امارت اسلامی افغانستان سے امریکی مخاصمت

720

حصہ
دوم

امریکا اور طالبان کے درمیان دکھائی نہ دینے والی کشمکش جاری تھی کہ اس دوران 11ستمبر 2001ء کو امریکی شہر نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی جڑواں عمارتوں سے جہاز ٹکرائے جانے کے سانحات پیش آئے۔ جس کے لیے مورد الزام افغانستان میں پناہ گزین اسامہ بن لادن کو ٹھیرایا گیا۔ امریکا مغضوب الغضب ہوگیا۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے لیے امریکا کی سفارتی اور خفیہ سرگرمیوں میں تیزی آگئی۔ امریکی سی آئی کے اسپیشل خفیہ مشن نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال دیے، پشاور اور کوئٹہ آنا جانا شروع ہوگیا۔ جنرل پرویز مشرف پاکستان کے مختار کل تھے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اس عالمی جنگ میں امریکا کا اتحادی بن گیا۔ سندھ کے شہر جیکب آباد اور بلوچستان کے ضلع خاران کے شمسی ائر بیس کا مکمل کنٹرول امریکیوں کو دے دیا گیا۔ آخر کار 8اکتوبر 2001ء کی رات افغانستان پر بدترین فضائی حملہ کیا گیا۔ افغانستان کی حکومت تہہ و بالا کر دی گئی۔ طالبان منتشر ہوگئے۔ افغانستان اور پاکستان میں پناہ کے لیے پھیل گئے۔ عربوں کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہ رہی وہ بھی مرتے اور گرفتار ہوتے رہے۔ عرب خاندانوں کو ایران نے بھی محفوظ کرلیا تھا۔ ایران کی افغانستان میں دلچسپی پہلے سے تھی۔ شمال کی تنظیموں کی حکومت ایران کی بھی ترجیح تھی یعنی ایران بھی اس لحاظ سے امریکی اتحاد میں شامل ہوا۔ افغانستان میں آبادیاں اُجڑ گئیں۔ بے پناہ جانی نقصان ہوا۔ پاکستان کی پشتون سیاسی جماعتیں بھی امریکی صف میں شامل ہوگئیں۔ پاک افغان سرحد کے دور دراز علاقوں میں جنگجوؤں کی بھرتی کے لیے کیمپ قائم کیے گئے۔ اس مقصد کے لیے امریکا نے ڈالر کی بارش کر دی تھی۔ ایران نے بھی شمال کی تنظیموں کی مدد کی خاطر اسلحہ اور پیسہ خرچ کیا۔ یہ رقوم بلوچستان میں بھی تقسیم ہوئیں۔
طالبان تتر بتر ہوگئے ان کے لیے ٹھکانہ پاکستان میں بھی نہ رہا۔ البتہ ان کے مخالف افغان کمانڈروں اور جنگجوؤں کی آمد ورفت بلا روک ٹوک ہو رہی تھی۔ برسر زمین شمال کی تنظیموں سے وابستہ جنگجوؤں اور پشتون آبادی کے صوبوں میں پشتون جنگجوؤں کو منظم کیا گیا۔ امریکی فوج و فضائیہ ان کی مدد کرتی۔ طالبان اور امریکی حکام کے درمیان کئی ملاقاتیں پاکستان کے اندر ہوئیں مگر امریکا من پسند نتیجے کا خواہاں تھا۔ نائن الیون کے بعد امریکا اپنے مقصد کو پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ افغانستان پر قابض ہوا۔ پشاور سے سی آئی اے کے منظور نظر افغان جہادی کمانڈر عبدالحق کو عجلت میں مسلح دستے کے ہمراہ افغانستان کے صوبے لوگر منتقل کردیا۔ یہ شخص افغان حکومت کی صدارت کے لیے بھی موضوع گردانا جاتا تھا۔ طالبان نے عبدالحق کو ننگر ہار میں علی خیل کے مقام پر دھر لیا۔ کمانڈر عبدالحق نے سیٹلائٹ فون پر پشاور میں مقیم اپنے خاندان کو صورت حال سے آگاہ کردیا۔ امریکی فوجی حکام نے کمک فراہم کرنے کی کوشش کی مگر بے سود رہی۔ طالبان نے گرفتار عبدالحق پر فوری عدالت قائم کردی۔ جس کے فیصلے کے تحت اسے پھانسی کی سزا دی گئی۔ چناں چہ حامد کرزئی افغانستان پہنچ گئے۔ کئی بار تعاقب کے باوجود وہ طالبان کے ہاتھ نہ لگے۔ حامد کرزئی افغانستان کی صدارت کے مسند پر بٹھائے گئے۔ صدارتی انتخابات کے بعد دو بارہ صدارت ملی۔ اب حامد کرزئی امریکا پر نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان کے تعاون کے بغیر طالبان حکومت پر وار کرنا مشکل تھا۔ اس تعاون کے صلے میں پاکستان کو افغان حکومت کی دشمنی دی گئی۔ بھارت پوری طرح افغانستان میں دخیل ہوا۔ ایک مختصر مدت کے بعد رفتہ رفتہ طالبان کی قوت پھر سے مجتمع ہونا شروع ہوگئی۔ ادھر حزب اسلامی بھی امریکی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت کررہی تھی۔ حزب اسلامی یہ جنگ اپنے بل بوتے پر ہی لڑرہی تھی۔ جو غالباً14سال ناٹو اور امریکی افواج سے برسر پیکار رہی۔ حزب 23 ستمبر 2016 کو کابل انتظامیہ کے ساتھ معاہدے کے بعد منظر عام پر آگئی۔ حزب اسلامی اب سیاسی مزاحمت کی راہ پر ہے۔
طالبان افغانستان کی ایک بڑی متحارب جماعت ہے جس کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے قطر میں سیاسی دفتر کھولنے کی اجازت دی گئی۔ مطالبہ ہے کہ غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں۔ افغانستان کا ایک غالب حصہ ان کے تصرف میں ہے جہاں معاملات زندگی اطمینان بخش ہیں۔ طالبان کی مزاحمت نے امریکا کو ایک لمحے کے لیے چین لینے نہیں دیا۔ امریکی اور افغان فورسز امارت اسلامیہ یعنی طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں عوامی آبادیوں، اسکول، مدارس، طبی اور تجارتی مراکز کو نشانہ بناتی ہیں۔ طالبان اکثر جگہوں پر جہاں عوام کے جان و مال و کاروبار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو جنگ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کے برعکس امریکی اور افغان فورسز بلا اشتعال آبادیوں کو نشانہ بناتی رہتی ہیں۔ طالبان کے زیر انتظام علاقوں میں تعمیراتی کام ہورہے ہیں۔ اسکولوں میں بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ ماہ فروری میں صوبہ تخار میں ’’تور شور عرب‘‘ کے علاقے میں آس پاس کے اضلاع کے تاجروں نے قریباً ایک ہزار دکانوں پر مشتمل مارکیٹ تعمیر کی۔ سرکاری فورسز نے حملہ کرکے پوری مارکیٹ تباہ کردی حالاں کہ طالبان عوامی مفاد کو نقصان پہنچانے کے خطرے کے پیش نظر نکل گئے تھے۔ سرکاری فورسز اس امر سے آگاہ تھیں پھر بھی بمباری سے گریز نہ کیا۔ سوچنے کی بات ہے کہ امارت اسلامیہ امریکی و ناٹو افواج اور افغان فورسز سے اپیل کرتی رہتی ہے کہ ان کے علاقوں میں آبادیوں، اسکولوں، مدارس، طبی مراکز، تنصیبات اور تجارتی مراکز کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ اس کے برعکس امن کے علم بردار اپنی وحشت اور مردم کشی سے باز نہیں آتے۔
امارت اسلامیہ ایک تسلیم شدہ سیاسی و مزاحمتی قوت ہے جو جنگ پر اور امن کے قیام پر قدرت رکھتی ہے۔ یہ حقیقت دنیا سے مخفی نہیں۔ فروری 2018ء کو کابل میں ’’کابل پراسس‘‘ کے نام سے بین الاقوامی کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس میں پچیس سے زاید ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ 28فروری کو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی نے امارت اسلامیہ کو برملا کابل میں دفتر کھولنے کی پیشکش کی تھی۔ البتہ بات مشروط رکھی کہ وہ افغان حکومت اور آئین کو تسلیم کرلیں۔ عید الفطر کے تین روز (16تا 18جون) امارت اسلامیہ نے جنگ بندی کا اعلان کردیا۔

حیرت انگیز طور پر افغانستان کے پہاڑوں، ریگستانوں وصحراؤں سے نکل کر عام لوگوں میں گھل مل گئے۔ انہیں پھولوں کے ہار پہنائے گئے۔ جنگ بندی کی مدت ختم ہوئی تو عوام نے دیکھا کہ وہ اُسی اعتماد، شان و وقار کے ساتھ اپنے اپنے محاذوں پر روانہ ہوگئے۔ امارت اسلامیہ کی جنگ بندی ثابت کرتی ہے کہ وہ جنگ جاری رکھنے اورکسی سے مذاکرات اور معاہدے میں خود مختار ہیں۔ ہم دعا گو ہیں کہ اس بے قرار سرزمین پر دائمی امن اور خوشحالی کا زمانہ لوٹ آئے۔ امریکا اگر عیاری نہ کرے تو امارت اسلامیہ کے لیے افغان سیاسی عمل میں شریک ہونا گھاٹے کا فیصلہ نہ ہوگا۔ افغان سرحدی امور کے وزیر گل آغا شیر زئی اور قندھار پولیس کے سربراہ کمانڈر رازق کہتے ہیں کہ ان کی طالبان کی کوئٹہ شوریٰ کے نمائندوں سے افغانستان اور پاکستان کی طرف کئی ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ امارت اسلامیہ اس کی تردید کرچکی ہے ویسے بھی ان کی اس بات میں معقولیت نہیں۔ بلکہ اس میں یہ باور کرانے کی شرارت پنہاں ہے کہ طالبان قیادت پاکستان میں موجود ہے۔ طالبان چاہیں تو ان کے لیے براہ راست کابل انتظامیہ سے بات چیت مشکل نہیں۔ کمانڈر رازق اُن لوگوں میں سے ہے جن کے خلاف ملا محمد عمر نے سب سے پہلے کارروائی کی تھی۔
امریکی خاتون ایلس جی ویلز جو جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے بیورو کی پرنسپل اسسٹنٹ سیکرٹری ہیں نے20جون کو امریکی امور خارجہ کی کمیٹی کو بیان دیا کہ: ’’امریکا افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کی حمایت کرتا ہے بلکہ اس میں شامل ہونے اور اس میں مدد دینے کے لیے بھی تیار ہے اور یہ کہ ہم نہ صرف افغان حکومت بلکہ تمام فریقین کی حمایت کرتے ہیں تاکہ وہ باہمی معاہدہ کریں‘‘۔ ایلس ویلز نے عید الفطر پر جنگ بندی کو منفرد حقیقی موقع قرار دیا۔ تاہم اس بریفنگ میں پاکستان کو بھی مخاطب کیا گیا کہ امریکا پاکستان سے واضح تعاون چاہتا ہے۔ یہ کہ وہ طالبان کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرے۔ امارت اسلامیہ کسی ایسے موقع کو ضائع نہ ہونے دے کہ جس میں افغانستان اور وہاں کے عوام کا عظیم مفاد پنہاں ہو۔ برابر کی حیثیت سے مذاکرات کا حصہ ضرور بننا چاہیے۔ بہر حال امن کا دارومدار امریکی نیت پر ہے۔ طالبان تب بھی امریکی حکام سے مذاکرات کرچکے تھے کہ جب نو گیارہ کا واقعہ وقوع پزیر ہی نہ ہوا تھا۔ لیکن امریکا کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سب کچھ اپنی مرضی و خواہش کے تحت چاہتا ہے۔ ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ: ’’امریکا حقیقی معنوں میں سامراجی قوت ہے جو ہمیشہ اپنے مفادات کو وسیع تناظر میں دیکھتا ہے‘‘۔ اور امریکی دانشور نوم چومسکی کہہ چکے ہیں کہ: ’’امریکا ایک سرکردہ دہشت گرد ریاست ہے‘‘۔