اسامہ بن لادن کی موت حقائق کیا ہیں ؟

493

2
مسعود انور
www.masoodanwar.com
hellomasood@gmail.com

ایبٹ آباد میں 2 مئی 2011 کو امریکی حکام نے اسامہ بن لادن کو مارنے کا دعویٰ کیا تھا ۔ اس واقعے کے ایک برس بعد جسارت میں اس اہم واقعے پر یہ کالم شایع کیے گئے تھے ۔ ان حقائق کو اب مغربی دنیا نے بھی تسلیم کرنا شروع کردیا ہے ۔ ماہر مشرق وسطٰیٰ اور مشہور کالم نگار ڈیوڈ فراسٹ نے 2017 میں یہی سوالات اٹھائے تھے۔ یہ کالم ابھی تک اتنے ہی تازہ ہیں جتنے اپنی اشاعت کے وقت تھے حقائق کو دوبارہ سے جاننے کے لیے پیش خدمت ہیں ۔
اسامہ بن لادن کی موت ان کی حیات کی طرح آخر تک ایک معما ہی بنی رہی۔ ان کی موت کے انکشافات نائن الیون کے فوری بعدہی سے ہی شروع ہوگئے تھے۔ یہ انکشافات کرنے والے کوئی معمولی لوگ نہیں تھے بلکہ اس میں وہ تمام شخصیات شامل ہیں جن کو ہم کو ہم معتبر، ثقہ اور ڈرون خانہ ہونے والی سازشوں سے باخبر بلکہ بعض صورتوں میں ان سازشوں میں شامل سمجھ سکتے ہیں۔ تاہم اس کا ڈراپ سین پاکستانی وقت کے مطابق 2 مئی کو اور امریکی وقت کے مطابق یکم مئی کو اس وقت ہوا جب مسٹر اوباما نے ٹمٹماتے ہوئے چہرے کے ساتھ اعلان کیا کہ اسامہ مرچکا ہے۔
اسامہ کی موت کی طرح ان کی لاش بھی ابھی تک معما بنی ہوئی ہے۔ مسٹر اوباما نے اعلان کیا کہ اسامہ کی لاش کو مرجع عوام بننے سے روکنے کے لیے سمندر برد کردیا گیا ہے۔ انہوں نے اسامہ کی لاش کی تصاویر جاری کرنے سے انکار کردیا کہ اس سے بقول ان کے دنیا بھر میں دہشت گردی میں اضافہ ہوگا مگر یہ تصاویر دنیا کی کئی ویب سائٹس پر نظر آئیں اور یار لوگوں نے اسے لیک Leak کا کارنامہ قرار دیا۔ جب کوئی سرکار کسی راز کو سرکاری طور پر افشا نہیں کرنا چاہتی اور یہ بھی چاہتی ہے کہ اس راز کو پبلک کر دیا جائے تو اس کو کوئی بھی سرکاری افسر کسی بھی صحافی پر نظر کرم کرتے ہوئے اسے لیک کردیتا ہے۔ اس سے سرکار کا کام بھی بن جاتا ہے اور اس راز کی بھرپور طریقے سے تشہیر بھی ہوجاتی ہے۔ یہ تمام تصاویر جس میں اسامہ کے چہرے پر زخم نظر آرہے ہیں ، کا جب پوسٹ مارٹم کیا گیا تو پتا چلا کہ یہ تو فوٹو شاپ کا کارنامہ ہے جس میں چہرے کا نچلا حصہ تو اسامہ کا اصلی ہی ہے مگر اوپر کا حصہ کسی اور مردہ شخص کا لگا دیا گیا ہے۔ اس انکشاف کے بعد یہ تصاویر ان ویب سائٹس سے خاموشی سے ہٹادی گئیں جنہوں نے اس دعوے کے ساتھ اس کو اپنی ویب سائٹ پر لگایا تھا کہ یہ ان تک خاص ذریعے سے پہنچی ہے۔ بعد میں جعلی تصویر لگانے کا یہ الزام بھی ان ہی پر لگا دیا گیا جو اس جھوٹ کو پکڑ رہے تھے اور کہا گیا کہ یہ امریکی حکومت کو بدنام کرنے سازش ہے۔
اسامہ کی موت کا سب سے پہلے انکشاف اپریل 2002 میں امریکی تھنک ٹینک کاؤنسل آن فارن ریلیشن (CFR) کے رکن Pieczenik R. Steve نے امریکا کے مشہور ٹاک شو الیکس جانز شو میں کیا۔ اسٹیو کوئی معمولی شخصیت نہیں ہے۔ اس کا تعلق CFR سے ہے جو امریکا میں بادشاہ گر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ وہی ادارہ ہے جو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ امریکا کا آئندہ صدر اور برطانیہ کا آئندہ وزیر اعظم کون ہوگا۔ یہی ادارہ امریکا میں ججوں کے تقرر سے لے کر سیینیٹروں کے انتخاب تک کا اور اہم کلیدی اسامیوں پر تقرری کا فیصلہ کرتا ہے۔ اسٹیو ہنری کسنجر، سائرس وانس اور جیمز بیکر کے ساتھ امریکا کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ کے اہم عہدے پر خدمات سرانجام دے چکا ہے۔ اسٹیو کی ایک اور بھی خاص اہمیت ہے۔ وہ یہ کہ اسٹیو افغانستان پر روسی حملے کے بعد جاری افغان جہاد کے دوران 70 اور 80 کے عشرے میں جہادی رہنماؤں کے ساتھ رابطے، ان کو اسلحہ اور فنڈ کی فراہمی کے ذمے داروں میں بھی شامل تھا۔ اس طرح اس کے تعلقات براہ راست تمام جہادی رہنماؤں کے ساتھ تھے جس میں اسامہ بن لادن بھی شامل تھے۔ اس طرح ہم اسٹیو کو گھر کے بھیدی کا درجہ دے سکتے ہیں اور اس کے انکشافات کو گھر کی گواہی کا۔ اسٹیو نے اس شو میں جس کے کلپ اب بھی یو ٹیوب پر موجود ہیں، برملا کہا کہ اسامہ کو مرے ہوئے کئی ماہ ہوچکے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اسامہ کی موت نائن الیون کے واقعے سے پہلے ہوچکی تھی۔
24 اپریل 2002 کو دیے جانے والے اس انٹرویو میں اسٹیو نے کہا کہ اسامہ کو گردوں کی بیماری لاحق تھی اور بطور ایک فزیشین میں جانتا ہوں کہ اس کو ڈائیلاسز کے لئے دو مشینیں درکار تھیں۔ وہ مرچکا ہے۔
146آپ وہ تصاویر اور وڈیوز دیکھیں جو ہمیں کسی نامعلوم مقام سے بھیجی جارہی ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ اچانک ہم بن لادن کی ایک وڈیودیکھتے ہیں جو گمنام ذریعے سے موصول ہوتی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ یہ کسی نامعلوم مقام سے نامعلوم شخص نے نامعلوم ذریعے سے بھیجی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ہماری حکومت نے یا حکومت کے کسی شخص نے بھیجی ہے تاکہ ہماری طرف کے لوگوں کا مورال بلند رہے اور ہم ان کو بتاتے رہیں کہ ہم اس کا پیچھا کررہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ کئی ماہ پہلے ہی مرچکا ہے۔145
اسٹیو نے کہا کہ نائن الیون کے فوری بعد ایک وڈیو میں موصول ہوئی جس میں ایک موٹا سا بن لادن نائن الیون کے واقعے کی تمام تر ذمے داری کو قبول کررہا ہے۔ یہ وڈیو دسمبر 2001 میں جاری کی گئی اور یہ ایک hoax کے سوا کچھ نہیں تھی تاکہ عوامی جذبات کو استعمال کیا جاسکے۔
اسٹیو کا کہنا تھا کہ بن لادن کے خاندان کو یہ حقیقت معلوم ہے اور اس خاندان نے ایک معاہدے کے تحت اس خبر کو چھپایا۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرف نے حادثاتی طور پر اس حقیقت کواس وقت آشکارا کردیا تھا جب اس نے یہ بیان دیا کہ بن لادن مرچکا ہے کیوں کہ مشرقی افغانستان میں اس کی گردوں کی ڈائیلاسز کی مشینیں تباہ ہوچکی ہیں۔
اسی الیکس جونز جس کے پروگرام میں اسٹیو نے یہ انکشافات کیے تھے، نے اگست 2002 میں پھر کہا کہ اس کو ریپبلیکن پارٹی کے ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ اسامہ مرچکا ہے اور اس کے مردہ جسم کو سردخانے میں محفوظ کرلیا گیا ہے۔ اس کا انکشاف کسی مناسب وقت پر کیا جائے گا تاکہ اس سے بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔ الیکس جونز کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے ذریعے کو کہا کہ یہ محض ایک افواہ بھی تو ہوسکتی ہے تو اس کے ذریعے نے اصرار کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے خود اسامہ کو مجسم برف خانے میں دیکھا ہے۔
اسامہ کی موت کی یہ تو ایک گواہی تھی۔ اس کوکئی مرتبہ خبروں میں مارا گیا۔ ان انکشافات کا ترتیب وار جائزہ لیتے ہیں۔
سابق سی آئی اے افسر اور انٹیلی جنس وخارجہ پالیسی کے ماہر رابرٹ بیئر سے جب ایک امریکی ریڈیو کے پروگرام کے میزبان نے 2008 میں اسامہ بن لادن کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے قطعی طور پر کہا کہ 145145بالکل ، وہ مرچکا ہے146146۔
26 دسمبر 2001 کو فاکس نیوز نے پاکستان آبزرور کی ایک اسٹوری کے حوالے سے خبر نشر کی کہ افغان طالبان نے اسامہ بن لادن کی موت کا اعلان کردیا ہے۔ ان کو ایک گمنام قبر میں دفن کیا گیا ہے۔
18جنوری 2002 کو اس وقت کے پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اعلان کیا کہ 146146 میرا اب یہ خیال ہے کہ وہ مرچکا ہے۔ 145145
17 جولائی 2002 کو ایف بی آئی کے انسداد دہشت گردی کے ونگ کے اس وقت کے سربراہ ڈیل واٹسن نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران کی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 146146 یہ میرا ذاتی خیال ہے کہ وہ (اسامہ بن لادن) اب نہیں ہے۔ 145145
اکتوبر 2002 میں افغان صدر حامد کرزئی نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 146146 مجھے اس پر یقین ہے کہ وہ مرچکا ہے۔ 145145
2003 میں امریکا کی سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ میڈیلین البرائٹ نے فاکس نیوز کے تجزیہ کار مارٹن کانڈریک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسے شبہہ ہے کہ بش اسامہ کے بارے میں جانتے تھے اور وہ مناسب وقت کا انتظار کررہے تھے کہ اس کو پکڑنے کا اعلان کرکے زیادہ سے زیادہ سیاسی مفاد حاصل کرسکیں۔
نومبر 2005 میں امریکی سینیٹر ہیری ریڈ نے انکشاف کیا کہ اس کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں اکتوبر میں آنے والے زلزلے میں اسامہ مارا گیا ہے۔
فروری 2007 امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی کے مذہبی پروگرام کے سربراہ پروفیسر بروس لارنس نے کہا کہ اسامہ کی جتنی بھی ویڈیوز جاری کی جارہی ہیں وہ سب جعلی ہیں اور ممکنہ طور پر وہ (اسامہ) مرچکا ہے۔
2 نومبر 2007 کو بے نظیر بھٹو نے الجزیرہ ٹی وی کے میزبان ڈیوڈ فراسٹ کو ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ عمر شیخ نے اسامہ بن لادن کو قتل کردیا ہے۔
امریکا کے سابق انٹیلی جنس افسر اور بوسٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات عامہ کے پروفیر اینجیلو کوڈیویلا نے مارچ 2009 میں کہا کہ 146146 اسامہ بن لادن کے مقابلے میں ایلوس پریسلے کی زندگی کے بارے میں زیادہ شہادتیں موجود ہیں۔ 146146 واضح رہے کہ مشہور انگریزی گلوکار ایلوس پریسلے کا اس وقت انتقال ہوچکا تھا۔
مئی 2009 میں صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے گزشتہ سات برس سے اسامہ بن لادن کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔ زرداری کا کہنا تھا کہ 146146 میرا نہیں خیال کہ وہ زندہ ہے۔ 145145
امریکی تھنک ٹینک کونسل آن فارن ریلیشن (CFR) کے رکن Steve R. Pieczenik کی گواہی کا ذکراوپر ہی کیا جاچکا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اسامہ کی موت نائن الیون کے واقعے سے پہلی ہی ہوچکی تھی اور اسامہ کی لاش برف خانے میں محفوظ کرلی گئی تھی۔
ان تمام شہادتوں کو دیکھیے۔ اس کے بعد محمد بشیر کی عینی شہادت کو دیکھیے کہ ایبٹ آباد آپریشن والے دن کوئی ہیلی کاپٹر نیچے اترا ہی نہیں تو پھر وہ کس کو لے کر گیا ؟ جب پاکستانی فوج اور ایجنسیوں نے ہیلی کاپٹر پھٹنے کے پندرہ منٹ کے اندر کمپاونڈ کا چارج سنبھال لیا تھا اور تمام مردہ اجسام پاکستانی فوجیوں نے ہی کمپاونڈ سے ہٹائے تھے تو پھر اس میں امریکی حکومت کا کیا کارنامہ تھا اور پھر پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت دونوں نے کیوں عالمی سطح پر سبکی قبول کی ؟ یہ وہ سوالات ہیں ، جس کے جواب اگر مل جائیں تو بہت ساری باتیں ازخود واضح ہوجائیں گی۔
ایبٹ آباد میں کیا واقعہ پیش آیا۔ یہ بات شاید تیس یا چالیس برس کے بعد دنیا اس وقت جان سکے جب سی آئی اے اس بارے میں اپنی دستاویزات کو ڈی کلاسیفائی کرے گی۔ تاہم یہ واقعہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ امریکا کے دعوے کے مطابق اس میں اسامہ بن لادن کو ماردیا گیا اور اس کی لاش کو امریکی اپنے ساتھ پاکستان سے باہر بھی لے گئے بلکہ اس واقعے نے پاکستانی دفاعی نظام اور پاکستانی فوج کی اہلیت کے بارے میں بھی سوالات اٹھادیے تھے۔ یعنی امریکی دعوے کے مطابق چار ہیلی کاپٹروں میں موجود درجنوں امریکی فوجی اہلکار سرحد پار کرکے پاکستانی دارالحکومت کے بالکل برابر والے شہر میں پاکستانی فوج کی چھاؤنی سے متصل کمپاؤنڈ میں اترے، کامیاب کارروائی کی ، اسامہ کے ساتھ اپنے مردہ فوجیوں کو بھی ہیلی کاپٹر میں لادا اور واپس پاکستان سے باہر بھی چلے گئے۔ پاکستانی فوج اور کسی بھی ادارے کو اس کی کانوں کان خبر بھی نہیں ہوئی۔ اس کی اطلاع پاکستان کو اس وقت ملی جب خود امریکی حکام نے اس سے پاکستان کو آگاہ کیا۔ایبٹ آباد کے رہائشی محمد بشیر کی واحد اور دستیاب عینی شہادت کے مطابق ایسا بالکل نہیں تھا۔ اس پورے واقعے میں پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت پوری طرح سے شامل تھی۔
پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت کے اس پورے سانحے میں ملوث ہونے کا اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ دو مئی کے بعد کسی بھی آزاد ادارے نے نہ تو وقوعے کی کوئی فارنسک رپورٹ بنائی اور نہ ہی یہ کسی بھی سطح پر پیش کی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایبٹ آباد میں موجود اسامہ بن لادن کا کمپاؤنڈ صحافیوں کے لیے کھول دیا جاتا تاکہ وہ وہاں پر موجود گولیوں کے نشانات اور دیگر نشانات کی مدد سے یہ جان سکتے کہ کیا واقعی ایسا کچھ ہوا تھا جس کا دعویٰ امریکی کررہے تھے۔ اس کے بجائے اس کمپاؤنڈ کو مکمل طور پر مسمار کردیا گیاتاکہ کبھی بھی اس بارے میں کوئی شواہد منظر عام پر ہی نہ آسکیں۔ اسی طرح اسامہ بن لادن کے اہل خانہ کو جن کے بارے میں یہ شواہد موجود ہیں کہ انہیں سی آئی اے اور پاکستانی ایجنسیوں کے تعاون سے وہاں پر رکھا گیا تھا، کو کبھی بھی میڈیا کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ سب سے بڑی عینی شہادت یہی لوگ تھے جو بتاسکتے تھے کہ اس رات کیا واقعہ اور کس طرح پیش آیا، مگر انہیں بھی خاموشی سے بیرون ملک روانہ کردیا گیا اور دنیا نے آج تک ان افراد کا ایک بھی مستند انٹرویو نہ تو دیکھا اور نہ ہی پڑھا۔
عوام کو احمق بنانے کے لیے ہر دفعہ کی طرح ایک جوڈیشل کمیشن بنادیا گیا۔ یہ واضح رہے کہ جوڈیشل کمیشن کہیں سے بھی کسی بھی تحقیقاتی ادارے کا نعم البدل نہیں ہوتا۔ یہ کمیشن نہ تو کہیں پر جاکر از خود تحقیقات کرتا ہے اور نہ ہی کسی کے دیے گئے بیان کو جانچتا ہے کہ اس میں کتنا غلط ہے اور کتنا درست۔ یہ ایک جگہ بیٹھ کر چند افراد کو طلب کرتا ہے اور ان کے دیے گئے بیانا ت کی روشنی میں اپنی رپورٹ مرتب کرلیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی بھی جوڈیشل کمیشن سے یہ بات ثابت نہیں ہوسکی کہ جس سانحے کے لیے وہ کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، اْس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے اور کیا وہ واقعہ یا سانحہ اْسی طرح سے پیش آیا تھا جس طرح سے پیش کیا گیا ہے۔ یہی صورتحال ہمیں ایبٹ آباد کے لیے بنائے گئے کمیشن میں بھی نظر آئی۔ اس میں کوشش کی گئی کہ اس کے ذمے دار افراد کو کسی بھی طرح قوم کے سامنے نہ پیش کیا جائے۔
اس پورے واقعے کا ایک اہم ترین کردار ، امریکا میں اْس وقت متعین پاکستانی سفیر حسین حقانی بھی تھے۔ حسین حقانی کے حوالے سے میمو گیٹ اسکینڈل مشہور ہوا۔ وہ پاکستان آئے بھی اور واشنگٹن جاکر مفرور بھی ہوگئے۔ پاکستانی عدلیہ انہیں شروع میں گیدڑ بھپکی دیتی رہی اور پھر دیگر معاملات کی طرح اس میں بھی مشتبہ چپ سادھ لی۔ اس کے بعد نہ تو میڈیا میں سے کسی نے اس کا تذکرہ کیا، نہ ہی حکومت نے کوئی آواز نکالی، نہ ہی کسی پاکستانی ایجنسی نے اس معاملے کو کسی بھی فورم پر اٹھایا اور حیرت انگیز طور پر نہ ہی کسی اپوزیشن لیڈر نے اس معاملے پر منہ سے بھاپ نکالنے کی کوشش کی۔ یہاں پر نورا کْشتی کا اندازہ ہوتا ہے کہ جب ضرورت پڑتی ہے چاہے وہ ملکی سالمیت کے ہی خلاف معاملہ کیوں نہ ہو، کس طرح سب مل کر کھیل کھیلتے ہیں۔
ان واقعات کا ایک مرتبہ پھر مختصرا جائزہ لیتے ہیں جس سے سارے کرداروں کا اسکرپٹ واضح ہوجاتا ہے۔ اس پورے واقعے کو میڈیا نے ایک ہی طرح سے رپورٹ کیا۔ حالانکہ وقوعہ اسلام آباد سے محض دو گھنٹے کی مسافت پر تھا مگر پھر بھی ساری رپورٹیں بذریعہ واشنگٹن یا لندن چھپ رہی تھیں۔ کسی بھی پرنٹ یا الیکٹرونک میڈیا نے ایک مرتبہ بھی عینی شہادت سے عوام کو یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ اصل میں واقعہ ہوا کیا تھا۔پورا پاکستانی میڈیا اس قوالی میں ہمنوا تھا۔ سارے دفاعی و سیاسی تجزیہ کار لکھا ہوا اسکرپٹ پڑھ رہے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ میڈیا کی ڈوریں کہاں سے ہلائی جاتی ہیں اور پاکستانی میڈیا کتنا معتبر ہے۔
پاکستانی قیادت نے بھی سارے الزامات اپنے سر پر لے لیے اور اس امر کا برملا اعتراف کیا کہ نہ تو پاکستانی ایجنسیوں کو اس کی خبر تھی کہ مذکورہ کمپاؤنڈ میں کوئی رہائش پذیر تھا اور نہ ہی کسی بھی سول یا فوجی ادارے کو امریکی فوجی آپریشن کا علم ہوسکا۔دیگر مشتبہ معاملات کی طرح یہاں پر بھی فوری طور پر مذکورہ کمپاؤنڈ کو مسمار کرکے تمام تر شہادتوں کو ختم کردیا گیا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاسی قیادت کس طرح اپنی قوم کو کسی بھی لمحے میں فروخت کرسکتی ہے۔
پاکستانی فوجی قیادت نے بھی ان تمام الزامات پر صاد کیا۔ پوری دنیا میں شرمندگی اٹھائی اور اس سوالیہ نشان کو خندہ پیشانی سے تسلیم کیا کہ اس نااہلی کے ساتھ یہ پاکستان کا دفاع کس طور پر کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی فوجی قیادت وقت پڑنے پر کس طرح دشمن کے سامنے بغیر مزاحمت کے گھٹنے ٹیک سکتی ہے۔
اگر میمو گیٹ اسکینڈل کی سماعت مناسب طور پر ہوجاتی تو پھر بھی کچھ صورتحال سامنے آسکتی تھی مگر اعلیٰ ترین عدلیہ نے اس واقعے کو جس طرح سرد خانے کی نذر کیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی عدلیہ کس طرح دیے گئے اسکرپٹ پر عمل کرتی ہے۔
ایبٹ آباد کا واقعہ سقوط ڈھاکا کے بعد پاکستان کے لیے سب سے بڑا شرمناک واقعہ ہے۔ اس واقعہ پر میڈیا ہاؤسز، سیاستداں، دانشور، صحافی، فوجی قیادت اور عدلیہ نے جو کردار ادا کیا وہ اس سے بھی زیادہ شرمناک ہے۔ صرف اس ایک واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی سازش کار کس حد تک کھیل پر قابو رکھتے ہیں اور ان کی کٹھ پتلیاں کس طرح ایک اشارے پر ناچتی ہیں۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش۔