اقوام متحدہ میں وزیرخارجہ کا خطاب

352

 

اقوام متحدہ کے 73 ویں جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ نے پاکستان کی قومی زبان اردو کو ذریعہ اظہار بنایا جو ایک خوش کن خبر ہے۔ اقوام متحدہ کے اسی قسم کے اجلاسوں میں اکثر یہ بات نوٹ کی جاتی رہی ہے کہ بھارت کے نمائندے تو ہندی زبان کو ذریعہ اظہار بناتے رہے ہیں لیکن پاکستان کے مندوبین ہمیشہ انگریزی ہی کو اظہار خیال کے طور پر استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں اردو میں خطاب اور پاکستانی موقف کا سامنے آنا پاکستانی عوام کے لیے ایک اچھی خبر ہے اور امید کی جاتی ہے کہ پاکستان سے باہر جہاں جہاں بھی اور جس جس فورم پر پاکستان کا موقف بیان کیا جائے گا اب اس کا ذریعہ اظہار اردو زبان ہی ہوا کرے گا۔ اس سلسلے میں ایک بات اور سامنے آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اردو کو ذریعہ اظہار بنانے کی پیشگی اطلاع اقوام متحدہ کے منتظمین کو نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اس تقریر کو تمام شرکا کے لیے نشر نہیں کیا جاسکا۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ ایک اچھی بات بھی پاکستان کے لیے بہت اچھی ثابت نہیں ہوسکی اس لیے کہ ہندوستان یا برصغیر سے تعلق رکھنے والے چند ممالک کے مندوبین کے سوا پاکستان کے موقف کو شاید ہی کوئی دوسرا ملک بر وقت سمجھ سکا ہو۔ اگر ایسا قدم اٹھانے سے قبل منتظمین کو آگاہ کردیا جاتا تو دنیا کا ہر ملک پاکستان کے وزیر خارجہ کی تقریر کو نہ صرف سن پاتا بلکہ ممکن ہے کہ وہ اس پر بر وقت اظہار خیال بھی کرتا جس کی وجہ سے کئی ممالک کی تائید پاکستان کے حق میں جا سکتی تھی۔ وزیر خارجہ کے خطاب کی جو خاص باتیں سامنے آئی ہیں ان کو سامنے رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے عوام کے جذبات کی بہت حد تک ترجمانی کی ہے جس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔
بھارت روز بروز جس قسم کا سخت لہجہ اختیار کرتا جارہا ہے اور آنے والے ہر دن کو جنگ و جدل کی جانب دھکیلتا ہوا نظر آرہا ہے اس پر بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے بھارت کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ ’’بھارت ہمارے صبر کا امتحان نہ لے، بھارت نے اگر سرحد پر کوئی مہم جوئی کی تو بھرپور جواب دیا جائے گا‘‘۔ یہ ایک بروقت اور دلیرانہ موقف ہے جس سے پاکستان نے بھارت کو آگاہ کر دیا ہے۔ پاکستان بھارت کے مقابلے میں ایک کمزور ملک ہی سہی لیکن بھارت کو معلوم ہونا چاہیے کہ جنگیں فقط ہتھیاروں کی کثرت سے نہیں جیتی جایا کرتیں۔ فتح کے لیے عزم و حوصلہ بڑی سے بڑی طاقت کو بھی شکست پر مجبور کر دیتا ہے۔ امریکا کی ’’ویتنام اور افغانستان‘‘ میں اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے میں ناکامی اس بات کا ایک بہت واضح ثبوت ہے۔ اس اجلاس میں کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو نہایت شدت سے اجاگر کیا گیا ہے بلکہ گزشتہ ادوار کے برعکس اس مرتبہ زیادہ مؤثر انداز اختیار کیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ نے کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے وہاں ہونے والے مظالم کا نہ صرف تفصیل سے ذکر کیا بلکہ مطالبہ کیا کہ ’’مسئلہ کشمیر میں قتل و غارت پر اقوام متحدہ ایک آزاد کمیشن تشکیل دے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’سمجھوتا ایکسپریس میں جاں بحق ہونے والے بے گناہ پاکستانیوں کوکبھی نہیں بھولیں گے جن کے قاتل بھارت میں آزاد پھر رہے ہیں‘‘۔
دنیا مسلمانوں کے جذبات نہ صرف مجروح کرتی آئی ہے بلکہ وہ مسلمانوں کے نبی آخرالزماں سیدنا محمد عربی ؐ کی توہین بھی کرتی آئی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ مسلمان اپنے اوپر ظلم و زیادتی تو برداشت کر سکتے ہیں اور ہر قسم کی زیادتوں کو بھی معاف کر سکتے ہیں لیکن وہ کبھی اس بات کو گوارہ نہیں کر سکتے کہ کوئی ان کے نبی ؐ کی شان میں کسی بھی قسم کی کوئی توہین آمیز بات یا حرکت کرے۔ گزشتہ کسی برسوں سے دنیا ان کے جذبات سے کھیلتی آرہی ہے اور حالیہ دنوں میں ہالینڈ میں بننے والے ایک منصوبے میں اس بات کی کوشش کی جارہی تھی کہ وہاں آپ ؐ کے بیہودہ کارٹون بنا کر سوشل میڈیا پر نشر کیے جائیں۔ اس اطلاع پر پوری دنیا اور خاص طور پر پاکستان میں شدید رد عمل پایا گیا جس کی وجہ سے ہالینڈ کی حکومت نے ایسی گستاخانہ منصوبہ بندی کو مؤخر کرادیا۔ یاد رہے کہ کہ ایسی مذموم حرکت کو صرف مؤخر کیا گیا ہے اس کو منسوخ نہیں کیا گیا۔ گویا ایسا کچھ پھرکسی وقت بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسی بات کو سامنے رکھ کروزیر خاجہ شاہ محمود قریشی نے ہالینڈ کو خبردار کرتے ہوئے اقوام عالم سے کہا ہے کہ اس قسم کی کارروائیاں بند ہونی چاہئیں تاکہ مسلمانوں کی دل آزاری نہ ہو۔ وزیرخارجہ نے مزید کہا کہ ’’آج دنیا ایک دوراہے پر کھڑی ہے، دنیا کے بنیادی اصول متزلزل دکھائی دے رہے ہیں، برداشت کی جگہ نفرت اور قانون کی جگہ اندھی اور بے لگام طا قتیں غلبہ پارہی ہیں، دنیا میں نئے راستوں کی جگہ رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں، نفرتوں کی فصلیں اگائی جارہی ہیں، سامراجیت کی نئی شکلیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ تجارتی جنگ کے گہرے بادل افق پر نمودار ہوچکے ہیں، دوسری جنگ عظیم کے بعد بین الاقوامی اتفاق رائے کی جگہ ایک مبہم عسکری سوچ نے لے لی ہے یہ عمل عالمی امن کے لیے خطرناک ہے، عالمی تنازعات کے ساتھ ساتھ نئے تفرقات جنم لے رہے ہیں، مسئلہ فلسطین آج بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ ناموس رسالت کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ سب کے سامنے ہے، دیگر مذاہب کی جانب سے جہاں برداشت کے نظریات ہونے چاہئیں وہاں اب نفرتوں نے جنم لیا ہے‘‘۔ وزیر خارجہ نے اس جانب بھی توجہ دلائی کہ پاکستان کو تنہا کرنے کی قوتیں غالب ہوتی نظر آرہی ہیں، پاکستان اپنے قومی مفادات پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کرے گا۔ ہم اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کی مدد سے تہذیبوں کے درمیان تصادم روکیں گے اور اسلام دشمنی کا بھرپور مقابلہ کریں گے۔ بھارت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات اور سنجیدہ مذاکرات کے ذریعے تمام تنازعات کا حل چاہتے ہیں، اقوام متحدہ کے اس اجلاس میں پاک بھارت متوقع ملاقات ایک اچھا موقع تھا جس میں تمام معاملات پر بات چیت ہوتی لیکن مودی حکومت نے منفی رویے کی وجہ سے موقع تیسری بار گنوا دیا۔ بھارتی قیادت نے امن پر سیاست کو فوقیت دی، ایک ڈاک ٹکٹ کو بنیاد بنایا جو مہنیوں پہلے جاری ہوا، بھارت نے مذاکرات کی میز پر آنے سے انکار کردیا جو ایک افسوسناک بات ہے۔ بھارت جان لے مذاکرات ہی واحد راستہ ہے جس سے دیرینہ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
وزیر خارجہ نے کشمیر کے مسئلے کی جانب اقوام متحدہ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ: مسئلہ کشمیر خطے کے امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جسے 70 سال ہوگئے، یہ امن اس وقت تک قائم نہیں ہوگا جب تک اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہیں ہوتا، یہ مسئلہ انسانیت کے ضمیر پر ایک بدنما داغ ہے۔ کشمیر کے باشندے 70 سال سے انسانی حقوق کی پامالی سہتے آئے ہیں، یو این او کی حالیہ رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہیں جس میں کشمیر میں ریاستی جبر کا مکروہ چہرہ دکھایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں بھارتی فوج نے کیا کیا مظالم ڈھائے۔ دہشت گردی کی آڑ میں اب بھارت کشمیر میں منظم قتل و غارت کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکے گا، ہم کشمیر میں قتل و غارت پر ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں جو ذمے داروں کا تعین کرے، اب یہ عمل ناگزیر ہوگیا ہے، امید کرتے ہیں کہ بھارت بھی کمیشن کو تسلیم کرے گا۔ کشمیر میں قابض افواج کی درندگی سے نظر اٹھانے کے لیے بھارت ایل او سی پر فائرنگ کرتا ہے، بھارت کو ہمارے صبر کا امتحان نہیں لینا چاہیے، اگر وہ ہم پر حملے کی غلطی کرتا ہے تو اسے پاکستان کی جانب سے بھرپور رد عمل کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ سب وہ نقاط ہیں جو ہر پاکستانی کے دل کے تر جمان ہیں۔ اس بات کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان کے وزیر خارجہ نے ہر وہ بات اقوام عالم کے سامنے رکھ دی جس کی خواہش ہر پاکستانی کو تھی۔ اب یہ کام اقوام عالم کا ہے کہ وہ پاکستانی وزیر خارجہ کے بیان کردہ ہر ہر نقطے کا بخوبی جائزہ لے۔ اگر دنیا خطے میں امن کی واقعی خواہش مند ہے تو اسے ہر ہر بات کا خوب اچھی طرح جائزہ لینا ہوگا، فوری، مثبت اور بھرپور اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ بھارت اور پاکستان کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوگا۔
پاکستان نے امریکا کا نام لیے بغیر اقوام متحدہ کے سامنے یہ بات بھی بڑی خوبی سے رکھ دی کہ پاکستان گزشتہ کئی دھائیوں سے د ہشت گردی کا مقابلہ کر رہا ہے۔ اپنے اسی موقف کو اقوام متحدہ کے سامنے رکھتے ہوئے وزیر خاجہ کا کہنا تھا کہ ’’ہم 17 سال سے دہشت گردی کی جنگ سے نبرد آزما ہیں، دو لاکھ افواج کی مدد سے دنیا کا سب سے بڑا آپریشن کیا، آج بھی ہمارا مشرقی ہمسایہ دہشت گردوں کی مالی مدد اور معاونت کررہا ہے اور ہزاروں جانوں کا ضیاع اس کا نتیجہ ہے، ہم پاکستان میں ہونے والے حملوں میں ہندوستان کی معاونت کو نہیں بھول سکتے‘‘۔ پاکستان نے دنیا کے سامنے اپنی بات بہت وضاحت کے ساتھ رکھ دی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے لیے دنیا کیا موقف اختیار کرتی ہے۔