مزدوروں کا عالمی دن اصل حقیقت

449

مسعود انور
www.masoodanwar.com
hellomasood@gmail.com

یہ شگاگو میں یکم مئی 1886 کا ایک خوشگوار دن ہے۔برف پگھل چکی ہے اور ہر سو بہار کی خوبصورتی چھائی ہوئی ہے۔ یہ کوئی عام دن نہیں ہے۔ قدیم دور سے ہی اس دن کو یوم بہار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کی اپنی ایک تاریخ ہے جس پر انسائیکلو پیڈیاز کے صفحے در صفحے بھرے ہوئے ہیں۔ مگر آج کا دن شگاگو کی آبادی کے لییایک اور طرح سے بھی الگ ہے کہ بائیں بازو کی مزدور تنظیموں نے ہڑتال کی کال دی ہوئی ہے۔ تقریبا ایک لاکھ مزدور جو کہ شگاگو کی کل آبادی کا تقریبا ایک چوتھائی ہیں ، اپنے حقوق کو منوانے کے لئے شہر کے مرکزی چوک میں جمع ہیں۔ ان مظاہرین کا دھرنا اور احتجاج تین مئی تک جاری رہا۔ اس کے بعد وہ پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔ تین دن تک جاری یہ دھرنا و احتجاج انتہائی پرامن تھا اور ایک بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ رہنما اس احتجاج کو باقاعدہ ختم کرنے کا اعلان کرکے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوچکے تھے۔ اسٹیج کو لپیٹنے کا مرحلہ جاری تھا جس کے لئے ایک لاکھ مظاہرین میں سے صرف چند سو مزدوروں کی تعداد وہاں موجود تھی کہ کسی شر پسند نے وہاں پر موجود پولیس پر پتھراوکرکے اس کو مشتعل کردیا۔ اس کے جواب میں پولیس نے مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں چار مزدور جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ اس واقعے کے جواب میں اگلے دن پھر احتجاج کی کال دی گئی۔ اس میں ہزاروں کی تعداد میں مزدور شریک ہوئے۔ اس روز پولیس نے احتجاجی مظاہرین کو منتشر ہونے کو کہا۔ جس کے جواب میں کسی شرپسند نے پولیس پر ایک دستی بم پھینک دیا۔ جس سے ایک پولیس افسر جاں بحق ہوگیا جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔ اس کے بعد پھر پولیس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ اب کی مرتبہ احتجاجی مظاہرین بھی تیاری کرکے آئے تھے اور انہوں نے بھی پولیس پر فائرنگ شروع کردی۔ چار مئی کو پیش آنے والے اس واقعہ میں سات مزید پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے جبکہ درجنوں شدید زخمی ہوگئے۔ پولیس کی فائرنگ سے بھی ایک درجن سے زائد مظاہرین مارے گئے۔ اس کے بعد پورے شہر میں کریک ڈاون کا عمل شروع ہوگیا۔
یہ ہے وہ واقعہ جس کی یاد میں ہر سال پوری دنیا میں یکم مئی کو یوم مزدور منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر دنیا بھر کے اکثر ممالک میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ یوم مزدور کی تقریبات کا آغاز عام طور پر تیس اپریل کی رات سے ہی ہوجاتا ہے اور مزدوروں کی ایک بڑی تعداد روایتی طور پر رات کو مشعل بردار جلوس نکالتی ہے۔ اس واقعے کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ایجنٹوں نے اپنا کام کتنی خوبی سے سرانجام دیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر مارے جانے کا واقعہ تین اور چار مئی کو پیش آیا تھا تو یکم مئی کو ہی کیوں یوم مزدور منایا جاتا ہے۔ اور سب بڑا ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ جب یکم مئی ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے تو اس روز ہڑتال اور احتجاج کی کال کیوں دی گئی۔ شگاگو کے واقعے سے بھی بڑے بڑے دنیا میں واقعات ہوئے مگر اس روز یوم مزدور کیوں نہیں۔ خود روس میں 22 جنوری 1905 کو خونیں ترین واقعہ پیش آیا تھا جس میں زار کی فوج نے سیکڑوں معصوم مظاہرین اور ان کے اہل خانہ کو اندھا دھند فائرنگ کرکے موت کی نیند سلا دیا تھا۔ تو 22 جنوری کو یوم مزدور کیوں نہیں۔ اس یوم مئی میں ایسی کیا بات ہے کہ وہ ممالک بھی جو کرسمس کی تعطیل نہیں دیتے مگر اس دن ان کے ملک میں بھی عام تعطیل ہوتی ہے۔ اگر سارے ممالک کی تعطیلات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ننانوے فیصد دنیا میں اس روز عام تعطیل ہوتی ہے۔ اس طرح یہ دنیا کا واحد دن ہے جس کو ایک عالمی تہوار کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں ہے۔ آئیے تاریخ میں تھوڑا سا پیچھے کی طرف چلتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے شروع میں ہی عرض کیا کہ یکم مئی کو مغربی دنیا میں بہار کے تہوار کے طور پر منایا جاتا رہا ہے۔ اس کے ڈانڈے دیوی دیوتاوں سے جاکر ملتے ہیں۔ اس روز کسان دیوی دیوتاوں کے حضور انسانی و جانوروں کی قربانی پیش کرتے اور ان کے حضور گڑ گڑا کر اچھی فصل کی دعا کرتے تھے۔
یہ یکم مئی 1776 کا دن ہے جب جرمنی کی قدیم باویرین سلطنت میں پروفیسر آدم ویشاٹ نے خفیہ سوسائٹی الومیناتی کی بنیاد ڈالی۔ اس نے اس دن کو خاص طور سے چنا تھا کہ یہ دن شیطان کو خاص طور سے پسند ہے کیوں کہ اس روز اس کے حضور خاص قربانی پیش کی جاتی ہے اور بڑے پیمانے پر اس کی عبادت کا اہتمام ہوتا ہے۔ یکم مئی Druidic Withch’s Calander میں مقدس ترین دن ہے جبکہ الومیناتی کیلنڈر میں اس کا نمبر دوسرا ہے۔ مگر دوسرے نمبر پر ہونے کے باوجود اس کی اہمیت کم نہیں ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ مسلمانوں کے ہاں عید الفطر کا نمبر دوسرا ہے مگر یہ منائی اتنے ہی جوش سے جاتی ہے جس طرح عید الاضحی یا عیسائیوں کے کیلینڈر میں کرسمس کا تہوار ایسٹر سے چھوٹا ہے مگر کرسمس زیادہ جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔
شیطان کے ماننے والے یہ تقریبات دو روزہ مناتے ہیں۔ ان کا تہوار 30 اپریل کی رات سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ اس کو وہ Walpurgis Night کا نام دیتے ہیں۔ دیوی دیوتا کو ماننے والے رات مقدس آگ روشن کرکے زمین کی دیوی کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ تہوار ان کے نزدیک زرخیزی کا تہوار ہے۔ یہ تہوار اتنا اہم تھا کہ قدیم زمانے میں آئر لینڈ میں شاہی ونڈسر خاندان سرکاری طو ر پر یہ مشعل روشن کرتا تھا۔ اس رات کو سب اگلے دن سب جشن مناتے اور رقص کرتے تھے۔ خوب شراب پی جاتی اور جنسی خرمستیاں کی جاتیں۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس سے ان کی آنے والی نسلوں میں بھی برکت ہوگی۔
بعد ازاں یہ دن الومیناتی کے خاص دنوں میں شامل ہوگیا۔ الومیناتی کا یہ تہوار ان دنوں میں شامل ہے جس میں وہ شیطان کے حضور انسانی قربانی پیش کرتے ہیں۔ یہ انسانی قربانی معصوم بچوں کی پیش کی جاتی ہے کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ شیطان بچوں کی قربانی سے زیادہ خوش ہوتا ہے۔
کمیونسٹ جو کہ انہی الومیناتی کے پیدا کردہ ہیں (اس پر میں اپنی کتاب جنگوں کے سوداگر میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں) نے اس کو اپنے آقاوں کی ہدایت پر پوری دنیا کا تہوار بنانے کا فیصلہ کیا اور اب پوری دنیا میں یوم مئی منایا جاتا ہے۔ ممتاز انگریز مورخ Nesta Webster نے اپنی کتاب World Revolution (یہ کتاب 1924 میں شائع ہوئی۔ بعد میں اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے) میں سوال کرتی ہے کہ کیا یہ محض اتفاق تھا کہ کمیونسٹوں کی جولائی 1989 میں پیرس میں ہونے والی انٹرنیشنل سوشلسٹ کانگریس نے یکم مئی کو پوری دنیا میں مزدوروں کے مظاہروں کے دن کے طور پر چنا تھا۔
اب سمجھ میں آتا ہے کہ بائیں بازو کی تمام مزدور تنظیمیں 30 اپریل کی رات کو مشعل بردار جلوس کیوں نکالتی ہیں۔ ہٹلر جو کہ الومیناتی ایجنٹ اور شیطان کا پجاری تھا اس نے خودکشی کے لئے 30 اپریل کا ہی دن چنا تھا۔ اس نے شام کو 3:30 پر اپنے آپ کو گولی مار کر شیطان کے حضور اپنی قربانی پیش کی تھی۔ اس طرح الومیناتی جو علم الاعداد پر زبردست یقین رکھتے ہیں کے مطابق 333 کا مقدس عدد حاصل ہوگیا تھا۔ اس کی موت کا باقاعدہ اعلان یکم مئی کو ہی کیا گیا تھا۔
اس دن کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ مسٹر اباما نے اسامہ کی موت کا اعلان بھی یکم مئی 2011 کو کیا تھا۔ ان شیطان پرستوں سے خود بھی ہوشیار رہیے اوراپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے کہ کہیں ناواقفیت میں شیطان کی پوجا نہ کر بیٹھیں۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش۔