیں۔ برطانیہ میں جاری مسلم مخالف تحریک ایک مثال ہے وگرنہ تو پورے یورپ کے ملکوں میں مسلمانوں کو روئے زمین سے مٹا دینے کی پالیسیاں ترتیب دی جا رہی ہیں بلکہ بعض ممالک میں تو اسلامی شعائر کی تشریح، تشہیر اور سوچ کو ختم کر دینے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ فلسطین میں اسرائیل، کشمیر میں بھارت مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے مگر مسلم حکمراں تو مذمت تک نہیں کرتے۔ حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان افغانستان تشریف لے گئے تھے مگر کیا مجال کہ وہ قندوز میں وحشیانہ اور دہشت گردانہ امریکی بمباری سے کم و بیش دو سو بچوں بوڑھوں اور نوجوانوں کو جن میں خواتین بھی شامل تھیں کی شہادت پر ایک لفظ بھی منہ سے نکالنے ہمت نہیں کر سکے پھر سابق وزیر داخلہ فرماتے ہیں ہم کیوں ہر بات میں بیرونی ہاتھ تلاش کرنے لگ جاتے ہیں حالاں کہ ہمیں تو ان کی حکومتی ایوانوں سے بیدخلی میں بھی بیرونی ہاتھ نظر آتا ہے اور تو اور یہاں تک کہ ایک بے وقعت ملک سری لنکا میں بھی بھگشوؤں کی آڑ میں مسلم اقلیت پر بد ترین اور انسانیت سوز ظلم کیا جا رہا ہے ان کے گھروں کو مسمار اور املاک کو نظر آتش کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم حکمران اور ان کے کاسہ لیس علمائے سُو خود ہی اعلان جہاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ورنہ تو عوام تو ایک ’’کال‘‘ کے منتظر ہیں۔