لاہور (نمائندہ جسارت) پاکستان میں پہلی مرتبہ انجکشن کے ذریعے انسولین لگانے کی گائیڈ لائن جاری کردی گئی، پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 3 کروڑ 50 لاکھ سے زائد ہے جن میں سے صرف 4 سے 5 لاکھ مریض اپنی شوگر کنٹرول کرنے کے لے انسولین کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں ذیابیطس کے مریض شوگر بڑھ جانے کے نتیجے میں اپنی ٹانگوں سے محروم ہو جاتے ہیں اور کچھ عرصے میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، دوسری طرف غلط انسولین استعمال کرنے والے مریضوں کو آگہی نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات اپنے ہاتھوں اور پیروں سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار عالمی اور پاکستانی ماہرین نے گائیڈ لائن نیشنل ایسوسی ایشن آف ڈایابٹیز ایجوکیٹرز آف پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ ڈایابٹیزکانفرنس کے دوران کیا۔ کانفرنس سے بیلجیم سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر کرسٹین وین ایکر، تھائی لینڈ کے ڈاکٹر گلاپار سیری واسدی، انٹرنیشنل ڈایابٹیز فیڈریشن مینا ریجن کے سربراہ پروفیسر عبد الباسط، تنزانیہ سے تعلق رکھنے والے ماہر امراض ذیابیطس ڈاکٹر ذوالفقار جی عباس، کانفرنس کے چیئرمین پروفیسر زاہد میاں، متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے پروفیسر حمید فاروقی، پروفیسر بلال بن یونس، مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر طارق فیاض، پروفیسر جمال ظفر، ڈاکٹر عصمت نواز، ڈاکٹر سیف الحق، ڈاکٹر مسرت ریاض، ڈاکٹر ظفر عباسی، ڈاکٹر ارم غفور نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تنزانیہ کے ماہر امراض ذیابیطس پروفیسر ذوالفقار جی عباس کا کہنا تھا کہ دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی ذیابیطس کا شکار ہو کر پاو¿ں کٹنے کے خدشات سے دو چار ہے، انسولین کا استعمال ذیابیطس پر کنٹرول کرنے میں مدد دیتا ہے، جن لوگوں کے پاو¿ں میں شوگر کی وجہ سے زخم ہو جائیں انہیں انسولین کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ ان کی ٹانگوں کو کٹنے سے بچایا جا سکے۔ کانفرنس کے چیئرمین پروفیسر زاہد میاں نے اعداد و شمار کی مدد سے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ دو لاکھ 70 ہزار مریض پاو¿ں اور ٹانگیں کٹنے کی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں، خوش قسمتی سے ان میں سے 80 فی صد افرادکے اعضاءکو علاج اور آگہی کے ذریعے ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ ایسے جوتے تیار کر رہا ہے جس کے نتیجے میں پاو¿ں کی بہتر حفاظت ہو سکتی ہے اور یہ جوتے یورپین مشینوں کے ذریعے تیار کیے جانے کے باوجود نہایت ارزاں قیمت پر مریضوں کو مہیا کیے جاتے ہیں۔ انٹرنیشنل ڈایابٹیز فیڈریشن مینا ریجن کے سربراہ پروفیسر عبد الباسط کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان کے طول و ارض میں ایک سو پندرہ ”فٹ کلینک“ قائم کیے ہیں، جہاں پر ذیابیطس میں مبتلا مریضوں کو علاج کی سہولتیں فراہم کر کے ان کے اعضاءکو کٹنے سے بچایا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کانفرنس کا مقصد ذیابیطس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں سے آگہی پھیلانا، ضرورت مند مریضوں کو انسولین کے استعمال کی طرف راغب کرنا، انسولین کو استعمال کرنے کی آگہی فراہم کرنا اور غلط طریقوں سے انجکشن لگانے کی ممکنہ تباہ کاریوں سے مریضوں کو بچانا ہے۔ بقائی انسٹی ٹیوٹ آف ڈایابٹولوجی اینڈ انڈوکرائینولوجی سے وابستہ ڈاکٹر مسرت ریاض کا کہنا تھا کہ انسولین ایک جان بچانے والا محلول ہے جس کے ذریعے پوری دنیا میں ہر سال لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں، بد قسمتی سے پاکستان میں انسولین استعمال کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے ان میں سے بھی مریضوں کی اکثریت انسولین کو غلط طریقے سے لگاتی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر انسولین لگانے کی سفارشات (گائیڈلائن) پیش کیں اور ڈاکٹروں سے درخواست کی کہ وہ اپنے مریضوں کو Forum for injection techniques گائیڈ لائنز سے آگاہ کریں تاکہ وہ اپنے آپ کو ذیابیطس کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھ سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پیٹ کے حصے میں لگائی جانے والی انسولین کا اثر سب سے بہتر ہوتا ہے جب کہ رانوں کے سامنے والے حصے میں بھی موثر طریقے سے اثر کرتی ہے۔ ارم غفور کا کہنا تھا کہ انسولین کے استعمال سے ذیابیطس کے نتیجے میں ہونے والے پیچیدگیوں پر قابو پا کر عام انسانوں کی طرح زندگی گزاری جا سکتی ہے۔