انتخابات میں جنونیت

411

سوال یہ تھا کہ تحریک لبیک پاکستان کی دبنگ انٹری کروانے والے سہولت کار چاہتے کیا ہیں ؟اگر ہمیں پتا چل جائے کہ یہ سہولت کار کون ہیں توجواب بوجھناآسان ہوجائے گا ۔ان سہولت کاروں کی نشاندہی اب راکٹ سائنس نہیں رہی ہے ۔ پردے کے عقب میں موجود یہ اصل ڈائریکٹر وہی ہوتے ہیں جو ایسے پروجیکٹوں کو اسپانسرشپ فراہم کرتے ہیں ۔ آج کے دور میں مالی وسائل کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے یا یوں کہیے کہ آج سے تین عشرے قبل تک جو کام انسانی وسائل سے ہوجاتا تھا ، اسی کام کے لیے اب مالی وسائل کی ضرورت پڑنے لگی ہے ۔ پہلے جلسے جلوسوں کے لیے اتنے مالی وسائل درکار نہیں ہوتے تھے ، جتنے اب ضروری ہو گئے ہیں ۔ پہلے صرف بینروں اور پوسٹروں پر اخراجات آتے تھے تو اب ان کی تنصیب کے اخراجات بھی اس میں جمع ہوگئے ہیں ۔ پہلے جلسے کے لیے صرف دریوں کا کرایہ ادا کرنا پڑتا تھا اور انہیں بچھانے اور اٹھانے کا کام کارکنان کرتے تھے تو اب اس کے لیے بھی آؤٹ سورسنگ کرنی پڑتی ہے۔ ز پہلے دھرنوں میں کارکنان خود ہی چنے اور گڑ کا انتظام کرکے آتے تھے تو اب ان کے تین وقت کے کھانے اور چائے کے ساتھ ساتھ انٹرٹینمنٹ کا بھی انتظام کرنا پڑتا ہے ۔جلسہ گاہ تک پہنچانے کے لیے گاڑیوں کے بیڑے بھی کرایے پر حاصل کرنے پڑتے ہیں ۔پہلے انسانی وسائل وافر مقدار میں دستیاب ہوتے تھے تو اب ان انسانی وسائل کی فراہمی کے لیے بھی مالی وسائل کی ضرورت پڑنے لگی ہے ۔
اب ایک جلسہ کرنے کے اخراجات کا بل بھی کروڑوں میں پہنچنے لگا ہے ۔ اگر کوئی طویل دھرنا دیا جائے تو اس کے اخراجات کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ تین وقت کھانے ، چائے ، کنٹینر، لاؤڈ اسپیکر، لائٹوں ، ٹرانسپورٹ ، خیمے وغیرہ کے اخراجات کے علاوہ اس میں انسانی وسائل کی یومیہ دہاڑی بھی شامل ہوتی ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس قسم کے ایڈونچر بغیر کسی بھاری مالی امداد کے ممکن نہیں رہے ۔ یہ کہنا کہ سارے مالی وسائل کارکنان کے چندوں سے پورے ہوتے ہیں ، احمق بنانے کی کوشش ہے ۔ جو کارکن دھرنے میں بیٹھنے کی دہاڑی وصول کررہا ہو ، وہ کس طرح سے اتنے بھاری اخراجات پورے کرسکتا ہے ؟
اس کے جواب میں سینہ گزٹ کے ذریعے دوسری افواہ اڑائی جاتی ہے کہ خلائی مخلوق اس پروجیکٹ کی اسپانسر ہے ۔یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خلائی مخلوق خود ایک محدود بجٹ رکھتی ہے ۔ خلائی مخلوق کوفراہم کیے جانے والے بجٹ کا پیش تر حصہ اس کی تنخواہ پر خرچ ہوجاتا ہے ، بچ جانے والی رقم میں سے کچھ سے دفاعی سازو سامان کی خریداری ہوجاتی ہے ۔ اس کے بعد کوئی ایڈونچر کرنے کے لیے بہت زیادہ بجٹ نہیں بچتا ۔ اس خلائی مخلوق کے خود بھی اس محدود بجٹ میں اپنے کھانچے ہوتے ہیں تو پھر کس طرح یہ لامحدود اخراجات پورے کیے جاسکتے ہیں ۔
اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ خبر حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہوتا ہے ۔ اس کا جواب بہت ہی سادہ ہے کہ جب سامنے والے کے اور خبر رساں کے مفادات میں مطابقت پیدا ہوجاتی ہے تو خبر بن جاتی ہے ۔ جب تک سامنے والے کا مفاد نہ ہو ، خبر رساں تک خبر پہنچ ہی نہیں پاتی ہے اور جب تک خبر رساں کا مفاد نہ ہو ، یہ خبر میڈیا کی زینت نہیں بن پاتی ۔ کچھ ایسا ہی ایسے منصوبوں کی اسپانسر شپ میں ہوتا ہے ۔ خلائی مخلوق سمجھتی ہے کہ غیر ملکی اسپانسر شپ سے جاری کوئی منصوبہ اس کے مفاد میں ہے اور اس سے وہ کھیل پر اپنی گرفت مضبوط رکھ سکے گی ، تو اس میں وہ ساتھ دینے لگتی ہے ۔ تاہم بہت بعد میں پتا چلتا ہے کہ غیر ملکی اسپانسر تو ہاتھ کر گئے ۔ مثال کے طور پر کچھ ایسا ہی طالبان کے پروجیکٹ میں ہوا تھا ۔ شروع میں یہ پاکستانی پروجیکٹ کے طور پر پیش کیا گیا ۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ تو غیر ملکی اشاروں پر ناچ رہے ہیں ۔ ایم کیو ایم جیسے کئی اور پروجیکٹ بھی مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں ۔
جب بھی ان پروجیکٹوں کا ٹریل شروع کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی فنڈنگ بین الاقوامی بینکاروں کی این جی اوز کے ذریعے ہورہی ہے۔ جیسا کہ رنگین انقلابات کی ساری کی ساری فنڈنگ جارج سوروز کی اوپن فاؤنڈیشن نے کی تھی ۔ یاد دہانی کے لیے ، پاکستان میں افتخار چودھری کی بحالی کے لیے چلائی جانے والی وکلا تحریک کا کوڈ سیاہ انقلاب تھا اور یہ بھی دنیا بھر میں برپا کیے جانے والے رنگین انقلابات کی فہرست میں شامل ہے ۔ اس سیاہ انقلاب کی فنڈنگ بھی جارج سوروز کی اوپن فاؤنڈیشن نے کی تھی ۔ رنگین انقلابات پر میں پانچ کالموں کی ایک سیریز تحریر کرچکا ہوں جو میری ویب سائیٹ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔
یہ جاننے کے بعد کہ اس قسم کے پروجیکٹوں کے سہولت کار کون ہیں ، یہ بوجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ ان کا مقصد کیا ہے ۔ سب سے پہلا مقصد تو انتہاپسندی کا فروغ ہے ۔ جیسے جیسے انتہا پسندی بڑھتی جاتی ہے ، ملکوں کی تقسیم کا عمل آسان ہوتا چلا جاتا ہے ۔ ایم کیو ایم ، اے این پی ، جئے سندھ یا بلوچ لبریشن آرمی جیسی تنظیمیں جتنی مضبوط ہوتی جائیں گی ، ویسے ویسے تقسیم کا عمل بڑھ جائے گااور بنگلا دیش جیسی تقسیم ایک خود کار عمل بن جاتا ہے ۔ اسی طرح مذہب اور مسلک کی بنیاد پر تقسیم کا مطلب بھی تقسیم کا عمل آسان بنانا ہے ۔ اس کا دوسرا مقصد زیادہ اہم ہے ۔ عوام و خواص اسی میں پھنسے رہتے ہیں اور اہم قومی مسائل پر ان کی نگاہ جا ہی نہیں پاتی ۔ ملک میں توانائی کے مسائل، صنعتی ترقی، قومی پیداوار ، پانی کی فراہمی جیسے اہم نکات کہیں پس پشت چلے جاتے ہیں ۔ کوئی نہیں پوچھ پاتا کہ نااہل اور کرپٹ حکمراں کس طرح قرض پر قرض لے کر عالمی بینکاروں کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں اور کس طرح ملک کو روز قرض کی ایک نئی دلدل میں پھنسا دیتے ہیں ۔
جیسے ہی مقصد پورا ہوجاتا ہے ، یہ پروجیکٹ بھی از خود ختم ہوکر قصہ پارینہ بن جاتے ہیں اور پھر نیا کھیل شروع ہوجاتا ہے ۔ ابھی تو لبیک یا رسول اللہ کے نعرے کی گونج ہے ۔ مسلمانوں کے لیے یہ انتہائی جذباتی نعرہ ہے ۔ مگر اس نعرے کو بلند کرنے والوں کی شخصیت ، ان کے افعال ، ان کی زبان و کردار کو دیکھیں تو پتا چل جاتا ہے کہ اس عظیم نعرے کے ساتھ ان کی کوئی مطابقت نہیں ہے ۔ بہر حال عوام اس کی رو میں تیزی کے ساتھ بہہ رہے ہیں اور آئندہ عام انتخابات میں اس کی کاریگری نظر آئے گی ۔
اس دنیا پر ایک شیطان عالمگیر حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش۔