گوشت تو ہوا حرام مگر۔۔۔؟

383

آج کل گدھوں، گھوڑوں، کتوں اور خنزیروں کا گوشت فروخت کرنے کا بہت شور سنائی دے رہا ہے۔ حرام گوشت کی تجارت کرنے والوں پر جتنی بھی لعنت ملامت کی جائے وہ ان کے جرم سے بہت ہی کم ہوگی، حرام گوشت تو ہوا حرام لیکن جس آمدنی سے لوگ حلال گوشت خریدنے نکلتے ہیں کیا وہ حلال ہے؟، اس پر کس نے کتنا غور کیا ہے۔
ہم (مسلمان) ہر معاملے میں شدید اختلاط، افتراق اور اختلاف کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ہر معاملے میں الجھنوں کا شکار رہتے ہیں۔ نہ صرف الجھنوں کا شکار رہتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ پورے معاشرے کو شش و پنج میں ڈال کر رکھ دیتے ہیں۔ ہر فرد کے ذہن کو اتنا الجھا کر رکھ دیتے ہیں کہ لوگ اصل معاملے کو بھول کر اور بہت سارے معاملات کی بھول بھلیوں میں بھٹک کر رہ جاتے ہیں۔
معاملہ علاج و معالجے ہی کا کیوں نہ ہو، کبھی ہومیو پیتھی، کبھی ایلو پیتھی، کبھی حکیم، کبھی تعویز گنڈے، کبھی مزارات اور کبھی جھاڑ پھونک کا شکار ہو کر مریض کی جان کو خطرے میں ڈال کر رکھ دیتا ہے لیکن ہم اپنی عادات کو ترک کرنے کے لیے تیار ہوکر ہی نہیں دیتے۔
پاکستان میں ایک تفریحی مقام ہے فروٹ منرو، گزشتہ دنوں وہاں ایک بہت ہی گھناونا واقعہ ہوا۔ تفریح کے لیے آئی ہوئی سات آٹھ خواتین کو ساری رات زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور زیادتی کا نشانہ بنانے والے بھی پولیس اہل کار تھے اور اس فعل قبیح کا مقام تھانہ تھا۔ جب شور شر مچا تو پولیس اہل کاروں کا کہنا تھا کہ یہ خواتین آئی نہیں تھیں بلکہ کچھ افراد نے ان کو عیاشی کے لیے بلایا تھا اور وہ خود کسی خوف کی وجہ سے وہ وہاں سے بھاگ لیے تھے مزید یہ کہ یہ کوئی شریف زادیاں نہیں تھیں بلکہ پیشہ ور تھیں۔ کچھ دیر کے لیے پولیس کے اس بیان کو یقین کی حد تک بھی مان لیا جائے تب بھی کوئی مجھے یہ بتائے کہ ان کے تمام الزامات کے باوجود ان خواتین پر ان کا کوئی حق بنتا تھا؟۔ یہاں تک کہ اگر انہوں نے خود ان کو اسی کام کے لیے بلایا ہوتا تو کیا پھر بھی ان پر ان کا کوئی حق بنتا تھا؟۔ کیا یہ کام حلال تھا یا ایسا کرنا کار ثواب ہے؟۔ اگر وہ شریف زادیاں نہیں تھیں بلکہ پیشہ ور تھیں تو پولیس کا کام ان کو گرفتار کرکے نہ صرف قانون کے مطابق سزا دلوانا تھا بلکہ جن کمینوں اور ذلیلوں نے ان کو بلایا تھا ان کا بھی کھوج لگا کر ان کو آئین و قانون کے مطابق سزا دلوانا تھا ناکہ ان خواتین سے اپنا منہ کالا کرنا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ خواتین ان کی نظروں میں پیشہ ور تھیں لیکن خود جو ان کے ساتھ رات کی سیاہی کو اپنے منہ پر ملتے رہے کیا یہ شرافت کی معراج تھی؟۔
پاکستان میں الیکشن کا موسم پھر آگیا ہے۔ آج سے ایک صدی قبل جمہورت نامی کوئی چیز نہیں پائی جاتی تھی۔ کچھ مسلح گروہ اٹھا کرتے تھے اور کسی دوسرے مسلح گروہ پر جا پڑتے تھے۔ طاقتور ہوئے تو پہلے تخت کا تختہ ہو جایا کرتا تھا۔ یہ تخت اس وقت تک تختہ ہونے سے محفوظ رہا کرتا تھا جب کوئی اور طاقتور گروہ اس کا تختہ نہ کردے۔ اسی بنیاد پر کبھی ریاستیں پھیل جایا کرتیں اور کبھی سکڑ کر چھوہارا بن جایا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں یا تو پیشہ کرنے والی خواتین بکا کرتی تھیں یا پھر غلاموں کے سودے ہوا کرتے تھے۔ اللہ بھلاکرے اس جمہوری نظام کا جس میں مردوں کے جسم بھی بکا کرتے ہیں بلکہ کچھ تو بدن اور ضمیر فروشی کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ خود ہی بنا دام کسی کے آگے پگھل جاتے ہیں۔ دنیا ان کو کس نام سے یاد کرتی ہوگی لیکن پاکستان میں
ان کو ’’لوٹے‘‘ کہا جاتا ہے وہ بھی بے پیندے کے۔ جس کا پیندا ہوتا ہے وہ تو پھر بھی اپنے زور پر ٹکا رہتا ہے لیکن جس کا پیندا نہ ہو اس کا کام اِدھر سے اُدھر لڑھکنیاں کھانے کا علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ایک حقیقی لوٹے اور ایک انسان نما لوٹے میں بنیادی فرق پیندے اور ضمیر کا ہوتا ہے۔ جس حقیقی لوٹے کا پیندا نہیں ہوتا اور جس انسان نما لوٹے کا ضمیر نہیں ہوتا اس کا کام لڑھکنیاں کھانا ہی ہوتا ہے۔
ملک میں جمہوریت کے موسم کے ساتھ ہی مردانہ و زنانہ جسم فروشی کا کاروبار بام عروج پر پہنچا ہوا ہے اور کوئی دام اور کوئی بے دام فروخت ہو رہا ہے۔ ایسے تمام بدن فرشوں کو خریدنے والے اور خود اپنے آپ کو بیچنے والے یہ کہتے اور سنتے پائے گئے ہیں کہ ان کا ضمیر جاگ چکا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے اپنے محسنوں کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے وہ سارے کے سارے بے ضمیرے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ ضمیر کو جگانے یا بیدار رکھنے کے لیے سودا کتنے میں کیا جاتا ہے۔ آج کل سیکڑوں افراد کے ضمیر اچانک خواب بے ضمیری سے بیدار ہو چکے ہیں اور پچھلی تمام مراعات پر لعنتیں بھیج کر ان افراد کی صفوں میں دوڑ دوڑ کر شامل ہو گئے جہاں ’’انصاف‘‘ اتنی وافر مقدار میں موجود ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہا ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ وہ انصاف جو ان کے پاس ان کی ضرورت سے بھی بہت زیادہ ہے اس کو جتنی جلد ہو سکے ان افراد تک منتقل کردیا جائے جن کے ضمیر جاگ چکے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ پھر نیند کی بے ضمیر گولی کھاکر سوجائیں اور پہلے جیسے بے ضمیرے بن جائے۔
محبت ہمیں روشنی سے ہو اور ہم جلتے دیے بجھانا شروع کردیں۔ تلاش ہمیں منزل حق کی ہو اور ہم رہ کفر اختیار کرنے پر کمربستہ رہیں، تلاش ہمیں انصاف کی ہو اور ہم ضمیر فروشوں کو اپنا مرکز ومحور بنالیں، ہم پاکستان کی تقدیر بدلنے کے دعویدار ہو اور سیاہ بختوں کو اپنے گروہ میں شامل کرتے چلے جائیں اور تمنا شفافیت کی ہو اور گند کو اپنے ذہنوں اور ضمیروں میں گھولتے چلے جائیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم پاکیزگی کی اس منزل کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں جس کی تلاش میں سفر کا آغاز کیا گیا تھا۔
اصل میں علامہ اقبال نے جو خواب دیکھا تھا وہ بے شک بہت سچا تھا لیکن دھوکا دہی نے اس خواب کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے۔ 1947 سے لیکر آج تک ہم ایک ہی انداز کا دھوکا کھاتے چلے آرہے ہیں۔ نہ دھوکا دینے والے بار بار کی دھوکا دہی سے باز آرہے ہیں اور نہ دھوکا کھانے والے ہار ماننے کے لیے تیار ہیں بلکہ یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ
ستم گر آ اپنا ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
بات حرام گوشت سے شروع ہوئی تھی اور کہاں آ پہنچی لیکن اگر سب کی کڑیاں ملائیں تو سب کا مرکز و محور ایک ہی ہے۔ حرام گوشت تو ہمارے لیے اسی طرح حرام ہے جس طرح اسے حرام ہونا ہی چاہیے تھا لیکن گوشت کے حصول کے لیے مال و اسباب و ذرائع پر ہماری نہ تو نظر ہے اور نہ ہی ہم اس کے متعلق کوئی غور وفکر کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان کی خیر خواہی کے سب دعویدار ہیں لیکن کسی بھی قسم کی حرام خوری ترک کرنے کے لیے کوئی ایک فرد بھی تیاروآمادہ نہیں۔ مطمح نظر الیکشن میں کامیابی ہے خواہ وہ ’’لوٹوں‘‘ کے راستے ہی ملے۔ جب بے حسی و بے ضمیری اس حد تک پھیل جائے تو خیر کی توقع رکھنا خود کتنی بڑا دھوکا ہوگا لیکن خیر ہے ہم قیام پاکستان سے قبل تا حال دھوکے کی ٹٹی ہی کے پیچھے تو بھاگتے رہے ہیں جب ستر سال سے نہیں تھکے تو اب کیا تھکیں گے۔