عرب ممالک میں کرائے کی فوج کی بھرتی

309

عرب ممالک میں کرائے کی فوج کی بھرتی کی ایک دوڑ جاری ہے۔ سب سے پہلے سعودی عرب نے سوڈان سے چھ ہزار افراد یمن میں لڑنے کے لیے بھرتی کیے۔ سوڈان کی حکومت کی جانب سے سوڈانی جزیرہ سواکن ترکی کو فوجی اڈہ بنانے کے لیے دینے کے بعد سعودی عرب اور سوڈان کے تعلقات سردمہری کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس کے بعد اب سعودی عرب نے چاڈ کا رخ کیا ہے جب کہ متحدہ عرب امارات نے اس مقصد کے لیے یوگنڈا کا انتخاب کیا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے اختلافات کا شکار ننھا سا ملک قطر بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ قطر میں ترکی کا فوجی اڈا تو قائم کر ہی دیا گیا ہے مگر قطری فوج میں بھرتی کے لیے صومالیہ میں بھی بھرتی کیمپ قائم کر دیا گیا ہے۔
اپریل کے وسط میں سعودی عرب میں عرب لیگ کے سربراہ اجلاس میں کیا کچھ ہوا؟ اس میں کیا کچھ طے ہوا؟ یہ تو سرکاری طور پر سامنے نہیں آیا تاہم اس سربراہ اجلاس میں سائیڈ لائن پر اس قسم کے فوجی معاہدے ضرور بڑے پیمانے پر کیے گئے۔ واضح رہے کہ عرب لیگ میں صرف عرب ممالک ہی شامل نہیں ہیں۔ عرب لیگ کی تنظیم کا قیام 1945 میں عمل میں آیا تھا اور اس کے ارکان کی تعداد 22 ہے جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، یمن، بحرین، عراق، اردن، قطر، شام، کویت اور عمان کے علاوہ مصر، تنظیم آزادی فلسطین، لبنان، الجزائر، افریقی جزائر پر مشتمل الاتحاد القمری، جبوتی، لیبیا، مراکش، ماریطانیہ، صومالیہ، سوڈان اور تیونس بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل ابوظہبی کے ذریعے متحدہ عرب امارات بدنام زمانہ بلیک واٹر سے 8 سو افراد پر مشتمل کرائے کے فوجی حاصل کرچکا ہے۔ ان فوجیوں کو کولمبیا اور جنوبی افریقا سے بھرتی کیا گیا تھا۔ بلیک واٹر نے اس مقصد کے لیے ابوظہبی میں خاص طور سے ایک نئی کمپنی قائم کی جس کا نام R2 رکھا گیا تھا۔ بلیک واٹر کے تحت بھرتی کیے گئے کرائے کے ان فوجیوں میں اس التزام کو خاص طور پر ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا کہ یہ سارے کے سارے غیر مسلم ہوں تاکہ یمن میں مسلمانوں کا قتل عام کرتے وقت ان کے دل کبھی نرم نہ پڑ جائیں۔
ایک طرف سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے اسلحہ خریدنے کے کھربوں ڈالر کے معاہدے امریکا اور اس کے اتحادی یورپی ممالک سے کر رکھے ہیں جس کی فراہمی جاری ہے۔ دوسری جانب ایران، ترکی اور اس کے اتحادیوں نے روس اور یوکرین وغیرہ سے اسلحہ خریدنے کے معاہدے کر رکھے ہیں اور ان کی بھی فراہمی جاری ہے۔ اب ساری توجہ کرائے کے فوجیوں پر ہے۔ ترکی، ایران اور اس کے اتحادیوں کو مخالف اتحاد سعودی عرب اور اتحادیوں پر انسانی وسائل کے معاملے پر برتری حاصل ہے۔ ایران اور ترکی کی سرکاری فوجوں کو بہترین تربیت کے ساتھ ساتھ گزشتہ کئی عشروں سے براہ راست جنگ کا تجربہ بھی حاصل ہے۔ اس کے علاوہ شام میں جاری جنگ نے ایران کے زیر اثر حزب اللہ کو ایک گوریلا جتھے سے تبدیل کر کے باقاعدہ ایک فوج کی شکل دے دی ہے۔ اب اس کی بریگیڈز بھی ہیں اور بٹالین بھی۔ اس کے پاس میزائیل بنانے کی اپنی فیکٹریاں بھی ہیں۔ اب حماس بھی قطر کے راستے ایران کے رابطے میں ہے۔ یمن میں انصاراللہ بھی منجھ چکی ہے جب کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی آبادی کے مسائل کے ساتھ ساتھ تن آسانی کے مسئلے سے بھی دوچار ہیں۔ ان کے شہری نہ تو مشقت کرسکتے ہیں اور نہ ہی کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا ایک آسان حل عرب ممالک نے کرائے کی فوج کی شکل میں نکالا ہے۔
یہ منظرنامہ کہیں سے بھی خوش آئند نہیں ہے۔ یہ عرب و عجم کی جنگ نہیں ہے۔ نہ ہی یہ مسلمانوں کی لیڈرشپ کی جنگ ہے۔ یہ سیدھا سادھا مسلمانوں کی نسل کشی کا منصوبہ ہے۔ دیکھنے میں اس وقت تو مسلمانوں کی نسل کشی ان علاقوں میں ہورہی ہے جہاں پر وہ اقلیت میں ہیں۔ بوسنیا میں منظم طریقے سے مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔ برما میں گزشتہ دس برسوں سے مسلسل مسلمانوں کی نسل کشی ہورہی ہے۔ یہی کام بھارت میں بھی ہورہا ہے۔ اسرائیل روز فلسطینیوں کے خون سے ہاتھ رنگ رہا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ مسلم اکثریت والے علاقوں میں جس طرح سے مسلمانوں کی نسل کشی ہورہی ہے اس کی مثال ان علاقوں میں بھی نہیں ملتی جہاں پر مسلمان اقلیت میں ہیں۔ ایران عراق جنگ، افغانستان، لیبیا اور عراق پر امریکی حملوں، شام میں مسلسل حالت جنگ اور یمن میں خانہ جنگی وغیرہ وغیرہ سے مسلمان ہی تباہ حال ہیں۔
تاہم اب عرب ممالک میں ایک نئی جنگ کے بادل امڈتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بھس میں چنگاری لبنان اور یمن کی سرحدوں پر لگائی جائے گی۔ ایران اور اسرائیل کے مابین لفظی گولہ باری جاری ہے جس میں دونوں ہی ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے دعوے کررہے ہیں۔ اسرائیل پہلے ہی متنبہ کرچکا ہے کہ اس مرتبہ جنگ شروع ہوئی تو 2006 کی طرح محض لبنان کی سرحد تک محدود نہیں رہے گی بلکہ لبنان کی سرحد کے ساتھ ساتھ پوری شمالی سرحد پر ہوگی۔ اسرائیل کی شمالی سرحد پر لبنان واقع ہے، اس کے ساتھ ہی شمال مشرق میں شام اور اس ملحق مشرق میں اردن ہے۔ اس کے دوسری جانب جنوب میں فلسطین واقع ہے اور اس سے ملحق جنوب مغرب میں مصر ہے۔ اگر اسرائیل کی دھمکی کو سنجیدگی سے لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل لبنان کے ساتھ ساتھ شام اور اردن پر بھی حملہ آور ہوگا۔ شام پر تو اب بھی اسرائیل کے فضائی اور میزائیل حملے جاری ہیں۔ تاہم اب اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس جنگ کی صورت میں اُس کی زمینی فوجیں بھی ان ممالک کی سرحدیں عبور کریں گی۔
نئی جنگ کے نتیجے میں جو تباہ کاری ہوگی اس کا اندازہ کرنا دشوار نہیں ہے۔ تاتاری یلغار نے بھی مسلم دنیا میں وہ تباہی نہیں پھیلائی ہوگی جو اس جنگ کے نتیجے میں ہوسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ جنگ اسرائیل کے ساتھ ہوگی جسے پورے یورپ اور امریکا کی ہر طرح کی مدد و حمایت حاصل ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ عملاً یہ جنگ مسلم ممالک کے درمیان ہوگی۔ ایک صف میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ان کے اتحادی ہوں گے تو دوسری صف میں ترکی، ایران اور ان کے اتحادی ہوں گے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہوگی جس میں فتح و شکست تو کسی کی نہیں ہوگی مگر اس کے نتیجے میں خوں ریزی بہت ہوگی اور طرفین انتہائی کمزور بھی ہوں گے۔ جب جنگل میں جانور مرتے ہیں تو اس سے صرف اور صرف گدھ اور لکڑ بھگے ہی فیضیاب ہوتے ہیں۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش