افغان امن مذاکرات کامیاب ہوگئے؟

169

کچھ دنوں قبل میرا ایک کالم جسارت میں شائع ہوا تھا جس میں افغان طالبان سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے رویے میں کچھ لچک پیدا کریں کیوں کہ مذاکرات میں بے لچک گفتگو کبھی مثبت نتائج نہیں دیا کرتی۔ یہ کالم اس وقت لکھا گیا تھا جب مذاکرات کا چوتھا دور اختتام پزیر ہوا تھا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مذاکرات کا یہ سلسلہ تعطل کا شکار نہیں ہوا اور چھٹے دور تک دراز رہا اور مذاکرات کے فریق کسی حد تک ایک دوسرے سے اپنا اپنا موقف منوانے میں کامیاب ہوئے۔ بے شک ان مذاکرات کا آغاز پاکستان کی کوششوں سے ہوا اور اگر کسی حد تک اس کے اختتام کو بھی مان لیا جائے تو اس میں پاکستان کا کردار سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ کچھ ہی ماہ پہلے تک امریکا کا عالم یہ تھا کہ اس کا صدر ہر روز پاکستان کو ایک دھمکی آمیز بیان داغ دیا کرتا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے وہ کسی بھی وقت کسی چوہے کی طرح پاکستان کو آ دبوچے گا اور یوں پاکستان کا وجود ہی ختم ہوجائے گا لیکن اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ وہ پاکستان کی ساری کوششوں کی نہ صرف تعریف پر تعریف کیے جارہا ہے بلکہ قدموں میں سر تک رکھنے کے لیے تیار ہے۔ میں نے ایسے ہی موقعے کے لیے کہا تھا کہ
کمزوروں کے آگے بھی جھکنا پڑجاتا ہے
مغروروں کے دانت بھی اکثر کھٹے ہوتے ہیں
یہاں پاکستان کے لیے غور طلب بات یہ ہے کہ کیا امریکا ہمارے ساتھ کوئی کھیل تو نہیں کھیل رہا۔ کیا اس کا پاکستان کی ان کوششوں کو سراہنا ایک وقتی مجبوری تو نہیں اور کیا اس کے لیے تمام راہیں محفوظ بنانے میں اور اس کو آسانی کے ساتھ افغانستان سے نکل جانے کا موقع فراہم کرنے میں پاکستان کا جز وقتی نہیں بلکہ کل وقتی فائدہ ہے؟۔ اس بات پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا امریکا کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد پاکستان ایک محفوظ ملک بن سکے گا؟۔ ان خدشات پر غور کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ طالبان جو امریکا کے جانے کے بعد حکومتی امور پر مزید غالب آجائیں گے کیا وہ پاکستان کے ہمدرد ہوں گے یا اس سارے دورانیے میں اپنے نقصانات کا ذمے دار پاکستان ہی کو قرار دیں گے اور پاکستان کی سرحدوں کے لیے خطرہ بن جائیں گے؟۔ امریکا کا ہر متحرک گروہ سے مذاکرات کرنا اور اچانک پاکستان سے پینگیں بڑھانے کا جو مقصد اب تک سامنے آیا ہے وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ امریکا کسی طرح اپنی جان و مال بچا کر لیجانے میں کامیاب ہو جائے۔ اب تک کی تاریخ یہی بتا رہی ہے کہ مقصد براری کے بعد وہ توتے کی طرح آنکھیں پھیر نے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ افغانستان سے محفوظ انخلا کے عوض پاکستان کو اپنی جانوں کی منہ مانگی قیمت ضرور ادا کرسکتا ہے۔ ادھر معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ ہم پیسوں کے آگے اپنی عزت و غیرت تک کا سودا کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ شک اس لیے بھی دل میں گھر کرتا نظر آتا ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنی ایک گفتگو میں فرما چکے ہیں کہ معاملہ ’’ڈالرز‘‘ کا نہیں امن کے قیام کا ہے۔
مذاکرات سے امریکی مفاد کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں۔ امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے اس بیان کو سامنے رکھا جائے تو بات بہت کھل کر سامنے آجاتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ امریکا افغانستان میں قیام امن کے لیے سنجیدہ ہے اور اپنی فوجوں کی مکمل واپسی پر یقین رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ دوحا میں امریکی مندوب زلمے خلیل زاد اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے خاتمے کے بعد جاری ہونے والے بیان میں پومپیو نے کہا کہ اس مذاکراتی عمل سے حوصلہ افزا اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ پاکستان میں بے شک مذاکرات کی کامیابی کا ذکر بہت شد و مد کے ساتھ ہے لیکن شاید جس شدت سے کامیابی کا تذکرہ کیا جارہا ہے اس میں اتنی حقیقت نہ ہو اس لیے کہ امریکی دفتر خارجہ سے جاری ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابھی صرف مذاکرات جاری رکھنے پر ہی اتفاق ہوا ہے فی الحال جنگ بندی پر کوئی اتفاق نہیں ہوا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق دوحا میں ہونے والے معاہدے میں 18 ماہ کے اندر افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔ جنگ بندی کا شیڈول آئندہ چند روز میں طے کیا جائے گا جبکہ طالبان جنگ بندی کے بعد افغان حکومت سے براہ راست بات کریں گے۔ مزید یہ کہ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد چھ روزہ مذاکرات کے بعد کابل جاکر معاہدے سے متعلق افغان صدر اشرف غنی کو اعتماد میں لیں گے۔ خبر ایجنسی کے مطابق طالبان نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ افغانستان کی زمین امریکا کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔
اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو کیے گئے معاہدے کی کوئی خاص اہمیت رہ نہیں جاتی اس لیے کہ افغان حکومت کو اعتماد میں لینے کی بات کوئی آسان نہیں۔ امریکا کی موجودگی میں بھی اگر اس وقت کی افغان حکومت طالبان کے نشانے پر ہے اور اس کو تادم تحریر سخت مزاحمت کا سامنا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکا کے چلے جانے کے بعد طالبان کو قابل قبول رہے گی۔ پھر یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ طالبان افغان حکومت سے براہ راست بات کرنے کے لیے اب بھی تیار نہیں ہیں البتہ انخلا کی صورت میں معاہدے کے مطابق وہ امریکا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔
ایک عجیب بات جو معاہدے میں طے کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ طالبان، داعش اور القاعدہ کو خطے میں آپریٹ نہیں کرنے دیں گے جس پر افغان طالبان نے رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے امریکی انخلا کی ٹائم لائن طلب کرلی ہے۔ گویا انخلا کے باوجود بھی خطے میں جنگ و جدل کے بادل اسی طرح چھائے رہیں گے جیسا کہ روس کے انخلا کے بعد چھائے رہے تھے۔ طالبان کا اس بات پر اتفاق ممکن ہے کہ کسی مصلحت کے تحت ہو اس لیے کہ فی الحال اسے بھی اگر دلچسپی ہے تو صرف اور صرف امریکا کا افغانستان سے رخصت ہوجانا ہے یہی وجہ ہے کہ طالبان نے اس بات کو کہ وہ داعش اور القاعدہ کو اس خطے میں آپریٹ نہیں کرنے دے گا کو امریکا کا خطے سے نکل جانے سے مشروط کر دیا ہے۔ گویا جب امریکا اپنے انخلا کا شیڈول جاری کرے گا اس وقت امریکا کی بات پر غور کرنا شروع کیا جائے گا۔
یہاں اہم ترین بات یہ ہے کہ پورے مذاکرات میں طالبان کو امریکا پر بھرپور فوقیت حاصل رہی اور ہر مرحلے پر یوں لگا کہ امریکا طالبان والی کمزور پوزیشن پر آگیا ہے اور طالبان امریکا بن گئے ہیں۔ اس بات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا صرف ایک ہی ایجنڈے پر کام کر رہا ہے اوروہ صرف اور صرف ’’جاں بخشی‘‘ کے سوا کچھ نہیں جبکہ وہ طالبان کی ہر بات پر ’’ہاں‘‘ کرنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ معاہدے میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ طالبان کے گرفتار شدگان کو رہا کیا جائے گا۔ عبوری حکومت بنائی جائے گی۔ طالبان کو سفری سہولتیں فراہم کی جائیں گی جس پر امریکا نے رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ یہاں ایک اور بات بھی قابل غور ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا یہ ساری باتیں موجودہ افغان حکومت کو قابل قبول ہوں گی؟۔ کیا وہ اپنے گلے میں نجیب اللہ کی طرح پھانسی کا پھندہ ڈالنے پر تیار ہوجائے گی؟۔
ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے صرف یہ خیال کرلینا کہ امریکا کے جانے کے بعد افغانستان مکمل پر سکون اور پر امن ہوجائے گا درست نہیں ہوگا نیز پاکستان کے لیے بھی یہ بات مان لینا کہ امریکا کے جانے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کوئی بہتری آجائے گی مناسب نہ ہوگا۔ یہاں پاکستان کو یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ افغانستان میں طالبان کے کئی گروہ ہیں اور داعش اور القاعدہ بھی ایک حقیقت ہیں۔ افغان طالبان ہوں، داعش ہو یا القاعدہ، ان سب کے خلاف پاکستان امریکا کے ساتھ مل کر ہر قسم کی کارروائیاں کرتا رہا ہے۔ یہ سب زخمی سانپ ہیں اور کسی وقت بھی ڈس سکتے ہیں۔ پھر پاکستان کو بھارت کا افغانستان میں بڑھتا ہوا اثرو رسوخ بھی دیکھنا ہوگا۔ کیا بھارت چاہے گا کہ پاکستان پر سکون رہے؟۔ مذاکرات کے فوراً بعد ہی پاکستان کے قونصل خانے پر حملے پر پاکستان کو غور کرنا ہوگا۔ بے شک یہ حملہ ناکام ہوگیا لیکن کیا ہمیشہ حملہ آور ناکام ہو جایا کریں گے۔ جہاں حملہ پاکستان کے ازلی دشمن کی حرکت لگتی ہے وہیں اس امکان کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ طالبان کا ہر متحرب گروہ پاکستان کا ہمدرد نہیں ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ پاکستان ان تمام پہلوؤں کو اپنے پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے لیے بہتر سے بہتر حکمت عملی تیار کرے گا اور صرف ڈالرز کی طمع میں گرفتار ہو کر نہیں رہ جائے گا۔