اسمارٹ فونز 25 جولائی کے الیکشن اور الیکشن سے قبل بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہیں۔

244

دو ہزار اٹھا رہ کا الیکشن 3G، 4G اورا سمارٹ فونز کا الیکشن ہے۔ پی ٹی اے کی آفیشل ویب سائٹ پر دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پانچ کروڑ سے زائد افراد 3G، 4G سروسز اورا سمارٹ فونز کا استعمال کر رہے ہیں۔ گلی گلی میں نوجوان اپنے حلقے میں آنے والے سیاسی رہنماؤں سے کارکردگی پر جواب طلبی کر رہے ہیں اور پھر موبائل کیمرے کی مدد سے ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل بھی کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ کمیونیکیشن کا یہ انقلاب ملک میں آئندہ آنے والے الیکشن پر کیسے اثر انداز ہو سکتا ہے؟

دانش احمد کہتے ہیں کہ عوام پانچ سال بعد حلقوں میں آنے والے نمائندوں کا گریبان پکڑ رہے ہیں، لوگ کہہ رہے ہیں شعور آ گیا ہے، میرا خیال ہے شعور پہلے بھی تھا، اب بس اسمارٹ فون آ گیا ہے۔

زاہد غوری کہنا تھا کہ عقل و شعور عوام کو سوشل میڈیا اور موبائل کیمرے نے دیا ہے۔ مزہ آ رہا ہے جب پانچ سال سے غائب ایم این اے اور ایم پی اے پھر اپنے حلقے میں ووٹ مانگنے جا رہا ہے تو عوام اپنی مدد آپ کے تحت نہ صرف ان سے سوال کر رہے ہیں بلکہ ریکارڑنگ کر کے اسے سوشل میڈیا پر بھی ایپ لوڈ کر رہے ہیں۔

اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد علی کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات بہت آسانی سے شیئر ہو سکتی ہے۔ کسی بھی انتخابی حلقے سے کوئی بھی بندہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر کسی سیاستدان سے متعلق کوئی خبر ڈال سکتا ہے اور وہ وائرل ہو کر کافی لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔

نیو میڈیا کی اس الیکشن میں اہمیت کی بنیادی وجہ یہ نہیں ہے کہ نیو زمیڈیا تمام تر پاکستانیوں کو دستیاب ہے، بلکہ سوشل میڈیا پر جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ سینسر شب سے مبرا ہے۔ جس طرح سے پاکستان میں میڈیا پر قدغنیں لگائی گئیں ہیں، ان حالات میں سوشل میڈیا کی اہمیت دوگنی، چوگنی ہوگئی ہے اور اس کے ذریعے پاکستانی عوام کو وہ معلومات فراہم کی جا رہی ہیں جو کہ روایتی میڈیا متعدد پابندیوں کے باعث فراہم نہیں کر پا رہا۔

حالیہ دنوں میں وائرل ویڈیوز کے بارے میں سیا ست د انوں کا کہنا ہے کہ یہ سیاست دانوں کو بدنام کرنے کا پرانا ہتھکنڈہ ہے۔ جس سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہو کہ الیکشن اور جمہوریت بے کار ہیں۔ اصل کہانی تو یہ ہے کہ جب مریم نواز سویلین بالادستی پر بیانیہ پیش کرتی ہیں یا نواز شریف خلائی مخلوق کا ذکر کرتے ہیں یا عدلیہ کے ناروا فیصلوں پر عوام کی بھرپور تنقید ہوتی ہے تو اس وقت سوشل میڈیا ہی ان تمام جزئیات کو ووٹروں کے سامنے پیش کرتا ہے۔

شہر یوں کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا ہی متبادل بیانیے کا واحد ذریعہ ہے ،ایک ریسیرچر سوشل میڈیا کے کردار سے اتنی پر امید نظر نہیں آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کے دوسرے سوشل میڈیا الیکشن ہیں مگر ہم صارفین کی تعداد تو زیادہ دیکھ رہے ہیں مگر سائبر کرائم پر حالیہ قوانین کی وجہ سے سوشل میڈیا پر بہت زیادہ بندشیں دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا پچھلے برس سینکڑوں کی تعداد میں بلاگر اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا اور ہم نے مخالف آوازوں پر بدترین کریک ڈاؤن دیکھا۔ لوگ معلومات ٹویٹ یا شیئر کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ آنے والے الیکشنز میں سوشل میڈیا پر مزید پابندیوں اور خوف کی فضا کا راج دیکھتی ہیں۔

وہ خوف کی فضا سے ناخوش نظر آتی ہیں مگر صحافی اور ایڈیٹر علی وارثی ٹویٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میدان میں جتنے بھی ہتھکنڈے آزما لیں، سوشل میڈیا پر بالا دست طاقتوں کا توڑ مخالف بیانئے کی صورت موجود رہے گا کیونکہ یہاں انہیں دبانا ممکن نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ این اے 120 میں لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکنے پر بڑی تعداد میں ویڈیوز سامنے آئی تھیں۔ پاکستان میں موبائل کی رسائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ الیکشن 2018 کے دن سوشل میڈیا اور سمارٹ فونز کی موجودگی میں دھاندلی کرنا آسان نہیں ہوگا۔