قدغنیں، پابندیاں، صحافت اور ذمے داریاں

286

 

 

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے خواہ رپورٹر ہوں، کیمرہ مین، اینکرز حضرات ہوں یا صحافی، اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر خبروں کی حقیقت تک پہنچنے کی اپنی سی کوشش ضرور کرتے ہیں اور اس کوشش میں اکثر وہ کام بھی آجاتے ہیں۔ صحافت سے تعلق رکھنے والے خواہ وہ افراد ہوں جو صحافت کو ایمان سمجھ کر کرتے ہوں یا کمائی کا ذریعہ بنا کر لفافہ گیری، ہر دو صورت میں وہ اپنے اپنے مخالفین کی زد میں ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی مرحلے اور مقام پر وہ کسی نہ کسی کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بن جاتے ہیں بلکہ اکثر اوقات وہ اپنی زندگیاں بھی ہار بیٹھتے ہیں۔ یہ تو وہ خطرات ہیں جو کسی بھی طور ان کا پیچھا چھوڑ ہی نہیں سکتے لیکن ان دوطرفہ خطرات کے علاوہ بھی سب سے بڑا عذاب یہ ہوتا ہے کہ حکومت پر بیٹھے مضبوط اور طاقتور افراد اور ملک کے وہ ادارے جن کے ہاتھ میں بے شمار اختیارات اور ہر قسم کی طاقتیں ہیں، وہ بھی میڈیا پر، خواہ وہ الیکٹرونک ہو یا پرنٹ، اپنا دباؤ اس حد تک ڈالتے ہیں کہ صرف وہی خبریں چھاپی یا سنائی یا دکھائی جاسکتی ہیں جس حد تک وہ چھاپنے یا سنانے یا دکھانے کی اجازت دے دیں۔ بی بی سی نے صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم ’’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے)‘‘ کی ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق پاکستان میں صحافیوں کی جان کو خطرہ ہے۔ بے شک ان کے خلاف ہونے والے تشدد میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کمی آئی ہے لیکن مجموعی طور پر آزاد صحافت کرنے کے حالات مزید ناموافق ہو گئے ہیں۔ ایکٹس آف اینٹی میڈیشن‘ یعنی ’ڈرانے دھمکانے کے اقدامات‘ کے نام سے تیار کی گئی اس رپورٹ کے لیے سی پی جے کے دو افسران نے فروری 2018 میں پاکستان کے پانچ شہروں کا جن میں کراچی، اسلام آباد، لاہور، پشاور اور اوکاڑہ شامل ہیں، دورہ کیا جہاں انہوں نے صحافیوں اور مختلف میڈیا کے اداروں سے ملاقاتیں کی۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں صحافیوں سے گفتگو کے بعد تیار کی گئی اور ان کے مطابق صحافیوں کی جانب سے دیے گئے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں میڈیا کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی فوج کی جانب سے خاموشی سے لیکن مؤثر انداز میں رپورٹنگ کرنے پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ کبھی مختلف علاقوں تک رسائی حاصل کرنے سے منع کیا جاتا ہے تو کہیں پر سیلف سنسر شپ کے لیے براہ راست یا بالواسطہ طریقے سے کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے کبھی مدیروں کو فون کر کے شکایت کی جاتی ہے اور کبھی مبینہ طور پر ان کے خلاف تشدد کرنے کے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ سی پی جے نے لکھا کہ رپورٹ کی تیاری میں انہوں نے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کو سوالات کی تفصیلی فہرست ای میل کی تھی لیکن انہیں اس کا جواب نہیں ملا۔ کمیٹی کے مطابق آصف غفور نے ملاقات کی درخواست کا بھی جواب نہیں دیا اور اس کے علاوہ (سابق) وفاقی وزیر اطلاعات سے طے کی گئی میٹنگ آخری لمحات میں منسوخ کر دی گئی تھی۔ سی پی جے کی رپورٹ میں جن صحافیوں سے بات کی گئی ان کے مطابق دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر حملے اور فوجی کاروائیوں کے بعد میڈیا کے اراکین کے خلاف حملوں کی تعداد میں واضح کمی آئی لیکن رپورٹ میں درج ہے کہ جہاں ایک جانب اچھی خبر اس حوالے سے سامنے آئی ہے کہ صحافیوں کو قتل کیے جانے کے واقعات میں کمی آئی، صحافیوں پر حملے کیے جانے کے خدشات وہیں کے وہیں ہیں۔ ملک بھر میں چند صحافی جیسے طلحہ صدیقی اور احمد نورانی پر ہونے والے حملوں کا ذکر کرنے کے علاوہ رپورٹ میں جیو ٹی وی چینل اور انگریزی روزنامہ ڈان کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’یہ ملک بھر میں آزادی صحافت پر قدغن لگانے کی مثال ہیں۔ سی
پی جے کی رپورٹ میں اکتوبر 2016 میں ڈان میں شائع ہونے والی اس خبر کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جو بعد میں ’ڈان لیکس‘ کے نام سے مشہور ہوئی تھی۔ ڈان اخبار کے مدیر ظفر عباس نے سی پی جے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈان لیکس‘ کا معاملہ اسی لیے چلتا رہا کیوں کہ ملک میں سول ملٹری تعلقات ابھی بھی ناساز ہیں۔ سی پی جے کی رپورٹ کے مطابق ’فوج اور دوسرے طاقتور اداروں نے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جو میڈیا کی آزادی میں رکاوٹ بنتے ہیں‘ اور اس کی وجہ سے میڈیا کو ملک کے حالات اور اہم معاملات سچائی کے ساتھ پیش کرنے میں دشواری کا سامنا ہے اور اس سے عوام کو حالات سے مکمل واقفیت نہیں ہوتی۔
یہ تو وہ باتیں ہیں جو بی بی سی نے رپورٹ کی ہیں۔ اس میں کتنی صداقت ہے اور کتنا غلو سے کام لیا گیا ہے لیکن جو صورت حال سب کے سامنے ہے اور خصوصاً ہمارے الیکٹرونک میڈیا کی صورت حال وہ بہت ہی غور طلب ہے۔ اب تو کوئی ایک چینل بھی ایسا نظر نہیں آتا جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ یہ آزاد ہے اور اس کے اینکرز، اس میں بلائے جانے والے تجزیہ نگار، مبصرین اور صحافی پارٹی نہیں ہیں۔ ہر چینل پر یہ سارے افراد کسی نہ کسی پارٹی یا اداروں کے ترجمانوں کا کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔ مذکورہ نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ آیا میڈیا مقتدر اداروں کے زیر اثر ہے یا پھر چینلوں کے مالکان دولت اور مفاد کی زلف اسیر ہو گئے ہیں اور ان کے نزدیک پارٹیوں، بااثر افراد اور چمک کی چمک دمک ہی صحافت کا معیار بن گئی ہے۔ آج سے 30 چالیس برس قبل صحافی ہوں یا ادیب، شعرا ہوں یا سیاست دان سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہنے کے لیے کسی طور آمادہ نہیں ہوا کرتے تھے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے ماضی کا سیاست دان ہو، مذہبی رہنما ہو، شاعر ہو، ادیب ہو یا سیاسی پارٹی کا سربراہ، سب نے حق بات کہنے کی پاداش میں حکومت وقت کی سختیاں برداشت کیں، جیلوں کی ہوائیں کھائیں، سر عام کوڑے کھائے اور اکثر اپنی زندگیاں بھی گنوا بیٹھے لیکن زہر ہلاہل کو قند کسی طور بھی کہنا یا لکھنا گوارہ نہیں کیا لیکن فی زمانہ پاکستان کی ساری جیلیں اب ان کے لیے بند ہو چکی ہیں اس لیے سب نے ایک ہی اصول بنا لیا ہے کہ وہی کہنا اور لکھنا ہے جس کا یا تو کہا جائے گا یا پھر ہر جھوٹ سچ کا معاوضہ ملے۔
کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ایسا کرنے سے ان سے باز پرس کرنے والا کوئی نہ ہوگا، یہ سوچ بالکل غلط ہے اس لیے کہ جب ہر جانب جھوٹ اور پروپیگنڈا عام ہوجاتا ہے تو اس سے ذہنی خلفشار اور الجھنیں جنم لیتی ہیں اور جب یہ خلفشار اور الجھنیں حد سے سوا ہوجاتی ہیں تو اس ماحول میں رہنے والے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور پھر ہوتا یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی سر پھرا کسی سے جا ٹکراتا ہے اور اس کا کام اتار دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند برسوں کے مقابلے میں صحافیوں پر تشدد ہونے کے واقعات میں کمی آئی ہے لیکن اس کمی کا سبب یہ نہیں کہ صحافت اپنی پٹڑی پر چڑھ گئی ہے بلکہ اس کا مطلب ’’ڈنڈا‘‘ ہے۔ اس کو دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حالات کے ستائے موقع کی تلاش میں ہیں اور جونہی ان کے لیے حالات ساز گار ہوئے وہ پھر سے ابل پڑیں گے اور ممکن ہے کہ حالات پہلے سے بھی ابتر ہو جائیں۔ ان سب باتوں کو سامنے رکھ کر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر صحافی حضرات کے گرد تنگ ہونے والے گھیرے کو رفتہ رفتہ ڈھلا نہ کیا گیا، شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے اپنے ضمیروں کے سودے کرنے ترک نہ کیے اور مالکان نے اپنی آنکھوں پر بندھی پٹیاں نہ کھولیں تو آنے والا دور کوئی بھی خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے ہر ہر فرد، تنظیمیں، پارٹیاں، ادارے، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے مالکان اپنے اپنے رویوں اور پالیسیوں کو تبدیل کریں اور خواہ کچھ بھی کرنا پڑے، عوام کے سامنے وہی کچھ رکھیں، لکھیں، بیان کریں اور دکھائیں جو سچ ہو اور اس سچ کو لکھنے، بیان کرنے اور دکھانے میں خواہ بڑی سے بڑی سزا کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے اسے سہہ لیں۔ اسی طرز عمل میں عزت ہے اور یہی صحافت کی معراج ہے۔