اور زباں بگڑ گئی 

166

نام تو ہمارا بھی آگیا تھا لیکن بال بال بچے، چنانچہ سال 2018ء میں جان سے گزر جانے والوں کی فہرست میں ہم شامل نہ ہوسکے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جن کے نام آئے ہیں ان کا شمار مشاہیر میں ہوتا ہے۔ مرزا غالب نے اپنے سال وفات کی پیش گوئی کی تھی اور جب ملک الموت نے لفٹ نہیں کرائی تو پیش گوئی غلط ہونے پر یہ دلیل دی کہ اس وقت دلی میں ہر ایرا غیرا ہیضے میں مر رہا تھا، میں نے مرگ انبوہ میں شامل ہونے سے گریز کیا۔
ہم نے اپنے بارے میں کبھی ایسی کوئی پیش گوئی نہیں کی اور بقول غالب ’موت کی راہ نہ دیکھوں کہ بن آئے نہ رہے‘۔ لیکن ہوا یوں کہ 12دسمبر کو اچانک زباں اینٹھ گئی۔ ہم نے کبھی تصور میں بھی چودھری شجاعت کے لہجے کا مذاق نہیں اُڑایا اور ان کے کہے کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔ مگر ہوا یوں کہ ہم پر بھی چودھری شجاعت کا اثر ہوگیا۔ اچھے بھلے دفتر آگئے مگر زبان جو ساری عمر قابو میں رہی، جانے کیوں بے قابو ہوگئی۔ خار حسرت بیان سے نکلنے کے بجائے زبان پر جم کر رہ گیا۔ ہم اپنے طورپر جو کچھ کہہ رہے تھے وہ ہم تو بخوبی سمجھ رہے تھے لیکن سننے والوں کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ یہ حال دیکھ کر ہم سے زیادہ مظفراعجاز گھبرا گئے اور وہ اور مسعود انور زبردستی اسپتال لے گئے۔ اسپتال بھی کون سا؟ اپنے کئی معاملات میں شہرت رکھنے والا آغا خان اسپتال۔
خیال تھا کہ ڈاکٹر کو دکھا کر، کچھ دوائیں لے کر واپس آجائیں گے لیکن تھانے اور اسپتال آنے والوں کو آسانی سے جانے نہیں دیتے۔ ایمرجنسی میں داخل کرکے مختلف حربے آزمائے جانے لگے جنہیں اسپتال کی زباں میں ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔ زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ اپنے لیے کسی اسپتال کا رُخ کرنا پڑا ورنہ تو کبھی کسی ڈاکٹر کو بھی شرف ملاقات نہیں بخشا۔ ایم آر آئی، سی ٹی اسکین اور ای سی جی وغیرہ سب ہی کچھ ہوگئے۔ عجیب عجیب طرح کی مشقیں کرائی گئیں۔ اپنی ناک کو چھو کر ڈاکٹر کو ہاتھ لگاؤ اور ڈاکٹر بھی باریش، ایسی مشقوں کے لیے خوش شکل لیڈی ڈاکٹر نہ سہی نرس (فی میل) تو ہونی ہی چاہیے۔ ناچار جو کہا گیا وہ کرتے رہے البتہ پیشاب ٹیسٹ کرانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اثر زبان پر ہے۔ ڈاکٹر پتا نہیں کیا سمجھ رہے تھے کہ ہلنے جلنے اور چلنے پر بھی پابندی لگادی۔ بس نہ چلا تو آبزرویشن روم میں پہنچادیا گیا جہاں مختلف مشینیں جسم سے وابستہ بلکہ کمربستہ کردی گئیں۔ اس بھیانک کمرے میں ہمارے سوا دیگر 5مریض ایسے تھے جو بولنے کے قابل بھی نہ تھے۔ اللہ ان کو صحت دے لیکن لگتا تھا کہ بس چل چلاؤ ہے۔ اس کمرے میں ایک ہم ہی صحت مند تھے جو روکنے کے باوجود اپنے قدموں پر چل کر باتھ روم تک گئے۔ اس وحشت ناک ماحول میں کب تک رہتے۔ رات 10بجے داخل کیا گیا تھا اور اگلے دن 3بجے پٹا تڑا کر بھاگ نکلے۔ رپورٹ میں لکھ دیا گیا کہ مریض اپنی مرضی سے جارہا ہے، ہم ذمے دار نہیں۔
اس عدم ذمے داری پر 18گھنٹے میں 93ہزار روپے وصول کرلیے گئے، مزید رک جاتے تو جانے کتنا بل بنتا۔ ایک ڈاکٹر نے خیال ظاہر کیا کہ ممکن ہے وہ ہارٹ سرجری کرکے ہی بھیجتے لیکن اسپتال والے لاکھوں روپے سے محروم رہ گئے اور ہم اپنا دل بچا کر لے آئے۔ اگلے دن بچے جاکر ہمارے مرض اور علاج کی سی ڈی لے آئے۔ دوسرے ڈکٹر کو دکھایا تو اس نے سی ڈی دیکھ کر کہا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ معلوم ہوا کہ 93ہزار روپے لے کر کسی اور مریض کی سی ڈی پکڑا دی۔ ہم تو بچ نکلے لیکن اگر ہماری سی ڈی دوسرے مریض کو دیدی تو اس کا تو آپریشن کر ڈالا ہوگا۔
بڑے اسپتال اور بڑے ڈاکٹر اب صرف مشینوں اور ٹیسٹوں پر چلتے ہیں بلکہ ان مشینوں ہی سے اسپتال چلتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ چند دن پہلے ہارٹ اٹیک ہوا تھا جس سے دماغ کو خون فراہم کرنے والی رگ بند ہوگئی۔ اس کا اثر زبان پر پڑا ہے۔ یہ ہارٹ اٹیک کب ہوگیا، ہمیں معلوم نہیں ہوسکا۔ ہم تو پیر، منگل، بدھ کو حسب معمول کئی سیڑھیاں چڑھ کر دفتر آئے تھے۔ ایک اور ڈاکٹر نے انکشاف کیا کہ دل کی جو رگ بند ہوگئی تھی اس نے خود ہی دوسرا راستہ بنالیا۔ گٹر لائن بند ہو تو پانی بھی راستہ نکال لیتا ہے۔ پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے۔ ہمارے خیال میں یہاں نالا ہونا چاہیے تھا۔ اس بیماری اور اس کی تشہیر کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ متعدد دوستوں نے گھر دیکھ لیا، گھر والوں اور دفتر کے رفیقوں کے اصرار پر زندگی میں پہلی مرتبہ دو ہفتے کی چھٹی کی اور بور ہوگئے۔
ہم ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل میں ایک کالم لکھتے ہیں جس کا عنوان ہے ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ ۔یہ عنوان کا اثر ہے یا کسی دل جلے کا سوز نہاں کہ خود ہماری زباں بگڑ گئی، شکر ہے دہن نہیں بگڑا، ہمیں تو اپنی بات کرنے میں دشواری نہ ہوئی البتہ سننے والوں کو ضرور دشواری ہوتی تھی اور ہمیں دونا بلکہ تگنا التفات کرنا پڑتا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب زبان بھی قابو میں آچکی ہے۔ بس سال 2018ء میں انتقال کر جانے والوں کی فہرست دیکھ کر رشک آتا ہے مگر یہ سوچ کر تسلی ہوجاتی ہے کہ ضروری نہیں ہمارا نام بھی اس طرح نمایاں ہو۔ کیسے کیسے لوگ سال گزشتہ نکل لیے۔ ان میں نمایاں ترین نام مشتاق احمد یوسفی کا ہے۔ کلثوم نواز کے علاوہ بھٹو صاحب کے بابائے سوشلزم شیخ محمدرشید کی اہلیہ بیگم شکیلہ رشید بھی ہیں اور دو بڑے علماء بھی رخصت ہوئے۔ مولانا سمیع الحق شہید ہوگئے، کچھ ایسے نام بھی ہیں جن کی مغفرت کی دعاء خاص طور پر کی جانی چاہیے۔ رہے ہم تو ہمارا پتا ابھی جھڑا نہیں ہے، اس سال دیکھی جائے گی۔ جن دوستوں اور ساتھیوں نے جس طرح عیادت کی ہے اس سے بڑا اطمینان ہو چلا ہے۔