جسارت الیکشن سیل:حکومت کی آئینی مدت 31مئی کو ختم ہورہی ہے ۔تجزیہ مسعود انور

216

موجودہ انتخابی نظام 1970 ء کا تسلسل ہے ۔ 1970ء سے لے کر اب تک 10مرتبہ انتخابات کا انعقاد ہوچکا ہے ۔گزشتہ انتخابات کے سوا پاکستان میں کبھی بھی انتخابات وقت پر نہیں ہوئے ۔ 1970ء کے بعد انتخابات کا انعقاد 1977ء میں ہی ممکن ہوسکا تھا ۔ اس کے بعد 1985ء میں انتخابات ہوئے ۔ اس کے بعد کوئی بھی حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرسکی ۔ اس کے بعد1985 ء میں ، پھر 1988ء میں ، پھر 1990 ء میں ، پھر 1993ء میں ، پھر 1997ء میں ، پھر 2002 ء میں ، پھر 2008 میں انتخابات کا انعقاد کیا تھا ۔ اس کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور 5 سال کے بعد 2013 میں انتخابات ہوئے ۔ اگر 2018 کے مجوزہ انتخابات وقت پر ہوگئے تو یہ پاکستانی تاریخ میں دوسری مرتبہ ہوگا کہ کسی حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور حکومت کی سبکدوشی کسی غیر آئینی طریقے سے عمل میں نہیں آئی ۔ آئین کے مطابق موجودہ حکومت کی اقتدار کی مدت 31 مئی 2018 کو ختم ہورہی ہے اوریکم جون 2018 ء سے نگراں حکومت کو اقتدار حوالے کردینا چاہیے ۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ نگراں حکومت کا قیام یکم جون سے قبل عمل میں نہ لایا جائے تاکہ احتساب یا تطہیر کے نام پر انتخابات کو ملتوی نہ کیا جاسکے ۔ اطلاعات کے مطابق پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے وفاق میں وزیر اعظم اور نگراں وزرائے اعلیٰ کے نام پر اتفاق کرلیا ہے جس کا اعلان 15 مئی کو کیا جائے گا۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق نگراں وزیر اعظم سپریم کورٹ کے سابق جج ہوں گے ۔ واضح رہے کہ نیب کے سربراہ کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج جاوید اقبال کا تقرر بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اتفاق رائے سے کیا تھا تاہم اب یہ دونوں پارٹیاں ہی جاوید اقبال سے ناخوش ہیں ۔ نگراں وزیر اعظم کی تقرری میں اب یہ دونوں پارٹیاں اس تلخ تجربے کا اعادہ نہیں چاہتی ہیں ۔ نگراں وزیر اعظم کے لیے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر احمد کا نام تجویز کیا تھا جبکہ تحریک انصاف نے اسٹیٹ بینک کے سابق سربراہ ڈاکٹر عشرت حسین ، سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اور سابق وفاقی وزیر تجارت عبدالرزاق داؤد کے نام تجویز کیے تھے تاہم مسلم لیگ ن اور خورشید شاہ دونوں نے ہی جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے پیش کردہ ناموں کو مسترد کر دیا ہے ۔ دونوں ہی پارٹیاں ایسا نگراں سیٹ اپ چاہتی ہیں جو برخوردار ہو اور ان کے لیے مسائل پید اکرنے کے بجائے ان کے مسائل کو ختم کرنے میں دلچسپی لے ۔ مسلم لیگ ن پنجاب میں اور پیپلز پارٹی سندھ میں ہی دلچسپی رکھتی ہیں اور یہیں سے اسکورنگ کے لیے کوشاں ہیں ۔ مسلم لیگ ن پنجاب سے اور پیپلز پارٹی سندھ سے کلین سوئپ کی خواہاں ہیں اور اس کے لیے بلا روک ٹوک کھلا میدان بھی چاہتی ہیں جہاں پر ان کے امیدوار وہ تمام حربے آزما سکیں جس سے ان کی جیت یقینی ہو ۔ نگراں سیٹ اپ کے ساتھ ہی قومی و صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوجائیں گی تاہم صدر اور سینیٹ موجود رہیں گے ۔ اس وقت صدر پاکستان مسلم لیگ ن کا ہے جبکہ سینیٹ پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں ہے۔