چین اور مسلمان

594

پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں چین کا ایک خاص تاثر ابھارا گیا ہے۔ یہ تاثر ہے ایک ایسی قوم کا جو اصول پسند اور انسان دوست ہے۔ چین ایک ایسا ملک ہے جو شروع ہی سے آہنی پردوں کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ دنیا چینی قوم کے بارے میں کچھ خاص نہیں جانتی۔ چین کے بارے میں ایک عام آدمی اتنا ہی جانتا ہے جتنا ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس تک پہنچا ہے۔ ذرائع ابلاغ چوں کہ مکمل طور پر قابو میں ہیں اس لیے مین اسٹریم میڈیا پر وہی کچھ سامنے آتا ہے جو نادیدہ طاقتیں چاہتی ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یورپ، امریکا اور روس، ساری طاقتیں ایک نکتہ و اسلام دشمنی، پر متفق ہیں، ایسے میں یہ سامنے آتا ہے کہ ایک ابھرتی ہوئی طاقت چین ایسی بھی ہے جو اصول پسند اور انسان دوست ہے تو مسلم دنیا میں چین کے لیے ایک نرم گوشہ پیدا ہوجانا فطری امر ہے۔
کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ چین کے معاملات پوری دنیا میں دیکھیے تو پتا چلتا ہے کہ پوری دنیا میں چین صرف ایک چیز میں دلچسپی رکھتا ہے اور وہ ہے اس کی تجارت۔ شام میں کیا ہورہا ہے، فلسطین کا المیہ کس نہج پر پہنچ چکا ہے، عراق پر حملہ کیوں کیا گیا، لیبیا کو کس جرم کی سزاد ی گئی، چین کی سرحدوں کے ساتھ افغانستان میں کیا کچھ ہورہا ہے، وغیرہ وغیرہ ان سب چیزوں سے چین کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ ہاں البتہ ایران پر پابندیاں عائد کردی جائیں تو موقع سے فائدہ اٹھا کر چین انتہائی کم داموں تیل ضرور خریدنے پہنچ جاتا ہے۔ اسے کوئی بھی انسان دوستی کے زمرے میں نہیں ڈال سکتا۔
چین کی انسان دوستی کو ہم چین کے اندر ہونے والی اسلام سے متعلق پالیسیوں سے ضرور جانچ سکتے ہیں۔ اس سے قبل روہنگیا کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ برما میں چین واحد طاقت ہے جو برمی حکومت پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ چینی حکومت کے اشارے پر برمی حکومت کی پالیسیاں اسی طرح تبدیل ہوتی ہیں جس طرح بھوٹان کی حکومت بھارتی حکومت کے اشارے پر چلتی ہے۔ مگر روہنگیوں کے المیے پر نہ صرف چین نے خاموشی اختیار کی بلکہ گزشتہ دس برسوں سے جاری مسلسل اس ظلم پر برمی حکومت کی اسی طرح پشت پناہی کی جس طرح امریکی حکومت اسرائیل کی کرتی ہے۔
اس وقت پورے چین کوعملاً مسلمانوں کے لیے ایک قید خانے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس کا خاص نشانہ جنوبی چین میں بسنے والے یوغور اور قازق نسل کے مسلمان ہیں۔ سنکیانگ سمیت پورے چین میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اسلامی تشخص کو اس طرح تبدیل کریں کہ چینی معاشرے میں ضم ہوسکیں۔ مساجد پر چین اور کمیونسٹ پارٹی سے محبت پر مبنی نعروں کے بڑے بڑے بینر آویزاں کریں۔ معاملات صرف یہیں تک محدود نہیں ہیں بلکہ لاکھوں مسلمانوں کو قید خانوں ڈال دیا گیا ہے۔ ان قید خانوں کو re-education centre کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں پر قید مسلمانوں کو ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی ایذائیں دی جاتی ہیں تاکہ وہ اسلام کی تعلیمات کو ترک کرنے پر آمادہ ہوسکیں۔ قید کے شکار ان مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ کھانے میں سور کے گوشت اور شراب کا ضرور استعمال کریں۔ ا سی طرح انہیں بلا نکاح جنسی تعلق پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔ چین میں اس طرح کے کم از کم چار مراکز قائم کیے جاچکے ہیں جب کہ مزید بھی قائم کیے جارہے ہیں۔ عرف عام میں تو انہیں اسکول کا نام دیا گیا ہے مگر چاروں طرف تاروں کی باڑھ اور ہمہ وقت گارڈز کی موجودگی کے ساتھ اس کے اندر قید افراد کو باہر والوں سے رابطہ توڑ کر اندر رکھنا بہت کچھ بتانے کے لیے کافی ہے۔
اس وقت چین میں سرکاری سطح پر سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف مواد کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کے معروف ٹول ٹوئٹر اور فیس بک پر چین میں پابندی عائد ہے۔ اس کے متبادل کے طور پر چین نے اپنے نئے ٹول متعارف WeChat اور Weibo متعارف کروائے ہیں۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر پابندی کے باعث چینی باشندے پوری دنیا سے کٹ گئے ہیں اور وہ صرف وہی دیکھنے اور سننے پر مجبور ہیں جو چینی حکومت منظور کرے۔ اس وقت چین میں دیگر ممالک کے سفارت خانے چینی حکومت کی معاونت سے مسلمانوں کے خلاف مہم چلانے میں مصروف ہیں جن میں اسرائیلی سفارت خانہ سب سے آگے ہے۔ ٹوئٹر کے متبادل Weibo پر اسرائیلی سفارت خانہ سب سے آگے ہے۔ اس کے 19 لاکھ فالورز ہیں جنہوں نے اس کے پیج کو سبسکرائب کیا ہوا ہے۔
اسرائیل کے اثر رسوخ میں 2014 میں شمعون پیریز کے دورے کے بعد سے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ شمعون پیریز کے دورے کو چینی حکومت نے انتہائی اہمیت دی تھی جب کہ اس کے بعد سے دونوں ممالک کا ہنی مون اپنے جوبن پر ہے۔ اب تک اسرائیلی سفارت خانے کی جانب سے یروشلم میں سفارت خانے کے قیام کے اعلان کو سب سے زیادہ لائک ملے جب کہ اس کے بعد والے پیغام “Put the boot into the cancer of humanity” کو اس سے بھی زیادہ پزیرائی ملی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چینی عوام کی کس طرح برین واشنگ کی جارہی ہے۔ چینی حکومت کی پالیسیاں تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں تاہم اب تک چینی عوام مسلمانوں کے حامی نہیں تھے تو مخالف بھی نہیں تھے۔ اب ذہنی طور پر چینی عوام کو مسلمانوں کے خلاف اسی طرح تیار کیا جارہا ہے جس طرح اسرائیل میں کیا گیا ہے۔ اسرائیل میں رہنے والے یہودیوں کے نزدیک مسئلے کا واحد حل تمام مسلمانوں کا بے رحمانہ انداز میں قتل عام ہے۔ اسی پر برما میں بھی عمل کیا جارہا ہے جس پر پوری دنیا کی آنکھیں بند ہیں۔
اب صورت حال کو دوبارہ سے دیکھیں۔ چین کو نئے عالمی نقشے میں آقا کا منصب عطا کیا گیا ہے۔ ایک حکمت عملی کے تحت چین کو پوری دنیا پر کنٹرول دینے کے لیے کہیں پر کوئی بھی مزاحمت نہیں ہے بلکہ اسے واک اوور دے دیا گیا ہے۔ پرانی طاقتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار کردی گئی ہیں۔ نیو ورلڈ آرڈر میں زمام اقتدار چین کے ہاتھ میں دی گئی ہے۔ ایسے میں اس طاقت کا مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو اسرائیل اور برما میں ہے۔ صورت حال کو ذرا غور سے دیکھیں تو معاملات سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔