ایسا تو چنگیزی دور میں ہی ہوا کرتا تھا

244

انسانی خون میں جو نشہ ہے اور اسے بہانے والے کو جو سرور حاصل ہوتا ہے وہ شاید کسی کا خون بہانے سے حاصل نہیں ہوتا۔ یہ بات بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ جو درد انسانی خون بہتا ہوا دیکھ کر ہوتا ہے وہ بھی ایسا درد ہے جو انسان کے علاوہ کسی بھی جاندار کے خون کو بہتا ہوا دیکھ کر نہیں ہوتا۔ دردِ دل رکھنے والے جانوروں کے ساتھ بھی ہونے والے ظلم پر پْر درد ہوجایا کرتے ہیں لیکن انسانوں کے ساتھ ظلم پر وہی آنکھیں نمناک نہیں ہوتیں جن کے سینے میں دل نہیں پتھر ہوتا ہے۔
یہ بات میں قیاس کی بنیاد پر نہیں بلکہ مشاہدات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ انسان تو انسان، اگر کسی جانور یا درندے کو بھی انسانی خون منہ کو لگ جاتا ہے تو پھر اسے کوئی اور شکار پسند ہی نہیں آتا۔ آدم خوروں کی بستیاں کی بستیاں اور جنگل کے جنگل آباد ہوا کرتے تھے۔ پورا پورا قبیلہ انسانوں ہی کو کھایا کرتا تھا۔ اس مہذب دنیا میں بھی آدم خوروں کی کوئی کمی نہیں۔انسانوں کو تڑپتا دیکھ کر، ان کی چیخیں، آہیں اور سسکیاں سن کر ان کی بانچھیں کھلنے لگتی ہیں اور جب ہر ظلم گزرجانے کا بعد ان کے گلے کاٹے جاتے ہیں یا ان کو گولیاں مار کر ان کا خون بہایا جاتا ہے تو یہ ان کی تسکین کی آخری حد ہوتی ہے۔
یہ بات عام افراد کے اندر ہی نہیں، محافظوں کے اندر بھی ہے اور ایک وبا کی طرح اس تیزی سے بڑھتی جارہی ہے کہ چند برسوں میں ہی یہ وحشی درندے کیڑے مکوڑوں کی طرح ہر در و دیوار سے یاجوج ماجوج کی طرح ہر بلندی و پستی سے نکل کھڑے ہوں گے اور انسانوں کے لہو سے ہولیاں بھی کھیل رہے ہوں گے۔ باپ بیٹوں کو مار رہا ہے، بیوی اپنے شوہر اور بچوں کے گلے کاٹ رہی ہے، بھائی بہن کو اور بہن بھائی کو قتل کررہی ہے اور قوم کے محافظ عوام کو درندگی کے ساتھ گولیوں سے بھونتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ساہیوال کا واقعہ درد ناک سہی لیکن کیا یہ اس قسم کا پہلا واقعہ ہے؟، کیا لوگ ماڈل ٹاؤن کا واقعہ فراموش کر سکتے ہیں؟، کیا سندھ میں 9 ہاریوں کا قتل معمولی واقعہ تھا؟، کیا ایوبی دور میں فاطمہ جناح کی شکست کے بعد کراچی کی خوں ریزی درندگی نہیں تھی؟۔ کیا 92 کا آپریشن کلین اپ مبنی بر انصاف تھا؟۔ کیا اس وقت سے آج تک جاری آپریشن کسی کو یک طرفہ دکھائی نہیں دے رہا؟۔ کیا جنوبی وزیرستان میں کیے جانے والے اور جاری آپریشن میں کہیں بھی زیادتی نہیں ہوئی؟۔ کیا بمباری سے مارے جانے والے سارے کے سارے دہشت گرد ہی تھے؟۔ کیا جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں معصوم بچوں، بچیوں، خواتین اور مردوں کا قتل عام درندگی کی انتہا نہیں تھی؟۔ کیا لاپتا افراد کے لیے کسی عدالت میں پیشی اور ان کے ساتھ انصاف کا سلوک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں؟۔ کیا ہر 90 دن کے بعد مزید 90 دنوں کے ریمانڈ اور 14 روزہ ریمانڈ کے بعد مزید 14 دنوں کے ریمانڈ پر ریمانڈ عین انصاف ہیں؟۔ ہر روز کے پولیس مقابلے اور انسانی خون کو بے دردی کے ساتھ بہنا کسی بھی ظلم کی بات نہیں؟۔ کیا جگہ جگہ سے فورسز کے ہاتھوں اٹھائے گئے افراد کی لاشیں برآمد ہونا کوئی لائق تعزیر جرم نہیں؟۔
یہ سب تو وہ واقعات ہیں جس میں بہر صورت ’’محافظوں‘‘ کی شمولیت ثابت ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ انسانی خون عام انسان یا سیاسی پارٹیاں گلی محلوں، سڑکوں بازاروں، گھروں اور چوراہوں پر بہاتی رہی ہیں لیکن ان کے خلاف قانون آج تک حرکت میں نہیں آیا۔ کیا مشرقی پاکستان میں قتل عام نہیں ہوا؟۔ کیا مغربی پاکستان میں اپنے ہی ہم وطنوں نے کراچی کو خون میں نہیں نہلایا؟۔ کیا علی گڑھ کو یہودیوں نے جلایا تھا؟۔ کیا اغوا برائے تاوان میں سیکڑوں افراد نشانہ نہیں بنائے گئے؟۔ کیا سندھی اور غیر سندھی کے جھگڑے میں سندھ کے 22 شہروں کو راکھ کا ڈھیر نہیں بنایا گیا؟۔ کیا عزتیں تار تار نہیں کی گئیں؟۔ کیا 27 دسمبر 2007 کو تاریخ کبھی فراموش کی جا سکے گی جب گوادر تا فاٹا سب راکھ کا ڈھیر بنادیا گیا تھا؟۔ وہ کون سی درندگی ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قیام پاکستان کے بعد سے تا دم تحریر جاری نہیں ہے۔
یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سب سے زیادہ ظلم کراچی میں توڑا گیا ۔ جس میں تمام قوتیں شامل ہیں ایک طویل تاریخ ہے جو خون سے رنگین نظر آتی ہے لیکن کیا کراچی میں ہونے والے کسی بھی ظلم کے خلاف پاکستان کے ہر چینل پر اسی طرح طوفان برپا ہوا جس طرح پاکستان کے ایک ’’خاص‘‘ صوبے میں ہونے والے کسی بھی واقعے کے بعد زلزلہ آجایا کرتا ہے؟۔ کیا کے پی کے میں ظلم نہیں ہوتا؟۔ کیا بلوچستان ظلم و زیادتی سے پاک علاقہ ہے اور کیا سندھ پر امن ہے؟۔ یہاں ہونے والے سنگین سے سنگین واقعہ کے بعد آوازیں تو ضرور اٹھتی ہیں لیکن شور و شرابہ نہیں مچایا جاتا۔
چار بے بس لوگ درندگی کے ساتھ بھون دیے گئے اور صدمہ ماں کی زندگی بھی چھین لے گیا۔ میں کبھی یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کروں گا کہ وہ دہشت گرد نہیں ہوں گے لیکن قید میں آئے یا پنجروں میں بند پرندوں کو بھی کوئی درندگی سے ’’حلال‘‘ نہیں کرتا۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب سب بے بس کر دیے گئے تھے تو ان کو قتل کس قانون کے تحت کیا گیا۔ اگر قانون کا دوسرا نام بندوق ہے تو پھر یہ بندوق مظلوموں کے پاس بھی ہو سکتی ہے۔ اگر قانون لاقانونیت کر سکتا ہے تو جو ہیں ہی قانون شکن ان کو خلاف ورزی سے کون روک سکتا ہے۔ بلا قانون اگر قانون ہی خشت زنی پر اتر آئے گا تو سنگ باری سے پاکستان کو کون محفوظ رکھ سکے گا؟۔ یہی وجہ ہے کہ رفتہ رفتہ ملک خانہ جنگی کی جانب بڑھتا جا رہا ہے اور انجام کار کوئی اچھی خبریں نہیں سنا رہا۔
میں حیران ہوں تو محض اس لیے کہ جب ایک دہشت گرد کو گھیر ہی لیا گیا تھا تو پھر اس کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا۔ دہشت گرد ہو یا کوئی ڈاکو، کیا بے دردی کے ساتھ مارنے کی اجازت دنیا کا کوئی قانون دیتا ہے۔ کیا بے بسوں کو گیارہ گیارہ گولیاں ماری جاتی ہیں۔ کیا خواتین کو بھی بھونا جاتا ہے۔ کیا کمسن بچی پر بھی 13 گولیاں چلائی جاتی ہیں۔ اول تو جان سے مار دینے کا کوئی قانون، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاکستان میں بنایا ہی نہیں گیا اس پر عالم یہ ہے کہ اس درندگی کو میڈیا کے ذریعے درست ثابت کرنے کے لیے پورا زور لگایا جارہا ہے اور پاکستان کی موجودہ حکومت درندہ صفتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظلم کو مبنی بر انصاف ثابت کرنے پر پوری توانائی صرف کیے ہوئے ہے۔
بات وہی ہے جو میں شروع میں عرض کرچکا ہوں کہ انسانی خون میں نہ جانے کیا لذت ہے کہ جس کے منہ کو لگ جائے اسے دنیا کے کسی کھاجے میں مزا ہی نہیں آتا۔ یہ خونخواری پورے ملک میں عام ہوتی جارہی ہے اور لگتا ہے کہ اس کو عام ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
کشمیر کو روتے ہیں، وہاں جتنا خون کافروں کے ہاتھوں گزرے برس ہوا اتنا تو ’’راؤانوار‘‘ نے مسلمان ہوتے ہوئے کر ڈالا لیکن وہ تو عیاشیاں کر تا پھررہا ہے۔ اس ایک کے آگے پاکستان کی ساری ایجنسیاں اور قانون بے بس و لاچار ہے لیکن محض شبہ میں بچی، ماں، والد اور والد کے دوست کو مار دیا جاتا ہے۔ یا تو یہ ساری ظالمانہ کارروائیاں بند کی جائے یا پھر کشمیر اور فلسطین میں ہونے والے مظالم پر رونا دھونا چھوڑدیا جائے۔