چودھریوں کی جگت بازی

421

جناب فواد چودھری ہمیں تو بہت اچھے لگتے ہیں۔ بھولے بھالے‘ گول مٹول سے۔ ان سے جلنے والے کہتے ہیں کہ وہ بھولے کم ہیں اور بھالے زیادہ ہیں۔ ویسے وہ عمران خان کے بھالا بردار تو ہیں۔ ہمیں تو وہ اس لیے بھی اچھے لگتے ہیں کہ وفاقی وزیر اطلاعات ہیں اور ایک طرح سے ہمارے وزیر ہوئے۔
ایک خوبی ان کے اندر اور بھی ہے جو اقتدار میں آکر دریافت ہوئی ہے اور وہ یہ کہ وہ بڑے اچھے جملہ باز ہیں۔ ممکن ہے یہ خوبی پیدائشی ہو لیکن کبھی کھل کر سامنے نہ آسکی ہو۔ اب چوں کہ وہ وزیر ہیں اس لیے ان کی ہر بات کلام الملوک سمجھی جاتی ہے۔ وہ اپنے نام کے ساتھ چودھری لگاتے ہیں اور چودھری ہی ہوں گے لیکن جگت بازی کبھی میراثیوں کی میراث تھی جو چودھریوں کو خوش کرنے کے لیے کرتے تھے۔ شادی‘ بیاہ یا کسی اور تقریب میں انہیں خاص طور پر بلایا جاتا تھا اور وہ اپنی ضلع جگت اور پھبتیوں سے چودھری کے مہمانوں کو خوش کرتے تھے۔ اب تو یہ فن ہی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ زیادہ تر فن کار اسٹیج ڈراموں اور فلموں میں جا کر آرٹسٹ بن گئے۔ گاؤں دیہات میں اب بھی کہیں کہیں پائے جاتے ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ بڑے ذہین ہوتے ہیں اور بغیر کسی اسکرپٹ یا تحریر کے موقع کی مناسبت سے گہری چوٹ کر جاتے ہیں۔ دلدار پرویز بھٹی بھی ایسے ہی فن کار تھے جو ٹی وی کی نذر ہوگئے۔ وہ خود اعتراف کرتے تھے کہ وہ میراثی ہیں اور اس پر افسردہ تھے کہ اب غیر میراثی بھی اس میدان میں آگئے اور پشتینی فن کو بٹہ لگا دیا۔
آج کل تو سیاست دانوں میں یہ فن بڑا مقبول ہے اور ایک سے ایک بڑا جملہ باز سامنے آیا ہے۔ چودھری فواد تو روزانہ کی بنیاد پر اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں مولانا فضل الرحمن کو دن میں تارے اور رات کو اسرائیلی طیارے نظر آتے ہیں۔ ایک اور صاحب عبدالعلیم خان ہیں جو پنجاب کی بزداری حکومت کے سینئر وزیر ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے بڑے کی پیروی کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن ہی کو نشانہ بنایا اور فرمایا کہ ’’بی جمالو‘‘ ہیں۔ اتنی بڑی ریش اور عمامے والے شخص کو بی جمالو کہنا بدذوقی ہے۔ بی جمالو جو کوئی بھی تھی‘ مونث ہے‘ انہیں بابا جمالا یا جمالی کہا جاسکتا تھا لیکن ممکن ہے ظفر اللہ جمالی برا مان جاتے گو کہ چودھری صاحب کو اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی۔
عبدالعلیم خان صاحب! ذرا اپنے اطراف میں نظر ڈالیں‘ آپ کو اصلی بی جمالو نظر آجائے گی۔ محاورہ یہ ہے ’’بھس میں چِنگی ڈال بی جمالو دور کھڑی۔‘‘ بی جمالو کو یہ کام کرنے کے لیے کراچی آنا پڑا۔ چِنگی چنگاری کی تصغیر ہے یعنی تھوڑی سی آگ‘ بڑی آگ یہ کام پہلے کرچکی۔
ہمارے بہت محترم چودھری نے 4 نومبر کو کراچی میں انکشاف کیا کہ بس سندھ حکومت کا چل چلاؤ ہے‘ عوام پیپلزپارٹی سے مطمئن نہیں‘ سندھ میں غنڈا راج ہے‘ دیکھتے ہیں یہ حکومت کتنے دن چلتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ہم رینجرز کو ہٹالیں تو پولیس کے پاس پالیسی کو نافذ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔
اب اس پر ایک مشاعرہ برپا ہے۔ وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے فواد چودھری کو ’’فساد چودھری‘‘ قرار دے دیا اور کہا کہ وفاق اور پنجاب اپنی فکر کریں‘ سندھ حکومت مانگے تانگے کی نہیں۔ یہ مشاعرہ یا مجادلہ ابھی چلے گا۔
رینجرز کے حوالے سے فواد چودھری نے جو کہا اس پر ہمیں عمران خان کا یہ جملہ یاد آگیا کہ رینجرز کو طلب کرنے کا مطلب ہے کہ ریاست اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام ہوگئی۔ لیکن یہ بات انہوں نے اس وقت کہی تھی جب وہ اقتدار کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اب انہیں منزل تو مل گئی مگر اعتبار نہیں ملا۔ فیض احمد فیض نے تو کہا تھا:
پہنچ کے در پہ ترے کتنے معتبر ٹھیرے
اگرچہ رہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا
مگر عجیب بات ہے کہ جگ ہنسائیوں کا آغاز منزل پر پہنچنے کے بعد ہوا ہے اس میں ہمارے ممدوح چودھری صاحب کی سخن طرازی کا بھی بڑا دخل ہے۔ ٹی وی چینل پر ایک مبصر فرما رہے تھے کہ اچھا تھا عمران خان فواد چودھری کو بھی اپنے ساتھ چین لے جاتے‘ کچھ دن سکون سے گزرتے۔ لیکن ممکن ہے اہل چین بے چین ہو جاتے۔ موصوف نے انکشاف کیا ہے کہ ’’آلو کی فصل 70 دن میں نہیں پکتی۔‘‘ اس سے لگتا ہے کہ ان کا کچھ تعلق محکمہ زراعت سے بھی رہا ہے لیکن ہمیں تو پکّا ہوا آلو ملا ہے۔
محترم مفتی منیب الرحمن بڑے عالم فاضل ہیں اور فتوے بھی دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں ان کو مشورہ دیا کہ ’’آپ اپنے وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری پر پابندی عائد کریں کہ وہ حساس دینی موضوعات پر سیاسی تبصرے سے گریز کریں ورنہ وہ آپ کے لیے اثاثہ بننے کے بجائے ناقابل برداشت بوجھ بن جائیں گے۔ سیاسی معاملات میں وہ اپنا شوق ضرور پورا کریں۔‘‘
ہم مفتی صاحب کے اس تبصرے کو بھی فتوے جیسی اہمیت دیتے ہیں کہ قاضی کا تجزیہ بھی بمنزلہ قضاء ہوتا ہے۔ لیکن ایک قضائے الٰہی بھی ہوتی ہے۔ رہے عمران خان تو انہیں ہر طرح کا بوجھ اٹھانے کی عادت ہے‘ ایک بوجھ یہ بھی سہی۔ ہمیں مفتی صاحب کی اس بات سے اتفاق نہیں کہ چودھری فواد سیاسی معاملات میں اپنا شوق پورا کرتے رہیں۔ فواد چودھری نے گزشتہ دنوں پنجابی کا ایک خوب صورت محاورہ استعمال کیا ہے ’’ذات دی کوڑ کلی‘ چھتیراں (شہتیراں) نوں جھپے‘‘۔ پتا نہیں ان کا اشارہ کس کوڑ کلی (چھپکلی) کی طرف تھا۔ ایک محاورہ ہمیں بھی یاد آگیا ’’بی بی دولتی‘ اپنے آپ ہی کھولتی۔‘‘
زیادہ حد ادب کہ اخبارات کے اشتہاروں کے پیسے پھنسے ہوئے ہیں۔