نسیان

748
حکیم راحت نسیم

بھول جانے کے مرض کو زبان طب میں نسیان کا نام دیا جاتا ہے۔ اس مرض میں قوت حافظہ تحلیل ہو جاتی ہے۔ جس میں کسی ملنے والے کا نام بھول جاتا ہے یا کسی کو دی ہوئی چیز یاد نہیں رہتی بعض اوقات کوئی اہم دفتری یا گھریلو بات بھول جاتی ہے۔ نسیان کی دو قسمیں ہیں۔ ایک پیش روان نسیان جس میں نئی معلومات دماغ میں محفوظ تھیں۔ نسیان اول ذکر قسم بہت مصیبت جاں ہوتی ہے اکثر کسی ضروری کام کے لیے کسی سے وقت طے کیا مگر وقت پر یاد نہیں رہتا یا کسی دوست کا نام یا ٹیلی فون نمبر اور پتہ بھول جاتا ہے۔ دوسری قسم میں اس مرض سے قبل جو واقعات پیش آئے تھے یعنی کسی سے رقم لینی تھی کسی قسم کا وعدہ یا معاہدہ ہوا تھا وہ یاد نہیں رہتا۔
نسیان کے اسباب میں دماغی کمزوری جو دماغ میں چوٹ لگنے سے ہی ہو سکتی ہے یا کسی قسم کی غیر معمولی ذہنی پریشانی، دباؤ وغیرہ ہوتے ہیں اس کے علاوہ کچھ جسمانی اسباب جن میں خون کے سرخ ذرات کی کمی، شدید قسم کی نکسیر، نزلہ زکام جو دائمی نوعیت کا ہو یا کسی سبب خون کا زیادہ بہہ جانا یا دماغ کے اس حصہ میں چوٹ جہاں یادداشت محفوظ ہوتی ہے، ہو سکتی ہے۔ ہمارے دماغ میں کئی حصے ایسے ہیں جن کا تعلق واقعات کو جمع کرنے اور پھر یاد رکھنے سے ہے۔ ان حصوں کا تعلق زبان اور گفتگو سے بھی ہوتا ہے۔ اس کا باعث دماغی چوٹ جس سے اکثر لوگوں کی یادداشت میں فرق آتا ہے۔ اس تکلیف دہ اور پریشان کن مرض سے نجات کے لیے سب سے پہلے اسباب معلوم کئے جائیں اگر کوئی جسمانی عارضہ ہے تو اس طرف متوجہ ہوں۔ اگر ذہنی دباؤ یا کسی پریشانی کے باعث ایسا ہے تو سب سے پہلے ان امور کا ذہن سے بوجھ اتاریں اور ذیل کی تدابیر پر عملی پیرا ہوں۔
1 ۔ صرف ضروری اور اہم باتوں کو ذہن میں رکھنے کی کوشش کریں۔
2 ۔ غیر ضروری باتوں اور امور کو نظر انداز کریں۔
3 ۔ خوش و خرم اور چاک و چوبند رہیں۔
4۔اپنی عمومی زندگی کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں۔
5۔روزانہ کے اپنے معمولات ترتیب دیں۔
خوش آئند ماحول میں یادداشت بہت کام کرتی ہے۔ دل پسند نظم یا بات جلد یاد ہو جاتی ہے۔ جس چیز کو یاد رکھنا ہو اس کو بار بار دھرائیے، اس طرح یادداشت مضبوط و دیرپا ہوگی۔ یاد رکھنے والوں کو ایک خاص ترتیب سے ذہن میں رکھئے اس طرح وہ کبھی فراموش نہ ہوں گے۔
جو چیزیں زیادہ ضروری ہوں وہ تحریر کر لیا کریں۔ اس طرح دماغ پر بوجھ بھی کم ہو گا اور بار بار پڑھنے سے اچھی طرح ازبر ہو جائیں گی۔
بعض دفعہ زیادہ تھکان بھی حافظے کو متاثر کرتی ہے۔ مناسب نیند اور آرام سے حافظہ قوی ہوتا ہے۔ بلکہ اس طرح خود اعتمادی بھی بڑھتی ہے۔ معروف فلسفی شو پنہار کہتا ہے کہ نیند انسان کے لیے ایسے ہی ہے جیسے گھڑی میں چابی بھرنا۔
نیند کو قدرت نے ہر ذی روح کے لیے ضروری قرار دیا ہے کہ اس سے تلف شدہ قوتیں ازسرِ نو بحال ہو جاتی ہیں۔ دن بھر کے کاموں سے تھک جانے سے اکثر رات کو حافظہ کمزور ہو جاتا ہے۔ اور بھرپور نیند کے بعد صبح تازہ دم ہو جاتا ہے۔ دوائی تدبیر کے طور پر صبح نہار منہ مغز بادام شیریں دس عدد رات کو بھگو کر صبح چھیل کر دودھ سے چبا کر کھا لیا کریں اور سہ پہر کو طب مشرقی کا معروف مرکب مفرح مشکیں3 گرام کھا لیا کریں۔
مچھلی کا استعمال کرنے سے بھی ذہنی استعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ کیونکہ زیادہ چربی اور نشاستہ دار غذا بھی ذہنی صلاحیتوں کو دبا دیتی ہے، جب انسان دباؤ میں ہوتا ہے، اس پر پریشر ہوتا ہے تو ذہنی صلاحیتوں میں وقتی طور پر کمی واقع ہوتی ہے، لہٰذا ہر وقت اپنے آپ پر دباؤ طاری نہ رکھیں اور ریلیکس موڈ میں رہیں تو آپ کے ذہن کو جلا ملے گی۔ ورزش اور سیر کی عادت بشرطیکہ کسی باغ کے اندر سیر کی جائے تو دماغی تقویت کا باعث بنتی ہے اور انسان کا ذہن تازہ ہو کر سوچے تو کسی فیصلہ میں آسانی ہوتی ہے، ہماری خوراک سے جو گلوکوز تیار ہوتا ہے اس کا 70 فیصد ہمارا دماغ استعمال کرتا ہے۔
سبزیوں اور خاص طور پر آلو کا استعمال دماغی صلاحیتوں میں اضافہ کرتا ہے اسی طرح جگر اور گردوں کا کبھی کبھی خوراک میں استعمال بھی دماغ کے لیے مفید ہے، جبکہ سویابین میں یہ ہر دو اشیا موجود ہیں اسی طرح پالک اور آلو میں بھی یہ پائی جاتی ہیں۔ وٹامن بی کمپلیکس بھی انسانی یادداشت کو بڑھاتے ہیں یہ ڈیری کی مصنوعات میں دستیاب ہوتے ہیں اس طرح مچھلی، انڈوں اور سبزیوں میں بھی بی کمپلیکس وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔
چربی والی اشیاء4 اور گھی کا کثرت سے استعمال ذہنی صلاحیتوں میں کمی پیدا کرتے ہیں۔ آپ کا ماحول، موسم، گرد و غبار، آلودگی، شور اور بے اطمینانی کی کیفیت بھی ذہنی صلاحیتوں کو زنگ لگانے کے لیے کافی ہیں، بوکھلاہٹ پیدا نہ ہونے دیں گھر یا دفتر کی ہر چیز کو اس کی مقرر کردہ جگہ پر رکھیں، جہاں سے وہ بوقت ضرورت فوراً آپ کو مل سکے، جہاں پر آپ کام کر رہے ہیں اس کمرے کی دیواروں پر خوبصورت لین سکیپ اور ہرے بھرے درختوں کی تصاویر لگائیں۔ اس سے آپ کی روح اور ذہن کو تقویت ملتی رہے گی اور آپ آسودگی کے ساتھ کام کر سکیں گے اور آپ کا ذہن مرتکز رہے گا۔ جس کرسی پر آپ بیٹھے ہوئے ہیں دیکھیں وہ آرام دہ ہے یا آپ کو بیزار کر رہی ہے ؟ کیا وہ آپ کے کام میں مزاحم تو نہیں ہو رہی ؟ اگر ایسا ہے تو اسے بدلیں، ورنہ یکسوئی سے کام نہ ہو سکے گا۔ جو میز آپ استعمال کرتے ہیں اگر اس کا رنگ سیاہ ہو گا یا گہرا ہو گا تو آپ پر دباؤ کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے اس لیے اس کا رنگ ہلکا ہونا چاہئیے، زیادہ شوخ اور تیز رنگ آنکھوں پر بوجھ ڈالتے ہیں جس سے آپ کا دل و دماغ اور ذہن متاثر ہو کر خراب کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔
ایسی جگہ پر بیٹھ کر کام نہ کریں کہ روشنی آپ کی آنکھوں پر پڑے بلکہ روشنی پچھلی جانب سے آنی چاہئیے ورنہ آپ ڈسٹرب ہوں گے اور آپ کا ذہن بھی صحیح طور پر کام نہ کر سکے گا، جس کرسی پر آپ براجمان ہیں اس کی پشت ایسی ہونی چاہئیے کہ آرام دہ محسوس ہو، بیٹھنے کا ڈھنگ ایسا ہونا چاہئیے کہ آپ جھک کر نہ لکھیں، کمر کو بالکل سیدھا رکھیں، کمرے میں تازہ ہوا کی آمدورفت آپ کے ذہن کو تر و تازہ کرے گی اور آپ اپنی بہترین صلاحیتوں سے کام کو نمٹا سکیں گے، کمرے کے دروازے کی طرف پشت کر کے مت بیٹھئے۔ آپ کی کرسی اس طرح ہونی چاہئیے کہ آپ کے پیچھے دیوار ہو اس سے یہ سہولت رہے گی کہ دروازے سے اندر آنے والے کو آپ فوری اور بخوبی دیکھ سکیں گے، ورنہ بار بار آپ کو گردن گھما کر دروازے کی جانب دیکھنا پڑے گا، جس سے آپ ڈسٹرب ہوں گے اور آپ کا کام متاثر ہوگا۔ آپ کا ذہن کام کرنا چھوڑ دے گا اور آپ اس طرح سارا دن پریشان رہیں گے۔
کام کے دوران تھوڑی دیر کے لیے سستا لیں، آنکھیں بند کر کے چند منٹوں کے لیے کام کو بھول کر فارغ اور خالی الدماغ ہو جائیں، اس طرح رہیں تو کبھی تھکیں گے نہیں بلکہ تازہ دم رہیں گے اور آپ کی ذہنی صلاحیتیں اجاگر رہیں گی۔ سستانے سے ذہنی دباؤ میں بھی کمی واقع ہو گی اور اس کے بعد بہترین صلاحیتوں کے ساتھ فرائض منصبی انجام دے سکیں گے۔