سوشل میڈیا کی سائبر آرمی

448

پاکستان کے آئندہ انتخابات میں سوشل میڈیا بھرپور کردار ادا کررہا ہے، اور کرے گا۔ اب کتنا کرے گا یہ کہنا مشکل ہے۔ پاکستان میں 10 کروڑ کے قریب رجسٹرڈ ووٹر ہیں، پی ٹی اے کے مطابق پاکستان میں براڈ بینڈ کے 5 کروڑ 80 لاکھ کے قریب کنکشنز ہیں جن کا استعمال ایک سے زاید افراد کررہے ہیں۔ لہٰذا اس سے پتا چلتا ہے کہ ووٹرز کی ایک بڑی تعداد آن لائن ہوتی ہے اور ہوگی اور سب سے بڑی بات کہ انٹرنیٹ پر غلط خبریں سیاسی عمل پر اثر انداز ہوسکتی ہیں۔ اگرچہ ہر جماعت کا کارکن اپنی جماعت کے خلاف کوئی بات نہیں سنتا اور نہ ہی سننا چاہتا ہے پھر سوال یہ ہے کہ اس کا اثر کن لوگوں پر پڑتا ہے؟ اثر انداز وہ لوگ ہوتے ہیں جو کنارے کنارے کھڑے ہوتے ہیں اور جنہوں نے ابھی فیصلہ نہیں کیا ہوتا کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے۔ سوشل میڈیا پر سنسر نہیں ہوتا لہٰذا غلط یا جعلی خبریں پھیلانا مشکل نہیں ہے۔ غلط خبریں سوشل میڈیا کے ذریعے برطانیہ، امریکا، انڈیا اور باقی دُنیا میں بھی پھیلائی جاتی ہیں۔ لہٰذا ہم نے یہ دیکھا کہ امریکا کے پچھلے الیکشن میں غیر متوقع طور پر نتائج آئے۔ اوہائیو یونیورسٹی کی ریسرچ کے مطابق صدر ٹرمپ کی جیت میں غلط خبروں کا اہم کردار رہا۔ الیکشن مہم کے دوران ووٹرز کی ایک بڑی تعداد نے جھوٹی اور من گھڑت خبروں کے باعث ہیلری کلنٹن کے بجائے صدر ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ جھوٹا مواد کہاں سے اور کیسے اکٹھا کیا جاتا ہے؟ تو میڈیا کے ماہرین کہتے ہیں کہ فوٹو اور ویڈیو ایڈیٹنگ کے ذریعے محدود صلاحیت رکھنے والے افراد بھی آسانی سے ایسا مواد تیار کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پاکستان یا دیگر ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ ممالک میں ریاست کے حامی اور مخالف غیر ریاستی عناصر منظم طور پر اس کے لیے باقاعدہ عملہ اور آفس دونوں رکھتے ہیں۔ میڈیا کی زبان میں انہیں ’’سائبر آرمز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ اپنے اپنے مفادات اور نظریات کے مطابق باقاعدہ طور پر کام کرتے ہیں۔
حال ہی میں روسی وزارت خارجہ نے اپنی ویب سائٹ پر ’’فیک نیوز‘‘ کے نام سے ایک سیکشن کا اضافہ کیا ہے۔ جس میں مغربی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کی تردید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ’’جھوٹی خبریں‘‘ ہیں۔ ایک رپورٹ جو روس کے اقوام متحدہ میں تعینات سفیر کے انتقال پر مبنی تھی اس کے بارے میں کہا گیا کہ روسی سفارت کاروں کی ہلاکت کے اسباب کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ ’’سانتا مونیکا آبزرور‘‘ میں شائع ہوئی تھی لیکن روسی وزارت خارجہ نے کوئی معلومات فراہم نہیں کی جس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ یہ خبر درست نہیں تھی۔ اس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ فیک یا غلط خبر کو کیسے کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں ویسے ہی الیکشن میں تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن بغیر ذمے داری کے پھیلنے والی جھوٹی خبریں بہت حالات کی خرابی کا باعث بن سکتی ہیں۔ غلط خبروں کا ایک بڑا مقصد مخالفین کے حوصلوں کو پست کرنا ہوتا ہے یہ کام الیکشن سے پہلے بھی ہوتا ہے لیکن الیکشن والے دن تو گویا غلط خبروں کا ایک طوفان آیا ہوتا ہے۔ چوں کہ پاکستانی معاشرے میں مخالفانہ انداز غالب ہے لہٰذا غلط خبروں کا پول جلد ہی کھل جاتا ہے۔ جب دوسری طرف سے انہیں کاؤنٹر کیا جاتا ہے۔یہ دیکھا گیا ہے کہ نوجوانوں کی رائے پر اثر انداز ہونا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ اسی لیے بریگزٹ کے نتائج پر بھی اثر انداز ہونے کے لیے نوجوانوں کو فوکس کیا گیا ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں ایک فرم جس کا نام ’’کیمبرج اینالائیکا‘‘ تھا صدر ٹرمپ کے لیے ڈیجیٹل اسائمنٹ پر کام کیا، اس فرم کا کیمبرج یونیورسٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا، نام رکھنے کی آزادی کے باعث یہ نام رکھا گیا۔ اس وجہ سے سوشل میڈیا پر کسی بھی مہم میں نوجوانوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نوجوان جذباتی ہوتے ہیں اور ناپختہ رائے رکھتے ہیں، لہٰذا انہیں آسانی کے ساتھ گمراہ کیا جاسکتا ہے۔
ایک تحقیقی سروے کے مطابق سوشل میڈیا پر جھوٹی خبر چھ گنا زیادہ پھیلتی ہے۔ ٹھیک ہے کہ سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑا ہے اور اطلاعات کا تبادلہ آسان بنایا ہے لیکن جھوٹی خبریں اور ویڈیوز دنیا بھر میں حالات کو بگاڑنے کا کام کررہی ہیں۔ انڈیا کی مثال سامنے ہے جہاں انڈین حکومت نے کئی پرتشدد اور مہلک واقعات کے بعد اور حالات پر قابو پانے میں ناکامی کے بعد واٹس اَپ سے کہا ہے کہ وہ ’’غیر ذمے دارانہ اور اشتعال انگیز پیغامات‘‘ پھیلانے سے روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ لیکن اس پر کوئی خاص فرق پڑنے کی کوئی اُمید نہیں۔ ملائیشیا ان چند ملکوں میں سے ہے جنہوں نے ’’جھوٹی خبروں‘‘ کو غیر قانونی قرار دینے میں پہل کی ہے۔ اس سلسلے میں ان کی پارلیمنٹ نے بل کو سادہ اکثریت سے منظور کرلیا ہے۔ جس کے تحت جعلی خبریں دینے، چھاپنے اور پھیلانے والوں کو 5 لاکھ رنگٹ (سوا لاکھ ڈالر) تک جرمانہ اور 6 ماہ سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ ملائیشیا کے علاوہ سنگاپور اور فلپائن کی حکومتیں بھی حکمت عملی ترتیب دینے میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں بھی اس کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے اور ہر ایسی خبر، رپورٹ، معلومات، ڈیٹا، آڈیو، ویڈیو مواد جو مکمل یا جزوی طور پر حقائق کے برخلاف ہو اُس کو پھیلانا، شائع کرنا یا نشر کرنا قانونی طور پر جرم قرار دینے کا قانون منظور کرنا چاہیے لیکن پاکستان میں تو سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا خود غلط اور غیر تصدیق شدہ خبریں مستقل اور مسلسل نشر کرتا رہا ہے، سوات کی ویڈیو اُس کی مثال ہے۔