کیا فلسطین میں گیم رولز تبدیل ہورہے ہیں؟

318

غزالہ عزیز
رمضان کے مہینے میں غزہ پر اسرائیل نے میزائلوں کی بارش برسا دی۔ اسکولوں، امتحانی مراکز پر بمباری کی، متعدد طلبہ زخمی ہوئے۔ فلسطینی وزارتِ تعلیم کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غزہ میں اسکولوں، امتحانی مراکز اور اسپتالوں کو بمباری سے تباہ کررہی ہے۔ اور پھر 29 مئی 2018ء کے دن اسرائیلی فوج نے فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر درجنوں مقامات پر میزائل حملے کیے، ان حملوں کے جواب میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے بھی اسرائیلی فوجی کیمپوں اور یہودی کالونیوں پر راکٹ باری کی۔ اس موقع پر مصر کی طرف سے فوری مداخلت کی گئی اور فریقین جنگ بندی پر آمادہ ہوگئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اسرائیل فوری طور پر مصر کی جنگ بندی کی تجویز کو کیوں قبول کرلیتا ہے۔ تجزیہ کار اور تبصرہ کاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی طرف سے پہلے ہی راکٹ حملوں کے ذریعے اسرائیلی ریاست کو یہ پیغام دے دیا گیا کہ غزہ کی مجاہدین قابض فوج اور اس کے انٹیلی جنس اداروں کے اندازوں سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ہیں۔ اگرچہ فلسطینی مجاہدین نے 2014ء میں بھی اسرائیلی افواج کے دانت کھٹے کیے تھے لیکن اس دفعہ زیادہ سرعت کے ساتھ انہوں نے دشمن پر اپنا رعب بٹھایا جس کی وجہ سے اسرائیل فوری طور پر جنگ بندی پر آمادہ ہوا۔
دیکھا جائے تو جنگی ہتھیاروں اور فوجی طاقت کے لحاظ سے غزہ کے مزاحمت کاروں اور اسرائیل کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن بقول فلسطینی تجزیہ نگار ’’ایمن الرفانی‘‘ مزاحمتی قوتوں نے حقیقی معنوں میں صہیونی ریاست کی منظم جارحیت کے مقابلے میں متوازن انداز میں جوابی کارروائی میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اسرائیلی فوج کو پسپا ہونا پڑا‘‘۔
اسرائیلی رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی فوج میں مورال کو بہتر بنانے کے نئے پلان پر جنوری 2018ء سے عمل درآمد شروع کیا جائے گا۔ اسے ’’فوج میں عسکری خدمت کے جذبے کی بحالی کی کوششیں‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اسرائیلی اخبار جو عبرانی زبان میں نکلتا ہے ’’یسرائیل ھپوم‘‘ کے مطابق اسرائیلی فوج کی طرف سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ مسلسل تین سال سے فوج سے فرار اختیار کرنے والے اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ عبرانی اخبار کے مطابق رواں سال کے دوران فوج سے فرار ہونے کے رجحان میں پچھلے دس سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ دس سال پیش تر بھرتی ہونے والے یہودی نوجوانوں کی 80 فی صد تعداد لڑاکا یونٹوں میں بھرتی ہونے میں دلچسپی رکھتی تھی۔ اب سرے سے فوج ہی سے فرار اختیار کررہے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ فوج کی جانب سے ایک نئے بھرتی پلان کے تحت گیارہویں اور بارہویں جماعت کے طلبہ کو بھرتی کرنے کے لیے منصوبے میں ان میں سے بڑی عمر کے نو ہزار نوجوانوں کو مستقل بنیادوں پر بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن رپورٹ کے مطابق بڑی تعداد میں فوج میں بھرتی ہونے کے باوجود آخر میں تربیت مکمل کرنے اور یونٹوں میں جانے والے اہلکاروں کی تعداد 22 سے 28 افراد کے درمیان ہوتی ہے۔
حقیقت میں مزاحمت کاروں کی کارروائی نے بقول صہیونی ذرائع ابلاغ سیکورٹی اداروں اور اسرائیلی حکومت کو حیران پریشان کردیا ہے۔ اسرائیلی اخبارات اور ذرائع ابلاغ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ حماس نے عرب اردن میں جنگ کا توازن اور ’’گیم رولز‘‘ تبدیل کردیے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’فلسطینی مزاحمت کاروں کی تمام کارروائیوں کے پس پردہ حماس کی حربی حکمت عملی کارفرما ہے‘‘۔ رواں سال اب تک عرب اردن کے شہروں میں یہودی آبادکاروں اور فوجیوں پر بندوق سے فائرنگ کے 26 واقعات پیش آچکے ہیں۔ لگتا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے چاقو کے ذریعے حملوں کی کارروائیوں کی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے اب باقاعدہ بندوق کا استعمال شروع کردیا ہے۔ بندوق کے استعمال کی پالیسی نے عرب اردون میں ’’گیمز رولز‘‘ تبدیل کردیے ہیں اور اسرائیلی فوج کو مزاحمتی قوتوں کے بارے میں اپنی سوچ تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے۔
دوسری طرف غزہ کی پٹی پر جولائی اور اگست 2014ء کی جنگ کے بارے میں اسرائیل کے ’’اسٹیٹ کنٹرولر‘‘ کی رپورٹ نے صیہونی ریاست کی سیاسی حکومت فوج اور انٹیلی جنس حلقوں کے بارے میں ایک بھونچال پیدا کردیا ہے۔ رپورٹ میں غزہ جنگ کے مطابق اس وقت کے اسرائیل کے پروپیگنڈے کے تارپود بکھیر کر رکھ دیے ہیں۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں 2014ء کی جنگ میں اسرائیل کو شرمناک ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے فتح اور کامرانی سے متعلق جتنے بھی دعوے کیے وہ من گھڑت اور جھوٹ کا پلندہ تھے، حقیقی معنوں میں اس جنگ میں فلسطینیوں کا جانی نقصان زیادہ ہوا مگر یہ جنگ ہر اعتبار سے اسرائیل نے نہیں فلسطینیوں نے جیتی۔
غزہ پر موجودہ اسرائیلی کارروائی کے بعد امریکا نے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے، اس سے قبل کویت نے بھی ممکنہ جنگ کے پیش نظر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی کمیشن کے قیام کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ مگر اس سلسلے میں یہ خدشہ ہے کہ امریکا میں پیش کی گئی قرار داد کو اسرائیل کے حق میں ویٹو کردے گا جیسا کہ وہ کرتا رہا ہے۔ بہرحال مذاکراتی میزوں کی نسبت میدان جنگ میں فلسطین نے اسرائیلی منظم فوجی کارروائیوں کے مقابلے میں متوازن انداز میں جوابی کارروائیوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کامیابی کی ایک بڑی وجہ ان کی صفوں میں اتحاد ہے۔ حالیہ اسرائیلی راکٹ حملوں کا اعتراف اسلامی جہاد اور حماس نے مشترکہ طور پر کیا ہے۔ ساتھ ہی اُن کا کہنا ہے کہ اگر جارحیت کا سلسلہ جاری رہا تو وہ اسرائیل کو گہرائی میں جا کر نشانہ بنانے کی قدرت رکھتے ہیں۔ فلسطینی قوم کی بہادری کو سلام جو بے سرو سامانی کے عالم میں ایٹمی ہتھیاروں اور ہر طرح کے جدید جنگی سازوسامان سے لیس یہودی ریاست سے نبرد آزما ہے۔
وہ چمن جس کو غنیموں نے خزاں بخت کیا
اُس کے بارے میں کوئی اچھی خبر لایا ہے