پنچ کہیں بلی تو بلی سہی

356

چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سندھ میں پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں گورننس نام کی کوئی شے نہیں۔ چیف صاحب کی اس بات پر مجھے اپنے بچپن کی ایک بات یاد آگئی۔ بس میں سفر کے دوران کسی بزرگوار نے مجھ سے پوچھا کہ صاحب زادے کیا بجا ہے۔ ان کا سوال سن کر میری رگ ظرافت پھڑک اٹھی۔ میں نے کہا جناب آپ جو بھی فرمائیں بجا ہے۔ اس جواب پر بعد کی کہانی کیا سے کیا بنی وہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں یہاں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ چیف صاحب آپ جو بھی کہتے ہیں اس کو کون بے جا کہہ سکتا ہے۔ چند ہفتوں قبل کی بات ہے جب آپ نے اپنی عادت کے مطابق کراچی کے دورے کے دوران ارشاد فرمایا تھا کہ کراچی میں صفائی کی صورت حال نہایت ناقص ہے اور سندھ حکومت کو وارننگ دی تھی کہ وہ چند دنوں میں کراچی کا سارا کچرا اٹھالے ورنہ ان کے خلاف کوئی اور کارروائی کرنا پڑے گی۔ کراچی میں کچرے کی صورت حال کوئی اسی وقت خراب نہیں ہوئی تھی جب آپ نے وہاں کا دورہ کیا بلکہ یہ صورت حال تو اس وقت سے خراب ہونا شروع ہوگئی تھی جب پی پی پی کے دور میں پورے بلدیاتی نظام کو یہ کہہ کر تباہ کر دیا تھا کہ یہ نظام ایک فوجی جرنیل کا بنایا ہوا ہے اس لیے ہم اس نظام کا قلع قمع کرکے رکھ دیں گے اور پھر قوم نے دیکھا کہ پورے پاکستان میں اس نظام کو اس بری طرح تباہ و برباد کیا گیا کہ صرف کراچی ہی نہیں پورا پاکستان گندگی کا ڈھیر بن گیا لیکن آپ کی عدالت کی ناک میں اس کچرے کی ’’بو‘‘ تک نہ پہنچی۔ سیاست دانوں کو علم تھا کہ کچھ بھی ہو اس نظام کو جلد یا بدیر بحال تو کرنا ہی پڑے گا لہٰذا اپنی واضح اکثریت کا فائدہ اٹھا کر (خاص طور سے سندھ اور پنجاب میں) انہوں نے مقامی حکومت کے قوانین کا اس بری طرح پوسٹ مارٹم کیا کہ قانون کے بدن کے چیتھڑے بکھیر کر رکھ دیے اور مقامی حکومت کے منتخب اراکین کو بھنگیوں سے بھی بدتر کر کے رکھ دیا۔ ایسے عالم میں آپ کا انصاف جاگا اور حکم ہوا کہ انتخابات کرائے جائیں۔ پاکستان کے تمام دانشوروں نے آپ کے انصاف کو پکارا اور مقدمہ کیا کہ انتخابات سے قبل جن اختیارات کی شکل و صورت بگاڑ کر رکھ دی ہے ان کو اجالا جائے لیکن ان تمام درخواستوں کو بیک جنبش قلم مسترد کردیا گیا۔ تمام تر بے اختیاری کے ساتھ منتخب مقامی حکومتوں سے کارکردگی کا مطالبہ بھی آپ ہی کی جانب سے مسلسل آتا رہا لیکن ایک مرتبہ بھی اس بات پر غور نہیں کیا گیا کہ آخر بے اختیاروں سے حساب کتاب طلب کرنا کہاں کا انصاف ہوگا؟۔
کراچی ویسے ہی کچرے کا ڈھیر تھا لیکن جب آپ نے آکر کہا کہ کراچی کچرستان بنا ہوا ہے تو گویا آپ نے مہر تصدیق ثبت کردی لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ آپ نے ایک اور دورہ کیا اور کراچی کی صفائی ستھرائی پر سندھ حکومت کی تعریفوں کے وہ پل باندھے اور کراچی کو ایسا صاف ستھرا شہر قرار دیا کہ یورپی ممالک بھی شک میں پڑ گئے کہ ان کے شہر تو دھول مٹی بھی نہیں۔ آپ نے میئر کے بجائے مراد علی شاہ کی تعریفوں کے پہاڑ کھڑے کر دیے۔ اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’بجا وہی ہے جو آپ فرمائیں‘‘۔ لائق دار ٹھیرے جو ’’بیجا‘‘ کہنے کی گستاخی کرے۔
مائی باپ جو چاہے فرما سکتے اور جس لب و لہجے میں چاہیں سامنے والے کو مخاطب کر سکتے ہیں۔ فرماتے ہیں حالاں کہ اعلیٰ طرفوں کو اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ ہی اچھا لگتا ہے فرماتے ہیں ’’سابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کہاں ہیں؟ وہ کراچی میں ہیں تو انہیں بلاکرکارکردگی کا پوچھیں۔ مراد علی شاہ نے ذمے داری ادا نہیں کی، کیا مراد علی شاہ پھر الیکشن لڑ رہا ہے؟ ذمے داری ادا نہ کرنے والا الیکشن کے لیے کیسے اہل ہوسکتا ہے؟ کہاں ہے مراد علی شاہ بلاؤ اسے، یہاں کوئی کام کرنے کو تیار نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس طرح مراد علی شاہ کی کارکردگی ہے کیا وہ اگلا الیکشن بھی لڑرہے ہیں؟ سندھ اور دیگر صوبوں کی کارکردگی میں واضح فرق نظر آتا ہے‘‘۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مراد علی شاہ کی وہ کارکردگی نہیں رہی جو ایک بااختیار وزیراعلیٰ کی ہو سکتی تھی لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ کیا مراد علی شاہ ان کے چیف بننے سے قبل سندھ کی وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے تھے؟۔ جس وقت وہ وزارت علیا کی کرسی پر متمکن تھے یہ بات تو اس وقت کرنے کی تھی۔ جب سانپ گزرجائے تب لکیر پیٹنے کا کبھی کسی کو بھی فائدہ ہوا ہے؟۔ البتہ ایک بات انہوں نے بہت ہی عمدہ کہی کہ ایک ناکارہ و نااہل فرد کو الیکشن لڑنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا سب سے بڑا جج جب ایک فرد کو نااہل قرار دے چکا ہے اور وہ کسی بھی سطح پر اس کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تو اب فقط اتنا دیکھنا ہے کہ یہ زبان واقعی کسی منصف اعلیٰ کی ہے یا کسی سیاسی لیڈر کی جس کے منہ میں ہمیشہ دو دو تین تین زبانیں ہوتی ہیں اور وہ ساری کی ساری زہر میں بجھی جھوٹ ہوتی ہیں، مکر ہوتی ہیں اور سراسر فریب ہوتی ہیں۔
عدالتی کارروائی کے دوران چیف جسٹس نے مزید کہا کہ: ’’عدالت عظمیٰ نے شہر سے تمام آئل ٹینکرز 4 روز میں منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں ذوالفقار آباد منتقلی سے متعلق عدالتی حکم کے بعد میئر کراچی اور آئل ٹینکر ایسوسی ایشن کے نمائندوں کے دورے کے بعد عدالت عظمیٰ میں رپورٹ پیش کی گئی جہاں چیف جسٹس کا دوران سماعت کہنا تھا کہ دیکھتا ہوں ملک میں قانون کی بالادستی میں کون رکاوٹ بنتا ہے۔ کسی کو ملک کا پیسہ کھانے نہیں دوں گا۔ میئر کراچی نے کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں کہا گیا کہ ذوالفقار آباد آئل ٹرمینل تیار ہے۔1300ٹینکرز پارک کرنے کی گنجائش ہے‘‘۔ عدالت کا ایسا ہی حکم آج سے کافی مدت قبل بھی سامنے آیا تھا جس پر کچھ عرصہ کے لیے تو عمل کیا گیا تھا لیکن جیسا ہوتا آیا ہے شاید وہی کیا گیا تھا کہ بلا (حکم) کسی طرح ٹال دی جائے سو ایسا ہی کیا گیا ہوگا۔ چیف صاحب کا دوبارہ اسی قسم کا حکم جاری کرنا اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ پاکستان میں ہر کام ایسا ہی کوئی منظر پیش کررہا ہوتا ہے۔ چیف صاحب نے کہا صفائی کرو، کردی۔ کہا ناجائز تعمیرات ڈھادو، ڈھادی گئیں۔ کہا ٹینکرز شہر سے باہر نکالو وہ بھی دکھانے کے لیے نکال دیے گئے۔ حکم جو تھا عمل کردیا لیکن اس حکم میں یہ بات کب شامل تھی کہ صفائی کرنے کے بعد پھر بھی صفائی جاری رکھنی ہے، ناجائز تعمیرات ڈھانے کے بعد دوبارہ تعمیرات نہیں کی جا سکتیں، بل بورڈ ہٹانے کے بعد دوبارہ نہیں لگائے جاسکتے اور ٹینکرز شہر سے باہر نکال دیے جانے کے بعد دوبارہ شہر میں داخل نہیں کیے جاسکتے؟۔ حکم تھا مان لیا گیا تھا دوبارہ حکم جاری ہوا ہے تو حاضر سائیں جو آپ کا حکم۔ قانون کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود قانون یا پھر بار بار کا عدالتی حکم ہی ہے۔ ایک حکم کے بعد اسی حکم کو دوبارہ جاری کرنے کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا کہ پہلے والا حکم منسوخ تصور کیا جائے۔ جب احکامات جاری کر دیے گئے تھے تو پھر حکم نہیں توہین عدالت کا قانون لاگو ہوتا ہے اگر توہین عدالت کا حکم جاری کرنے کے بجائے حکم پر ایک اور حکم دیا جارہا ہو تو عدالت کو دوسروں سے قبل خود اپنے متعلق غور کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔
چیف جسٹس کے تمام اقدامات قابل داد اور لائق تحسین سہی سندھ کے عوام کو ان سے یہ سوال کرنے کا پورا پورا حق ہے کہ آج سے تقریباً چار سال قبل جب پورے پاکستان میں نیکٹا اور ضرب عضب کے تحت آپریشن کیا جارہا تھا تو پاکستان میں سب سے زیادہ دباؤ سندھ حکومت پر ہی تھا اور ہر روز ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے سندھ حکومت کا کسی بھی وقت دھڑن تختہ ہو سکتا ہے اور گورنر راج لگایا جاسکتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب قائم علی شاہ سندھ کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔ اس زمانے میں سندھ کے وڈیروں کی زمینوں سے دو دو سو کلو سونا بر آمد ہوا کرتا تھا۔

کھربوں روپوں کی نقد کرنسیاں برآمد ہوا کرتی تھیں اور سندھ میں جانے والی رینجرز کی پارٹیوں کو گھیر کر ان کی وردیاں اور اسلحہ چھین لینے کے بعد ان کی چھترول کرکے بھیج دیاجاتا تھا۔ جب شرجیل میمن جیسے لوگوں کے گھروں سے قارون کے خزانے نکلا کرتے تھے۔ ایان علیائیں رنگے ہاتھوں پکڑی جاتی تھیں اور کراچی میں رینجرز کو مزید ’’90‘‘ دن کی توسیع کے لیے اپنی آنکھیں لال پیلی کرنا پڑتی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ ان حالات میں ’’مسٹر ٹین پرسینٹ‘‘ گھبرا کر ’’اینٹ سے اینٹ‘‘ بجانے کی دھمکیاں دیتے پھرتے تھے۔ لیکن ہوا یوں کہ اچانک سندھ کا وزیر اعلیٰ بدل گیا اور اقتدار ایک شاہ سے دوسرے شاہ تک منتقل ہوگیا۔ مراد علی شاہ کا آنا تھا کہ نہ کسی کو دو دو سو کلو سونا یاد رہا، نہ کھنکھناتے نوٹ کورے نوٹ اور نہ ایان علیائیں اور نہ ہی اینٹ کا جواب پتھر سے دینا بلکہ ایسا لگا کہ سندھ کے تمام وڈیرے اور حکومت پر بیٹھے سارے چہرے نورانی ہو گئے ہوں۔ وہ دن اور آج کا دن، کسی نے پلٹ کر ان سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ اچانک ابلیس سے فرشتہ صفت کیسے ہو گئے؟۔ کیا سندھ حکومت پر دباؤ محض اس لیے تھا کہ وہاں کا وزیر اعلیٰ و گورنر پسند نہیں تھے یا پھر کوئی اور راز؟۔ اب اگر میں اس کو لین دین کی اعلیٰ ترین مثال سمجھ بیٹھوں اور اس کا اظہار بر سر محفل یا بازار کر بیٹھوں تو لائق طوق و سلاسل قرار دیا جاؤں۔ بے شک ہر عام و خاص کو یہ سوال چیف صاحب سے ضرور پوچھنا چاہیے لیکن میں اس سوچ میں ہوں کہ ہم میں سے وہ کون سا چوہا ہے جو بلی کے گلے میں گھنٹی لٹکانے کی جرأت کر سکتا ہے۔