انتخابات میں جنونیت 

280

قومی انتخابات کے لیے پولنگ کا دن 25 جولائی مقرر کیا گیا ہے ۔کیا ا س دن انتخابات عمل میں آسکیں گے؟یہ ایک الگ موضوع ہے ۔ اس پر ابھی تک ابہام پایا جارہا ہے یا رکھا گیا ہے کہ انتخابات وقت پر ہو بھی پائیں گے کہ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک انتخابی مہم اُس طرح اپنا رنگ نہیں جما سکی ہے جس طرح ہونا چاہیے تھا ۔ ہر طرف ایک بے یقینی کی کیفیت ہے ۔ ان انتخابات کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں کارکردگی سے زیادہ دیگر کارڈ استعمال کیے جارہے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ بلاول زرداری سے بھی پوچھا گیا کہ کام نہیں کیا تو پھر ووٹ کیوں؟ فاروق ستار اورخالد مقبول بھی اس کی زد میں آئے ۔ عمران خان پر بھی بنوں میں انڈوں کی برسات کردی گئی مگر یہ اکا دکا واقعات ہیں اور ان کے اثرات انتخابات پر زیادہ اثرانداز ہوتے نظر نہیں آرہے ۔آئندہ انتخابات میں جو نئے کارڈ متعارف کروائے گئے ہیں ، ان میں سب سے زیادہ اہم کارڈ حب رسول ہے ۔ اس سے قبل بھی مذہب کا کارڈ انتخابات میں استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ تاہم اس سے پہلے مذہب کی بات کرنے والے مملکت میں اسلامی نظام کے قیام کے دعوے دار تھے اور اب بھی ہیں ۔ وہ ایک فلاحی ریاست کا ایک آزمایا ہوا نظام نافذ کرنا چاہتے تھے ۔ ان لوگوں کے پاس اس کام کے لیے تربیت یافتہ ٹیم بھی موجود تھی۔ نئے حب رسول کارڈ میں اس طرح کا کوئی وعدہ نہیں ہے ۔ بس ایک مذہبی اپیل ہے کہ جو بھی رسول ؐ سے محبت رکھتا ہے وہ ہمیں ووٹ دے ۔ اور جو ووٹ نہیں دے گا ، اس کے لیے معروف گالیاں ہیں ۔
نومبر 2017 میں پاکستان میں مذہبی جنونیت کے عنوان سے تین کالم قارئین کی نذر کیے تھے ۔ وہ تمام خدشات جو اس وقت سامنے آئے تھے ، بدقسمتی سے حقیقت کا روپ دھارتے نظر آرہے ہیں۔ نومبر میں چھپنے والے ان کالموں میں تذکرہ کیا تھا کہ اب مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی وجوہات تبدیل کی جارہی ہیں ۔ اس سے پہلے امت مسلمہ کو دو واضح قطبین شیعہ اور سنی میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ ایک کی امامت ایران کے ہاتھ میں تھمادی گئی تھی تو دوسرے کی لیڈرشپ سعودی عرب کے حوالے تھی ۔ شیعہ اور سنی دونوں ہی مزید تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں مگر تقسیم کی یہ لکیریں مبہم تھیں ۔اب ان لکیروں کو مزید گہرا کیا جارہا ہے ۔ سنی مسلک بنیادی طور پر دو مکاتب میں تقسیم ہے ۔دیوبندی اور بریلوی ۔ اس کے علاوہ دیگر جتنے بھی مکاتب فکر ہیں وہ ان ہی دونوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر اہلحدیث دیوبندیوں کے ساتھ شیرو شکر ہیں تو صوفی بریلویوں کے ساتھ ۔ تاہم اب ایک طویل عرصے بعد شیعہ اور سنی تقسیم کو سائیڈ لائن پر رکھ دیا گیا ہے ۔ پاکستان میں ہی سپاہ محمد اور سپاہ صحابہ جیسی تنظیمیں کہیں خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہیں ۔ اب نیا مرحلہ درپیش ہے اور وہ ہے تقسیم در تقسیم کا ۔
پاکستان میں طویل عرصے کے بعد بریلوی مکتبہ فکر کاتحریک لبیک پاکستان کے نام سے جنگجو بازو تشکیل پاگیا ہے ۔ یہ بات نہیں ہے کہ اس سے قبل بریلوی مکتبہ فکر کے لوگ حضرت عیسیٰ کی اس تعلیم کے قائل تھے کہ کوئی ایک طمانچہ مارے تو دوسرا گال بھی سامنے کردو۔ چونکہ مساجد سے مذہبی طبقے کا تعلق مذہب سے زیادہ معیشت سے ہے ، اس لیے مساجد پر قبضے کی جنگ میں جہاں ضرورت پڑی ، انہوں نے بھی ہتھیار اور تشدد کا بھرپور استعمال کیا ۔ تاہم ان کا اس طرح کا کوئی منظم جنگجو بازو نہیں تھا جس طرح طالبان یا سپا ہ صحابہ کے نام سے رہا ۔سنی تحریک نے کراچی میں ضرور دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لیا مگر اس میں زیادہ کردار متحدہ قومی موومنٹ کے مفرور دہشت گردوں کا تھا جنہوں نے سنی تحریک کے دامن میں پناہ لی اور یہاں پر بھی کرائے کے قاتل اور بھتوں کا کاروبار جاری رکھا ۔
تحریک لبیک پاکستان کی جو صورت نکل کر سامنے آئی ہے وہ کہیں سے بھی خوش آئند نہیں ہے ۔ کہیں سے ایسا کچھ نہیں ہے کہ یہ اسلام کے فروغ کے لیے کچھ کام کرے گی ۔ یا کم از کم رسول اللہ ؐ جن کی محبت کے یہ دعوے دار ہیں ، ان کے نقش قدم پر چلیں گے ۔ رسول اللہ ؐ اخلاق کے بلند ترین درجے پر فائز تھے۔ آپ ؐ کا پڑوسیوں ، مسافروں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک دیکھیں اور تحریک لبیک پاکستان کے جنونیوں کو دیکھیں تو بہت کچھ اندازہ ہوجاتا ہے ۔
مذہبی جنونیت کا عمل صرف پاکستان ہی میں فروغ نہیں پارہا ، پڑوسی ملک بھارت میں بھی یہ سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ وہاں پر بھی محض افواہ پر بے گناہ لوگوں کو زندہ جلا کر یا پھر تشدد کرکے مار دیا جاتا ہے۔ بھارت میں جہاں کسی بھی جگہ پر عورت محفوظ نہیں ہے، بچے اغوا ہورہے ہیں، اُس بھارت میں مجرم تو آزاد گھوم رہے ہیں مگر بے گناہ افراد ضرور روز سرعام سڑک پر ہجوم کے ہاتھوں قتل ہورہے ہیں ۔ اسی طرح کی صورتحال کو برما میں بھی دیکھا جاسکتا ہے جہاں پر ہجوم آسانی سے وہ کام کرجاتا ہے جس کی خبر پڑھ کر بھی جھرجھری آجاتی ہے ۔ پاکستان میں بھی اس انتہاپسندی کو طالبان کے روپ میں دیکھا جاسکتا ہے جب بارہ بارہ سال کے بچے چھرے ہاتھ میں لہراتے لوگوں کو ذبح کرتے پھر رہے تھے ۔ ضروری نہیں ہے کہ یہ صورتحال صرف مذہبی حلقوں ہی میں ہو، کراچی کے شہریوں نے اس سے بدتر صورتحال ایم کیو ایم کے دور میں بھگتی ہے جب زندہ افراد کی کھالیں اتاری جارہی تھیں اور ڈرل کے ذریعے تشدد کیا جارہا تھا۔ یہ قومیت پرستی اور مذہب ہی ایسے دو فیکٹر ہیں جس کے ذریعے کچھ بھی کیا اور کروایا جاسکتا ہے۔
ہجوم کے پاس تشدد کرنے کے لیے کسی ثبوت یا دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بھارت میں صرف افواہ پھیلتی ہے کہ فلاں مسلمان گائے کا کاروبار کرتا ہے یا اس کے فرج میں گائے کا گوشت ہے اس نے گائے پر تشدد کیا تھا۔ کوئی تفتیش نہیں کوئی ثبوت نہیں ، بس ہجوم اُس مسلمان کے گھر پر حملہ آور ہوتا ہے اور بدترین تشدد کرکے اسے مار ڈالتا ہے۔ کچھ ایسا ہی منظر نامہ اب پاکستان میں نظر آرہا ہے۔ ز بس افواہ اڑانی ہے کہ فلاں شخص نے اہانت رسول کی ہے اور بس۔ اب ہجوم کے پاس وہ سب کچھ کرنے کا پروانہ آگیا جس سے رسول اللہ ؐ نے منع فرمایا ہے۔
آخر تحریک لبیک پاکستان کو کیوں پاکستانی سیاست میں انٹری دی گئی اور ان کے سہولت کار چاہتے کیا ہیں؟ اس پر گفتگو آئندہ کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔