چینی جبر…….شدت پسندی کو دعوت دے گا

522

چین کا مغربی صوبہ سنکیانگ جہاں اکثریت اویغورکی ہے۔ اویغور مسلمانوں کی ہے، صوبے میں اُن کی آبادی 45 فی صد سے زیادہ ہے، سرکاری طور پر سنکیانگ کا شمار تبت کی طرح خود مختار علاقے کے طور پر ہوتا ہے۔ 1948ء سے قبل یہ آزاد علیحدہ ریاست تھی، یہ لوگ ترکی بولنے والے مسلمان ہیں۔ حالیہ برسوں میں حکومتی جبر کے باعث ہزاروں اویغور یہاں سے نقل مکانی کرچکے ہیں جن میں سے کچھ بیرون ملک بھی گئے۔ لیکن وہاں بھی انہیں حکومتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ تین سال قبل تھائی لینڈ جانے والے 109 اویغور مسلمانوں کو چین کے دباؤ پر ملک بدر کردیا گیا۔ حالاں کہ چین واپسی پر انہیں سنگین تشدد کا نشانہ بنانے کا خدشہ تھا۔
چینی حکومت اویغورکے ساتھ امتیازی سلوک کی متعدد بار تردید کرچکی ہے، بلکہ اُس کا کہنا ہے کہ وہ علاقے کی ترقی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ اسی باعث گزشتہ برسوں میں سنکیانگ کی مجموعی پیداوار میں 6 سے 7 فی صد کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ سنکیانگ کے معاملے میں لگتا ہے کہ چین حساسیت کا شکار ہے، سنکیانگ کے مغربی حصے میں ’’کاشغر‘‘ واقع ہے یہ وہی کاشغر ہے جس کا ذکر اقبال کے مشہور شعر میں ہے:۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر
یہ شہر ہمیشہ سے مسلمانوں کا ایک اہم تجارتی مرکز تھا اور ہے اور اب یہ شہر چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ اس منصوبے کے تحت چین کو ایشیا کے دیگر علاقوں اور ساتھ ہی مشرق وسطیٰ کے علاقوں سے منسلک کرنے کے لیے ایک بڑے بنیادی ڈھانچے اور سڑکوں کی تعمیر شامل ہے۔
2017ء میں چین میں ون بیلٹ ون روڈ سے متعلق ایک سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس وقت حفاظتی انتظامات کا نام لے کر کاشغر میں باقاعدہ فوجی مشقیں کی گئیں، ایک عجیب خوف کی فضا پیدا کی گئی، وہاں دن میں تین چار بار خطرے کا الارم بجائے جاتے جس کے بعد دکانداروں کو حکومت کی طرف سے فراہم کردہ لاٹھیاں اُٹھائے اپنی دکانوں سے باہر نکلنا ہوتا۔ دکانداروں سے کہا گیا کہ وہ اپنے خرچے پر سیکورٹی دروازے اور کیمرے نصب کریں، عوام کے لیے یہ ایک تکلیف دہ حالات تھے۔ پھر تو حالات خراب ہوتے چلے گئے، ڈاڑھی رکھنے پر جزوی پابندی، عوامی مقامات پر پردہ کرنے، مسلمان نام رکھنے پر پابندی وغیرہ۔ 2016ء میں یہ خبر بھی آئی کہ سنکیانگ صوبے میں مسلمان سرکاری ملازمین طلبh اور بچوں پر روزہ رکھنے کی پابندی عاید کی گئی ہے مگر چینی حکام نے اس کو بے بنیاد قرار دیا۔ ابھی بات یہ ہوئی کہ چین کی حکومت نے اس وقت ان بے بنیاد اطلاعات کے متعلق حقائق جاننے کے لیے پاکستان کو دعوت دی اور پاکستان سے چار رکنی وفد روزہ رکھنے پر پابندی کی اطلاعات کا جائزہ لینے چین گیا۔ چین میں حکومتی اطلاعات کے مطابق ڈھائی کروڑ اور مسلمانوں کے مطابق 5 سے 6 کروڑ مسلمان بستے ہیں۔ ان میں سے ایک کروڑ سے زیادہ اویغور مسلمان ہیں جو سنکیانگ میں آباد ہیں۔ پچھلے ماہ اگست 2018ء میں اویغور شہریوں کو حراست میں لینے کی اطلاعات آئیں، چینی حکام نے تسلیم کیا کہ اویغور مسلمانوں کو تمام حقوق حاصل ہیں لیکن مذہبی انتہا پسندی کا شکار افراد کی آبادکاری اور اُن کی دوبارہ تعلیم و تربیت کے ذریعے مدد کی جائے گی۔
یہ تعلیم و تربیت کیا ہے؟؟
ہیومن رائٹس واچ کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ 1966ء سے 1976ء کے دوران رونما ہونے والے چین کے ثقافتی انقلاب سے سنگین ترین یعنی انسانی حقوق کی پامالی کی سب سے خراب صورت حال ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور کئی دوسرے اداروں کے مطابق سنکیانگ کے ایک لاکھ بیس ہزار سے دس لاکھ تک افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے۔ ان افراد کو جو مسلمان ہیں سیاسی تعلیم و تربیت کے نام پر کیمپوں اور مراکز میں رکھا گیا ہے۔ حراست کے دوران مسلمانوں کو زبردستی روزانہ منعقد ہونے والی کلاسوں میں جانے، اسلام کے بعض پہلوؤں سے انکار کرنے، چین کی ثقافت کو اپنانے اور کمیونسٹ پارٹی سے وفاداری کے اعلان پر مجبور کیا جاتا ہے۔ وہاں سے رہا ہونے والے کچھ افراد کا کہنا ہے کہ انہیں سیکورٹی اہلکاروں نے اذیت کا نشانہ بھی بنایا۔ چین نے اپنے اس اقدام کو ’’تعلیم کے ذریعے تبدیلی‘‘ یا ’’انتہا پسندی کی مدافعت میں تعلیم‘‘ کا نام دیا ہے۔ چین کے سرکاری اخبار ’’گلوبل ٹائمز‘‘ نے اس خطے میں سخت پابندیوں کا دفاع کرتے ہوئے لکھا کہ ’’وہ اس طرح علاقے (سنکیانگ) کو چین کا لیبیا یا شام بننے سے بچا رہے ہیں۔
چین کو اس معاملے میں سمجھداری سے کام لینا چاہیے، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کے معاملے میں ایسی سختی الٹا اثر کرتی ہے افغانستان کی مثال سامنے ہے جس نے روس جیسی سپر پاور کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ چین سرکاری طور پر مذہبی آزادی کو تحفظ دیتا ہے لہٰذا سنکیانگ میں مسلمانوں پر مذہبی اور ثقافتی جبر چین کی ساکھ کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ چین جس شدت پسندی سے ڈر رہا ہے اس جبر کے ذریعے دراصل وہ اُسی کو دعوت دے رہا ہے۔
چین کا منصوبہ ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلمانوں میں اپنی ساکھ بنا کر رکھے کیوں کہ یہ منصوبہ جن ملکوں سے ہو کر گزرتا ہے اُن میں بہت سے ملک مسلمان ہیں۔