الیکشن کمیشن نے قواعد کو بالائے طاق رکھ کر بلاول زرداری کو تیر کا نشان دیدیا

279

کراچی (رپورٹ: مسعود انور) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کو الیکشن کمیشن نے قواعد کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے تیر کا انتخابی نشان الاٹ کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ تیر کا انتخابی نشان پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرینز کو الاٹ کیا جاچکا ہے اور انتخابی قواعد کے مطابق ایک سیاسی پارٹی کا انتخابی نشان دوسری پارٹی کے کسی امیدوار کو نہیں دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمینٹیرینز کا قیام 2002ء میں مخدوم امین فہیم کی قیادت میں
اس وقت عمل میں لایا گیا تھا جب پرویز مشرف نے پیپلز پارٹی اور اس کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو پر پابندی عاید کردی تھی۔ اس وقت سے پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرینز ہی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ چلی آرہی ہے اور اس کے پاس تیر کا انتخابی نشان ہے۔ بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کروا لیا گیا تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس تیر کا انتخابی نشان نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے کاغذات میں یہ 2 الگ الگ پارٹیاں ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری، سیکرٹری جنرل فرحت اللہ بابر، فنانس سیکرٹری سلیم مانڈوی والا اور سیکرٹری اطلاعات مولا بخش چانڈیو ہیں جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری، سیکرٹری جنرل سید نیئر حسین بخاری، فنانس سیکرٹری حیدر زماں نورانی اور سیکرٹری اطلاعات چودھری منظور احمد ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے انتخابات جنوری 2017ء میں عمل میں لائے گئے تھے جس میں 4 سال کی مدت کے لیے عہدے داران کا انتخاب کیا گیا۔ 29 مئی کو بلاول زرداری کی زیر قیادت پاکستان پیپلز پارٹی نے تلوار کا روایتی نشان الاٹ کرنے کے لیے اصرار کیا تھا۔ تلوار کے نشان کے لیے ناہید عباسی کی پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز سمیت دیگر 4 پارٹیوں نے بھی اپیل کی تھی تاہم الیکشن کمیشن نے پاکستان پیپلز پارٹی کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل نیئر حسین بخاری نے کہا تھا کہ تلوار کے انتخابی نشان پر ہمارا حق ہے کیوں کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا انتخابی نشان تھا۔ ماہرین کے مطابق 2 یا زائد پارٹیوں کے امیدواروں کو ایک ہی انتخابی نشان اس وقت الاٹ کیا جاتا ہے جب یہ پارٹیاں یا تو ضم ہوجائیں یا پھر کوئی اتحاد تشکیل دیں۔ ضم ہونے کی صورت میں صرف ایک پارٹی باقی رہ جاتی ہے جبکہ بقیہ پارٹیوں کی رجسٹریشن منسوخ کردی جاتی ہے جبکہ اتحاد تشکیل دینے کی صورت میں اتحاد کا نیا نام سامنے آتا ہے جیسا کہ انتخابات 2018ء کے لیے متحدہ مجلس عمل اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس تشکیل دیے گئے ہیں۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں یہ پارٹیاں ایک دوسرے کے امیدواروں کی حمایت تو کرتی ہیں مگر امیدوار اپنی اپنی پارٹی کے انتخابی نشان پر ہی الیکشن لڑتے ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ انتخابات میں کراچی میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ تھی تاہم تحریک انصاف کے امیدواروں کا انتخابی نشان بلا اور جماعت اسلامی کا انتخابی نشان ترازو تھا۔ آئندہ عام انتخابات میں بلاول زرداری پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں اور تیر پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمینٹیرینز کا رجسٹرڈ انتخابی نشان ہے۔ اس طرح قواعد کے مطابق بلاول زرداری کو تیر کا انتخابی نشان نہیں الاٹ کیا جاسکتا ہے تاہم دونوں پارٹیوں کا کہنا ہے کہ عوام جانتے ہیں کہ دونوں پارٹیاں ایک ہی ہیں اس لیے ہم ایک ہی انتخابی نشان سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ قانونی ماہرین نے اسے قواعد کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بات چاہنے یا نہ چاہنے کی نہیں ہوتی بلکہ قانون کی ہوتی ہے۔