ادارہ انصاف میں مثبت تبدیلی کی کرن

394

یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ چیف جسٹس نے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ اپنے ادارے کو درست نہ کر سکے۔ حقیت یہ ہے کہ یہی احساس کسی بھی خرابی کو درست کرنے کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔ اب اگر اس بات کا اعتراف دل کی گہرائیوں ہی سے کیا گیا ہے تو مجھے امید ہے کہ وہ اپنے ادارے کی درستی کے لیے مربوط منصوبہ بندی بھی بہت اچھے طریقے سے کریں گے اور کوئی ایسا طریقہ کار وضع کر جائیں گے کہ اصلاح کا سلسلہ رکنے نہ پائے گا اور ان کے جانے کے بعد بھی جاری رہے گا۔ ذرائع کے مطابق ’’چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بحیثیت سربراہ وہ اپنے ادارے کو بہتر طور پر چلانے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں کھلے عام اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں اپنے ادارے کو بہتر نہیں بنا سکا۔ انہوں نے یہ بات عدالت عظمیٰ میں 4 رکنی بینچ میں ایک درخواست کی سماعت کے دوران کہی۔ مذکورہ درخواست ماتحت عدالت میں مقدمات، درخواستوں اور اپیلوں کی شنوائی کے حوالے سے وقت مقرر کرنے اور اس ضمن میں نئے اصول و ضوابط قائم کرنے کے لیے دائر کی گئی تھی۔ درخواست عمیر اعجاز گیلانی، عطاء اللہ حکیم کنڈی، محمد حیدر امتیاز، راحیل احمد اور ہادیہ عزیز کی جانب سے دائر کی گئی۔ دورانِ سماعت چیف جسٹس نے اپنے حالیہ دورہ لاڑکانہ کا بھی حوالہ دیا جس کے نتیجے میں ایڈیشنل ڈسٹرک اینڈ سیشن جج گل ضمیر سولنگی نے اپنا استعفا دے دیا تھا۔ اس حوالے سے چیف جسٹس نے بتایا کہ ڈسٹرک جج نے پورے دن کے دوران میں ضمانت کی صرف 2 درخواستوں پر فیصلہ سنایا تھا۔
یہ بات بہت ہی غور طلب اور قابل غور ہے کہ عدالتوں میں ایسے مقدمات جو جلد فیصلہ مانگتے ہیں ان کی تعداد ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی پریشانیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اعداد وشمار کو سامنے رکھا جائے تو ہر فرد کی اور خاص طور سے وہ افراد جو بدقسمتی سے عدالت سے رجوع کرنے پر مجبور ہیں، ان کو شدید ذہنی صدمے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عدالت میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق چاروں صوبوں کی عدالتوں میں درخواستوں اپیلوں اور نظر ثانی کی درخواستوں سمیت 38 ہزار 2 سو 5 مقدمات زیر التوا ہیں تاہم اس ضمن میں حتمی اعداد و شمار اکھٹا کر کے جلد عدالت میں پیش کردیے جائیں گے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اسی قسم کے اچانک کیے گئے دورے کے دوران ڈسٹرک اینڈ سیشن جج ’’گل ضمیر سولنگی‘‘ سے باز پرس کی گئی۔ جب وہ اطمینان بخش جواب نہ دے سکے بلکہ وہ اپنے موبائل فون سے الجھے رہے، جب کہ عدالتی کارروائی کے دوران موبائل فون عدالتی آداب اور قواعد و ضوابط کے منافی ہے تو اضطراری طور پرچیف صاحب نے ان کا موبائل میز پر دے مارا اور کچھ سخت جملے بھی معزز جج کے لیے ادا ہو گئے جس پر جناب ضمیر سولنگی نے اپنا استعفا پیش کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چیف جسٹس کا ایسا کرنا بھی شاید عدالتی آداب کے منافی تھا۔ چیف جسٹس صاحب کی یہ بڑائی ہے کہ انہوں نے اپنے اس رویے اور جسٹس ضمیر سولنگی کے استعفے کے فیصلے پر بھی تاسف کا اظہار کیا۔ امید کی جاتی ہے کہ جسٹس ضمیر سولنگی بھی ماحول کو سازگار بنانے کی اپنی سی کوشش ضرور کریں گے۔
چیف صاحب سے مؤدبانہ یہ گزارش بھی ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں التوا کے شکار مقدمات کا کوئی مناسب اور جلد حل ضرور نکالیں گے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ التوا کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس افراد ضرورت سے کم ہیں اور یہ کمی التوا کا سبب بن رہی ہے تو عدالتیں، ججوں، عملے اور دفاتر میں اضافے کی سفارش کریں تاکہ لوگوں کی مشکلات کو دور کیا جا سکے۔ مجھے یاد ہے کہ ق لیگ کے دور میں ججوں کے اضافے کی اجازت بھی مل گئی تھی لیکن اس وقت کی عدالت عظمیٰ نے اسے قبول نہیں کیا تھا۔ عدالتی نظام میں بھی بے پناہ سفارشات پیش کی جا سکتی ہیں جن سے التوا کا حل نکل سکتا ہے۔ ان میں میرے نزدیک سب سے زیادہ جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ انصاف کو سستا اور سہل بنایا جائے تاکہ لوگوں کے لیے انصاف کا حصول آسان ہو جائے اور معاشرے کو ذہنی الجھنوں سے نجات مل سکے۔ جو بات عدالتی کارروائی کے متعلق زباں زدِ عام ہوتی جا رہی ہے وہ بہت ہی افسوسناک اور غور طلب ہے۔ کہا جارہا ہے کہ عدالت سے انصاف حاصل کرنے کے لیے قارون کا خزانہ، صبر ایوبؑ اورعمر نوحؑ بھی کم ہے۔ جب کوئی بات عام ہوجائے تو اس کو جھٹلایا نہیں جانا چاہیے بلکہ اس پر سنجیدگی سے غور کرکے اپنے رویوں اور عمل سے لوگوں کی منفی رائے کو اثبات میں بدلنا چاہیے۔ امید ہے کہ چیف صاحب اس بات پر بھی غور ضرور کریں گے۔
بات بہت مناسب تو نہیں لیکن اگر زبان پر آہی گئی ہے تو پھر اتنی گزارش میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ملک کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ مسئلہ صاف پانی کا ہو، مہنگائی کا ہو، اسکولوں کی فیسوں کا ہو یا اسپتالوں کی صورت حال یعنی صحت عامہ کا۔ پاکستان میں ہر سو ایک ابتری اور ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ ان سب کا درست ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔ ان سب کے سدھار میں آپ کی اپنی کوششوں کی اہمیت اور قدر و قیمت اپنی جگہ لیکن اگر اپنے ہی گھر میں ہزاروں مسائل ہوں تو پھر پہلے اپنے گھر کی صورت حال کو درست کرنا اولین ترجیح زیادہ مناسب ہے۔ یہ یوں بھی کہ آپ جس کو بھی ان کی کمزوریاں دکھانے کی کوشش کریں گے ان پر اس کا اثر شاید ہی ہو۔ جیسا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ دیگر عدالتوں کے ججوں کے خلاف توہین آمیز یا ذاتی نوعیت کے بیانات نہ دیں، تمام جج برابر کی عزت کے حق دار ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے یہ ریمارکس وفاقی دارالحکومت میں تجاوزات کے حوالے سے دائر مقدمے کی سماعت کے دوران دیے۔ مذکورہ سماعت کے دوران وکیل راجا انعام امین منہاس نے اعتراض کیا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے ’اسٹیٹس کو کو برقرار رکھتے ہوئے پرائیویٹ اسکولوں کی فیس کا مقدمہ واپس اسلام آباد ہائی کورٹ منتقل کردیا۔ خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پرائیویٹ اسکولوں پر موسم گرما کی تعطیلات کے دوران فیس لینے پر پابندی عائد کی تھی، تاہم ایک وکیل نے عدالت عظمیٰ میں اس کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس لے کر فیس لینے پر پابندی کا فیصلہ سنایا گیا جب کہ ہائی کورٹ کو یہ اختیار حاصل نہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے مزید کہا کہ: ’میں چیف جسٹس تک یہ بات پہنچانا چاہتا ہوں کہ تمام جج برابری کی سطح پر قابلِ احترام، باوقار اور قابل شخصیات ہیں۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس صاحب پہلے ہی اپنے رویے کا اعتراف کر چکے تھے لیکن یہ ریمارکس جس وقت جاری کیے گئے اس وقت جسٹس شوکت عزیز صدیقی اس بات سے آگاہ نہیں تھے‘۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مزید کہا چیف جسٹس کے پاس دیگر عدالتوں کے ججوں کی جانب سے دیے گئے فیصلے تبدیل کرنے، ملتوی کرنے، اور آئندہ کے لیے اٹھانے کا اختیار ہے، لیکن انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں کی تذلیل کریں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جن ججوں کی تضحیک کی گئی اگر ان کی جانب سے جواب دیا گیا تو اس سے عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔
یہاں میں، خاکم بہ دہن، عرض کرنا چاہوں کہ عام طور پر مقدمات چھوٹی عدالتوں سے بڑی عدالتوں کی جانب سفر کرتے ہیں اور اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کسی ایک سے ’’یس‘‘ اور دوسری سے ’’نو‘‘ ہو جاتے ہیں حالاں کہ ہر عدالت میں جج ہوں، وکلا ہوں یا وکلا کے قانونی معاونین، بہت باریک بینی سے کیس کا فیصلہ سناتے ہیں۔ بے شک انسان خطا کا پتلا ہے اور ان سب سے غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں۔ میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ تمام فیصلے جو نظر ثانی کے بعد یکسر بدل جاتے ہیں ان پر نچلی عدالتوں کے ذمے داروں سے لازماً پوچھا جانا چاہیے کہ ان سے کوئی قانونی غلطی کیوں ہوئی؟۔ یہ بات بھی فیصلوں میں مثبت تبدیلی کا سبب بن سکتی ہے۔ ہے تو چھوٹا منہ بڑی بات والی مثل لیکن امید ہے کہ ان باتوں کو بھی غور فکر میں شامل کیا جاسکتا ہے۔