حکومت اور اندرونی و بیرونی خطرات

545

 

 

خبر ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ’’وقت بدل گیا ہے پاکستان اب مغرب کا محبوب نہیں رہا، امریکی حکام کو ہمارے تقاضے سمجھنے ہوں گے‘‘۔ یہ کہنا اپنی جگہ کہ پاکستان اب مغرب کا محبوب نہیں رہا، بے شک بہت درست ہو لیکن درست یہ ہے کہ پاکستان ہمیشہ اس خود فریبی میں مبتلا رہا ہے کہ وہ مغرب کا لاڈ لا تھا۔ یہ محبوبیت اور لاڈلا پن کبھی ملکوں اور ملکوں کے درمیان نہ تو ہوا کرتی ہے اور نہ ہی اس میں کوئی حقیقت ہے۔ ملکوں اور ملکوں کے درمیان جو چیز کسی محبوبیت کو فروغ دینے والی ہوتی ہے وہ صرف اور صرف دو طرفہ مفادات ہوتے ہیں اور ان مفادات کی پاس داری میں بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی ہی درمیان کی وہ شے ہوتی ہے جس پر اس کی مضبوطی یا کمزوری کا انحصار ہوتا ہے۔ اگر پاکستان میں حکومتوں کو استحکام حاصل ہوتا تو تعلقات بھی مستحکم تر ہوتے لیکن ایک طویل مدت سے حکومتیں غیر مستحکم رہنے کی وجہ سے اب پاکستان کے وہ حالات ہوگئے ہیں کہ ملک کی نئی منتخب حکومت کو اپنے پہلے ہی ہفتے میں حالات کی سنگینی کا احساس ہو چلا ہے جس کا غماز پاکستان کی نئی حکو مت کے وزیر خارجہ کا مذکورہ بیان ہے۔
گزشتہ دنوں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے وزیر اعظم عمران خان اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے درمیان ہونے والی فون کال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکی محکمہ خارجہ نے ٹیلی فون کال پر جو بیان جاری کیا تھا، وہ حقیقت کے برعکس ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے محفوظ ٹھکانوں سے طالبان کو دھکیل کر باہر کرے۔ ان کے خیال میں طالبان محفوظ ٹھکانوں میں اپنے آپ کو منظم کرنے کے بعد افغانستان پر حملہ آور ہو کر ان کی افغانستان میں امن پالیسیوں اور کوششوں کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں۔ شاید ان کا اشارہ ان تازہ اور شدید کارروائیوں کی جانب ہے جس کی لہر آج کل پورے افغانستان میں اٹھی ہوئی ہے اور طالبان کے تابڑ توڑ حملوں کی وجہ سے افغان حکومت شدید مشکلات کا شکار ہے۔ وزیر خارجہ درست فرماتے ہیں کہ پاکستان سے متعلق امریکی وزارت خارجہ کا یہ بیان حقیقت کے خلاف ہے اس لیے کہ پاکستان نے اب اپنے ملک میں کوئی ایسا مقام نہیں چھوڑا جہاں تخریب کاروں کا کوئی ٹھکانہ باقی بچا ہو۔ اب یہ ٹھکانے افغانستان ہی میں بنے ہوئے ہیں اور ان کو معلوم کرنے کے بعد ان کو تباہ کرنے کی ذمے داری افغان حکومت کی ہے لیکن امریکا اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار و آمادہ نہیں اسی لیے پاکستان کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ’’5ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا دورہ پاکستان متوقع ہے، وہ آئے تو دوطرفہ تعلقات پر بات ہوگی۔ امید ہے کہ اس بات چیت میں صورت حال واضح ہو جائے اور امریکا کی رائے میں کوئی مثبت تبدیلی آجائے‘‘۔ اسی طرح بھارت کے ساتھ بات چیت کا مسئلہ بھی ہے جس پر ان کا بیان پچھلی حکومتوں کے بیانات سے مختلف نہیں۔
ایک اور خبر کے مطابق وزیراعظم عمران خان اور امریکی وزیر خارجہ کی ٹیلی فون کال کا تنازع شدت اختیار کرگیا ۔ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ مائیک پومپیو نے وزیراعظم عمران خان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا جس کے دوران انہوں نے پاکستان میں سرگرم تمام دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی جانب سے فیصلہ کن کارروائی کی اہمیت پر زور دیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک جانب جب بھی دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کا ذکر آتا ہے، تمام دنیا کی جانب سے بشمول امریکا ہمیشہ پاکستان کی کوششوں، کاوشوں اور قربانیوں کی نہ صرف تعریف کی جاتی ہے بلکہ اسے خوب سراہا جاتا ہے لیکن فوراً بعد جو مطالبہ سامنے آتا ہے وہ ’’ڈومور‘‘ کا ہوتا ہے۔ دنیا پاکستان پر اپنا دباؤ بر قرار رکھنا چاہتی ہے۔ جو بھی صورت حال ہو، پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی کارکردگی کا از خود بھی جائزہ ضرور لیتا رہے اور مطالبات پر ضد کے بجائے غور کی پالیسی کو اختیار کرتے ہوئے پاک امریکا تعلقات کو بہتری کی جانب لانے کی کوشش کرے۔ جیسا کہ خود امریکا کا کہنا ہے کہ افغان امن عمل کو بڑھاوا دینے میں پاکستان کا اہم کردار ہے۔ گویا امریکا بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ خطے میں امن کے لیے پاکستان بہت اہم ہے۔ یہ پاکستان کے سمجھنے اور فائدہ اٹھانے کے لیے بہت ضروری ہے۔ راقم الحروف کی خواہش ہے کہ بیانات کے ان تضادات کو دور ہونا چاہیے اس لیے اس قسم کے ابہام حالات کی خرابی کا سبب تو بن سکتے ہیں حالات کو بہتری کی جانب نہیں لے جا سکتے۔
ایک جانب پاکستان پر بیرونی دباؤ ہے کہ بڑھتا جارہا ہے اور ہر آنے والا لمحہ خطرے کی گھنٹیوں پر گھنٹیاں بجا رہا ہے دوسری جانب ہماری غیر سنجیدگیاں ہیں کہ وہ ختم ہو کر نہیں دے رہی ہیں۔ ہم اپنے اندرونی معاملات میں اتنے زیادہ ملوث ہو گئے ہیں کہ ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہو پا رہا کہ سرحدوں کے پار خطرات کے بادل کتنے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم اپنے قیمتی وقت کو اسی میں ضائع کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ ہفتے میں چھٹیاں دو ہونی چاہئیں یا ایک، دن کا آغاز کار 8 سے ہونا چاہیے یا 9 بجے سے، گزشتہ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں نے اپنے اپنے ہاؤسز میں رہتے ہوئے کس کس مد میں کیا کیا اخراجات کیے اور بڑے بڑے منصوبوں میں کس نے کتنا کمایا اور کتنا کھایا۔ جب اندرون ملک یہ صورت حال ہو اور میڈیا پر بیٹھ کر اپنے ہی ملک کے حالات کو پوری دنیا میں پھیلایا جائے تو پھر کسی اور دشمن کی ضرورت ہی کیا رہ جائے گی۔ گزشتہ دور کی کارکردگی کا جائزہ ضروری ہے لیکن اس کے لیے ملک میں بڑے بڑے محکمے اسی کے لیے بنائے گئے ہیں۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے اجلاسوں میں ان باتوں پر اپنا وقت برباد کرنے کے بجائے یہ کام ذمے دار محکموں کے حوالے کرے اور اپنے اجلاسوں میں ملک کی تعمیر نو پر غور و فکر کرے۔ اس سے ایک جانب اوقات کا استعمال بھی بہتر ہو جائے گا اور یہ تاثر بھی ختم ہو جائے گا کہ حکومت انتقامی کارروائیوں پر کمر بستہ ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ جس تبدیلی کا ذکر ہر دو جملوں کے بعد دہرایا جارہا ہے اس کو مثبت سمت کی جانب بڑھایا جائے گا اور اس انداز میں بڑھا یا جائے گا کہ مخالفین بھی اس تبدیلی کو ماننے سے انکار نہیں کر پائیں گے۔ اگر موجودہ حکومت ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئی تو بہت خوب ورنہ تو حکومتیں آتی جاتی رہی بھی ہیں اور جب تک پاکستان ہے آتی جاتی رہیں گی۔